یہ ویکسین سیاست کا دور ہے۔ چین اس سیاست میں فتح یاب ہے۔ کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ کورونا کے ابتدائی دنوں میں وائرس کے خلاف چین کا رد عمل کوئی زیادہ قابلِ رشک نہیں تھا۔ چین میں اس معاملے کو ہلکا لینے کی وجہ سے یہ بیماری پوری دنیا میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ کچھ ممالک نے اس کو چین کا جانا بوجھا عمل قرار دے کر اس کو دنیا میں ہونے والی تباہی و بربادی کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ اس کی وجہ سے دنیا میں چین کے خلاف ایک منفی تاثر پیدا ہوا‘ جس کے باعث دنیا میں چین کی ساکھ اور نیک نامی کو کافی نقصان پہنچا۔
چین نے آگے چل کر اپنے عمل کے ذریعے اس تاثر کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ اس کے لیے چین نے یورپ سمیت دنیا کے کئی ممالک کو کورونا کے خلاف ضروری ساز و سامان مہیا کیا‘ جو اس وقت کھلی منڈی میں دستیاب نہیں تھا‘ اور جن ممالک کے پاس یہ ساز و سامان تھا‘ وہ اس کو دوسروں کے ساتھ شیئر کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ نفسانفسی کا یہ عالم تھا کہ صدر ٹرمپ نے ماسک لے کر کینیڈا جانے والا ٹرک روک دیا تھا‘ جو انہوں نے بہت زیادہ شور شرابے اور لعن طعن کے بعد جانے دیا۔
جیسا کہ پہلے عرض کیا‘ اب ویکسین کی سیاست کا دور ہے اور دنیا کی معاشی منڈی اور سیاسی میدان میں ویکسین کی دوڑ شروع ہو چکی ہے۔ چین کی کمیونسٹ پارٹی اور اس کے پالیسی سازوں کی ساری توجہ کا مرکز یہ سوال ہے کہ ویکسین کی اس دوڑ میں اپنے مقابل ترقی یافتہ ممالک کا کس طریقے سے مقابلہ کیا جائے؟ اس حوالے سے چین جس منصوبے کا بلیو پرنٹ تیار کر رہا ہے‘ اس کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ چینی ویکسین کو دنیا کی بہت بڑی آبادی تک کیسے پہنچایا جائے۔ اس دوڑ میں پہلا مرحلہ چین کا امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک کی سائنسی طور پر بہت ہی ترقی یافتہ طبی صنعت اور جدید ترین ٹیکنالوجی سے مقابلہ تھا۔ اس مقابلے میں یہ ثابت کرنا لازم تھا کہ چینی ساختہ ویکسین کا معیار اور اس کا اثر ان مغربی اور یورپی ممالک کے برابر ہے۔ دوسرا مرحلہ اس ویکسین کی تقسیم ہے‘ جس کو چین نے اپنے الفاظ میں منصفانہ تقسیم کہا ہے۔ چین نے تقسیم کے لیے جو بلیو پرنٹ تیار کیا ہے‘ اس کا مرکز نکتہ تیسری دنیا کے ترقی پذیر ممالک میں سستی ویکسین پہنچانا ہے اور یہ دیکھنا ہے کہ اس خدمت کے نتیجے میں کیا معاشی و سیاسی فوائد حاصل ہو سکتے ہیں؟
اس وقت دنیا کے کئی علاقوں یا ممالک میں ویکسین کی تیاری کا عمل مکمل ہو چکا ہے۔ جس وقت میں یہ سطور لکھ رہا ہوں اس وقت ان خبروں کی تصدیق ہو رہی ہے کہ امریکہ میں دو بڑی کمپنیوں‘موڈرینا اور فائزر نے ویکسین کے آزمائشی استعمال کی کامیابی کا اعلان کر دیا ہے۔ ان کی بنائی ہوئی ویکسینز کی کامیابی کی شرح نوے اور پچانوے فیصد ہے‘ اور اس کے مضر اثرات بھی کوئی خاص نہیں ہیں۔
ان دونوں کمپنیوں نے یہ اعلان کر دیا ہے کہ وہ امریکہ میں اس ویکسین کی سرکاری منظوری کے لیے درخواست دے رہی ہیں۔ منظوری کا یہ عمل دسمبر کے آخر یا جنوری میں مکمل ہو جائے گا۔ اس کے بعد یہ ویکسین منڈی میں دستیاب ہو جائے گی۔ دوسری طرف چینی ساختہ ویکسین آزمائشی استعمال کے مراحل طے کرنے کے بعد بعض جگہوں پر پہلے ہی استعمال کی جا رہی ہے۔ چین کی طرف سے تیار کی گئی ویکسین کو پہلے ہی متحدہ عرب امارات میں فرنٹ لائن ورکزر کو دیا جا رہا ہے۔ خود چین کے اندر ویکسین متعلقہ محکمے سے منظوری کے مراحل سے گزر رہی ہے اور شنید ہے کہ اس ماہ کے آخر تک اس کی منظوری ہو جائے گی۔
گویا چینی اور امریکی ویکسین کی سرکاری سطح پر ایک ہی وقت میں منظوری اور کھلی منڈی میں آنے کے امکانات ہیں؛ تاہم ان دونوں میں اس وقت جو واضح فرق سامنے آ رہا ہے وہ اس ویکسین کی تقسیم کے حوالے سے پالیسی کا ہے۔چین اس وقت ویکسین کو تیسری دنیا کی پس ماندہ‘ ترقی پذیر ممالک میں تقسیم کرنے کے بارے میں پالیسی پر کام کر رہا ہے۔ دوسروں کی سوچ اس حوالے سے مختلف ہو سکتی ہے۔ اس میدان میں بد قسمتی سے (ریاست ہائے متحدہ) امریکہ پہلے ہی صحت کی عالمی تنظیم کے ساتھ تعاون کرنے اور ان کے منصوبوں میں شرکت کرنے سے انکار کر چکا ہے۔ اس سلسلے میں امریکہ کی پالیسی واضح طور پر 'امریکہ سب سے پہلے‘ کے اصول پر پر مبنی ہے۔ آج ہی کی ایک خبر یہ ہے کہ امریکہ نے پاکستان کو کورونا ویکسین کی پہلے مراحلے میں فراہمی سے معذرت کر لی۔ دیگر ممالک کو بھی امریکہ کا یہی جواب ملا ہے‘ لہٰذا دوسرے الفاظ میں امریکہ پہلے ہی ایک قدم پیچھے کی طرف اٹھا کر چین کو کھلا میدان دے چکا ہے کہ وہ تیسری دنیا میں اپنی ویکسین کی تقسیم اور دستیابی کو ممکن بنا کر صحت کے میدان میں ایک عالمی رہنما کا رول ادا کرے۔
جہاں تک ترقی یافتہ دنیا میں ویکسین فروخت کرنے کا تعلق ہے تو چین کو اس سلسلے میں سب سے بڑا چیلنج ان ممالک کے سرکاری اداروں سے منظوری لینا ہے۔ اس سلسلے میں وہ امریکہ‘ یورپ اور جاپان کی منڈیوں میں مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ اس حوالے سے مغرب کے بیشتر ممالک تین بڑی کمپنیوں کے ساتھ ساتھ معاہدہ کر چکے ہیں‘ کیونکہ ان ممالک میں لاک ڈاؤن کی جو قیمت ادا کرنا پڑتی ہے‘ اس کے مقابلے میں ویکسین ان کے شہریوں کی حفاظت کے لیے بہت ہی سستا کام ہو گا۔ ان ممالک میں ویکسین پر تقریباً ساٹھ سے پچھتر ڈالر تک خرچ ہوں گے۔
ظاہرہے اس طرح کی مہنگی ویکسین ایشیا‘ افریقہ‘ مڈل ایسٹ اور دوسرے غریب ممالک کے زیادہ تر شہری خریدنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ اس قیمت کی وجہ سے وہ قدرتی طور پر چین کی طرف رجوع کریں گے اور چین کو اس حوالے سے ان کا دل جیتنے کا موقع مل جائے گا جس سے وہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گا۔اس طرح دنیا میں بے شمار ممالک ویکسین کی فراہمی کے لیے چین کی طرف دیکھنے پر مجبور ہوں گے؛ چنانچہ اس وقت چین اپنی ویکسین کو عالمی سفارت کاری اور نیک نامی کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کو پوزیشن میں ہے۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ کہ ایشیا‘ افریقہ اور لاطینی امریکہ میں درجنوں ممالک چین کے ساتھ ویکسین کی ضرورت کے حوالے سے جڑ چکے ہیں۔ چینی ویکسین سستی ہے‘ مگر اس کی بہرحال ایک قیمت ہے۔ ضروری نہیں کہ چین ویکسین کے بدلے میں ان ممالک سے بہت کچھ مانگے‘ لیکن وہ ضرور چاہے گا کہ وہ ملک اس کے بدلے میں اس کے احسان مند ہوں۔ جیسا کہ کورونا کے شروعات میں ہوا تھا‘ بلگراد میں اسمبلی کی عمارت پر''تھینک یو بگ برادر‘‘ (شکریہ بڑے بھائی) کا بینر لگایا گیا تھا۔ اسی طرح اٹلی نے بھی چین کی طرف سے ماسک اور دوسری ضروریات مہیا کرنے پر شکریہ ادا کیا تھا۔ اسی طرح لگتا ہے کہ ویکسین کی تقسیم پر بھی دنیا کی طرف سے احسان مندی اور ممنونیت کا مظاہرہ ہو گا۔ موجودہ صورتحال میں لگتا ہے کہ اگر امریکہ کی یہی پالیسی رہی تو چین کم ازکم اس میدان میں گلوبل لیڈرشپ کا دعویٰ کرنے کا مجاز ہو گا۔