"FBC" (space) message & send to 7575

ماضی کی یادوں میں مستقبل کے خواب

وزیر اعظم پاکستان نے کہا ہے کہ ملکی ترقی کے لیے 1960 کی انڈسٹریل پالیسی پرعمل کیا جائے گا۔ انہوں نے فرمایا کہ ساٹھ کی دہائی میں پاکستان تیزی سے ترقی کر رہا تھا لیکن ترقی کا عمل رک گیا‘ ہماری کوشش ہے کہ ملک دوبارہ اس راستے پر چلے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ ہفتے فیصل آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی تقریب سے خطاب اور میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ انیس سو ساٹھ کی دہائی میں پاکستان کے پانچ سالہ پلان کی تقلید کر کے ملائیشیا اور جنوبی کوریا نے ترقی کی لیکن ہم پیچھے رہ گئے‘ اب دوبارہ ملک کو ترقی کے ٹریک پر واپس لانا ہے۔ ساٹھ کی دہائی میں پاکستان کی انڈسٹری تیز رفتاری سے ترقی کر رہی تھی لیکن جب ستر کی دہائی میں ذوالفقارعلی بھٹو منتخب ہو کر آئے تو انہوں نے نیشنلائزیشن کا عمل شروع کیا۔ اس سے ترقی کا یہ عمل رک گیا۔ ہمیں صنعتی شعبے میں اضافی سرمایہ کاری کرنی چاہیے تھی لیکن ہم نے ایسا نہیں کیا۔ اس کے بجائے صنعتوں کو قومیانے کا عمل شروع کیا حالانکہ چاہیے یہ تھا کہ سرمایہ کار اپنی دولت بڑھانے کے ساتھ ساتھ اضافی سرمایہ لوگوں کی غربت کے خاتمے پر خرچ کرتے۔ انہوں نے کہا کہ چین نے اسی طریقہ کار کے تحت صنعت کاری کی۔ پہلے اس کے سرمایہ کاروں نے دولت بڑھائی اور پھر ستر کروڑ سے زائد لوگوں کو غربت سے باہر نکالا‘ اور بے مثال ترقی کی۔ وزیر اعظم کے خطاب میں تین اہم نکات تھے۔ ایک یہ کہ پاکستان میں صنعت انیس سو ساٹھ میں قابل رشک رفتار سے ترقی کر رہی تھی۔ دوسرا یہ کہ ستر کی دہائی میں صنعتوں کو قومیانے کی سوشلسٹ پالیسی صنعتی ترقی کے راستے میں رکاوٹ بن گئی‘ اور تیسرا چین کی ترقی کا راز یہ ہے کہ وہاں سرمایہ کار نے پہلے خود دولت بنائی اور پھر عام لوگوں کو غربت سے باہر نکالنے کے سلسلے میں کام کیا گیا۔
یہ درست ہے کہ ساٹھ کی دہائی میں ہمارے ملک میں قابل ذکر صنعتی ترقی ہوئی، مگر اس کا ایک خاص پس منظر ہے۔ اس کا تعلق کسی کامیاب یا ناکام انڈسٹریل پالیسی سے نہیں تھا۔ یہ وہ دور تھا جب صرف پاکستان ہی نہیں تیسری دنیا کے بیشتر ممالک نے انتہائی تیز رفتاری سے صنعتی ترقی کے مراحل طے کیے تھے۔ ان میں سے کئی ممالک کی کوئی صنعتی پالیسی ہی نہیں تھی‘ اس کے باوجود انہوں نے تیزی سے ترقی کی۔ ایوب خان نے 1958 میں اقتدار اپنے ہاتھ میں لیا اور جو نئی صنعتی پالیسی اپنائی اس کے دو پہلو تھے۔ ایک قرضے اور دوسرا بیرونی مقابلے سے تحفظ۔ اس وقت ملک میں دو انڈسٹریل بینک موجود تھے۔ اس پالیسی کے تحت ان دو سرکاری انڈسٹریل بینکوں کے ذریعے صنعتوں کو قرضے اور سبسڈی دی گئی‘ اور چند منتخب صنعتوں کو بیرونی مقابلے سے تحفظ دیا گیا۔ یہ دونوں وقتی اقدامات تھے، جو کئی ایک ممالک نے عارضی طور پر اختیار کیے‘ جس کے مناسب اثرات ظاہر ہوئے‘ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ قرض اور سبسڈی پر صنعتی پالیسی نہ تو زیادہ عرصے تک چلایا جا سکتا ہے اور نہ ہی کسی ملک نے ایسا کرنے کی کوشش کی۔
ساٹھ کی دہائی میں جس چیز سے پاکستان کی معیشت پر سب سے بڑا فرق پڑا، اور جس چیز سے پاکستان میں بظاہر خوش حالی کی لہر دکھائی دی وہ امریکی امداد تھی۔ دوسرا‘ ملک میں مسلط مطلق العنانیت کی وجہ سے ایک طرح کا ظاہری سیاسی استحکام پیدا ہوا۔ ملکی صنعت میں جو بھی ترقی ہوئی‘ اس کی بنیادی وجہ سرمایہ کاری میں اضافہ اور سبسڈی کی فراہمی تھی۔ ان اقدامات سے خوش حالی کا ایک ابھار دکھائی دیا، جس کو لمبے عرصے تک جاری رکھنا ممکن نہیں تھا۔ 
ذوالفقار علی بھٹو نے انتہائی طوفانی، ہیجان خیز اور مشکل ترین حالات میں اقتدار سنبھالا۔ ان کے اقتدار میں آنے سے پہلے ہی ایوب خان کی قرضہ اور سبسڈی پالیسی کی ناکامی کے اثرات ظاہر ہونا شروع ہو گئے تھے۔ بنگلہ دیش کے معاملے اور دیگر مسائل نے ان اثرات کو مزید گہرا اور شدید کر دیا تھا۔ ان کے (ذوالفقار علی بھٹو) اقتدار میں آتے ہی یعنی انیس سو اکہتر اور بہتّر کے دوران ہی ہم غربت کے انسیڈنٹ میں 55 فیصد پر پہنچ گئے تھے۔ اس کے فوراً بعد 1973 کا تیل کی قیمتوں کا عالمی شاک شروع ہوا۔ اس شاک کی وجہ سے تیل کی قیمتوں میں ہونے والے اضافے کے باعث آنے والے سالوں میں پوری دنیا میں بد ترین معاشی بحران پیدا ہوا‘ جس سے پاکستان سمیت دنیا کے تمام ممالک شدید طور پر متاثر ہوئے۔ یہ بحران 1975 سے لے کر 1977 تک چلتا رہا۔ اس دوران معیشت کے لیے جو تباہ کن واقعات رونما ہوئے اور معیشت کو منفی انداز میں متاثر کرنے والے دیگر بڑے واقعات ہوئے‘ ان میں کاٹن کی فصل کی بڑے پیمانے پر ناکامی اور فصلوں پر پیسٹس کا حملہ تھا۔ یہ وہ طوفانی واقعات تھے، جنہوں نے قومی معیشت کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اس سے غربت، بے روزگاری اور طبقاتی تقسیم میں اضافہ ہوا۔ یہ مسائل اتنے گمبھیر تھے کہ ان کے حل کے لیے کسی انقلابی نظریے کی ضرورت تھی۔ سوشلزم اس وقت دنیا بھر میں تیز رفتار ترقی اور طبقاتی تقسیم میں کمی کی ضمانت سمجھا جاتا تھا۔ درجنوں ممالک اس کا کامیاب تجربہ کر چکے تھے۔ بھٹو صاحب نے اس تجربے سے استفادہ کرنے کی بے دلی اور ڈھل مل یقینی سے ادھوری سی کوشش کی، جس میں ناکامی کا ذمہ دار سوشلسٹ نظریات کو ٹھہرانا نا انصافی ہو گی۔ وزیر اعظم نے جس چین کی قابل رشک ترقی کی تعریف کی اور اسے قابل تقلید قرار دیا وہ ترقی بھی سوشلسٹ نظریے کی ہی مرہون منت ہے۔ ساٹھ کی دہائی میں چین نے جو بھی صنعتی ترقی کی وہ سوشلسٹ پالیسی کے تابع تھی۔ آج بھی چین کی صنعتی پالیسی چین کی کمیونسٹ پارٹی کی رہنمائی میں تشکیل پاتی ہے، اور پارٹی مارکسزم اور مارکسی نظریات کو اپنے رہنما اصول تسلیم کرتی ہے۔
انیس سو ساٹھ اور آج کے دور میں ساٹھ سال کا فرق ہے۔ ایک لمبا عرصہ بیت چکا ہے۔ اس دوران دنیا میں بہت کچھ بدل چکا ہے۔ معاشی حالات بدل چکے ہیں‘ عالمی سماج میں لا تعداد تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں۔ ایک دوسرے سے کٹی ہوئی عالمی برادری آج ایک گلوبل ویلیج بن چکی ہے۔ پچھلی صدی میں اور خصوصاً پچھلی صدی کی چھٹی دہائی میں انڈسٹریل پالیسی بنانا ایک طرح کا فیشن بن گیا تھا۔ دنیا میں ایک جدید صنعت شروع ہو رہی تھی، جس کی بنیاد ہی ایک جدید انڈسٹریل پالیسی تھی‘ لیکن اب یہ فیشن بدل گیا ہے۔
تاریخ میں آج تک پاکستان میں جتنی پالیسیاں بنائی گئی ہیں اس کے دو پہلو رہے ہیں۔ ان میں ایک ملک کے کچھ منتخب شدہ صنعتی شعبوں کو تحفظ فراہم کرنا تھا۔ مثال کے طور پر آٹو اور چینی کی صنعتوں کو تحفظ فراہم کیا گیا تا کہ وہ عالمی صنعت کے مقابلے کے بغیر اپنی جگہ بنا سکیں‘ یعنی اس میدان میں ایک طرح کی پروٹیکشن کی پالیسی اختیار کی گئی‘ اور دوسرا بڑا ہتھیار جو اس پالیسی کے تحت استعمال کیا گیا وہ چند منتخب صنعتوں کو مالی مدد فراہم کرنا تھا۔ مثال کے طور پر ٹیکسٹائل کی صنعت کو پیش کیا جا سکتا ہے‘ لیکن یہ پالیسی دونوں کے لیے تباہ کن رہی ہے۔ مقامی صنعت مارکیٹ کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو گئی‘ اسی طرح ان کو جو مالی مدد دی جاتی رہی‘ اس کی وجہ سے انہوں نے حکومت کی طرف دیکھنا اور اس پر انحصار کرنا شروع کر دیا۔ ماضی کی اس ناکام پالیسی کا احیا کوئی مثبت نتائج نہیں برآمد کر سکے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں