اسرائیل کے وزیر اعظم کا خفیہ دورۂ سعودی عرب‘ گزشتہ ہفتے کی ایک اہم خبر تھی۔ اس خبر کے سچ یا جھوٹ ہونے پر شاید دو آرا موجود ہوں لیکن اسلامی دنیا کے وہ ممالک جہاں ذرائع ابلاغ تھوڑے بہت آزاد ہیں وہاں یہ ایک نمایاں خبر کے طور پر پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں نمودار ہوئی۔ پاکستان میں اس خبر پر بڑا رد عمل بھی دیکھنے میں آیا‘جہاں اسرائیل کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے پر بحث ان دنوں پھر سے جاری ہے۔ میں نے کچھ عرصہ پہلے متحدہ عرب امارات کی طرف سے اسرائیل کوتسلیم کرنے پر ایک کالم لکھا تھا‘ موجودہ بحث کے تناظر میں اس کالم میں لکھی ہوئی باتیں پہلے سے زیادہ متعلق لگتی ہیں۔ میں نے عرض کیا تھا‘ اور مکرر عرض ہے کہ کچھ لوگوں نے اسے فلسطینیوں کی پیٹھ میں خنجرگھونپنے کے مترادف قراردیا ہے‘ مگرجذبات اورتعصبات سے سے اوپراُٹھ کردیکھاجاسکے توجوحقائق سامنے آتے ہیں وہ بڑے تلخ ہیں‘اوردنیا میں ہونے والی نئی صف بندیوں اورسٹریٹیجک مفادات کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ اگرعرب اسرائیل تعلقات کی تاریخ پرنظرڈالی جائے توکچھ چشم کشا حقائق سامنے آتے ہیں۔ ان حقائق کی روشنی میں اس بات میں شک کی کوئی گنجائش نہیں رہ جاتی کہ فلسطین کے حوالے سے عربوں کی پالیسی میں بے شمارنقائص رہے ہیں۔ یہ تضادات سے بھرپورایسی پالیسی رہی ہے جس کی بنیادیں جذبات پرکھڑی ہیں؛ چنانچہ حقائق کی دنیامیں یہ بنیادی طورپرایک ناکام پالیسی ثابت ہوئی ہے۔ اس پراتنا وقت اورپیسہ برباد کرنے کے باوجود اس سے کوئی مثبت نتائج برآمد نہیں ہوسکے۔ اس کے برعکس اس پالیسی سے گاہے عربوں کے مفادات اورفلسطین کاز‘دونوں کو نقصان پہنچا ہے۔
عرب اسرائیل تعلقات کے باب میں عرب اقوام نے تین شرائط رکھ کر اعلان کر دیا کہ ان شرائط کے پوراکئے بغیراسرائیل کوتسلیم نہیں کیاجا سکتااورنہ ہی اس کے ساتھ کسی قسم کا تعلق قائم کیاجا سکتا ہے۔ ان شرائط میں پہلی شرط یہ تھی کہ اسرائیل تمام مقبوضہ علاقے واپس کرے‘ فلسطین کی الگ ریاست قائم کرے اورتمام فلسطینی مہاجرین اورپناہ گزینوں کی واپسی کے حق کو تسلیم کرے۔ اسرائیل پہلے دن سے یہ تین شرائط ماننے سے انکارکرتا رہا ہے۔ عرب اوراسلامی ریاستوں نے اسرائیل کے سامنے جوتین مطالبات رکھے وہ بالکل جائزتھے‘ مگر وہ اسرائیل سے یہ مطالبات منوانے میں نا کام رہے‘ جس کی بڑی وجہ خودمسلمان ریاستوں کے اندرعدم اتفاق‘ باہمی دشمنی اوراپنے اپنے طورپراسرائیل کے ساتھ معاملات کرنے کی کوششیں تھیں۔ یہ کوششیں کبھی خفیہ اورکبھی کھلے عام ہوتی رہی ہیں۔
امارات کے اس تازہ ترین عمل کوفلسطین کی پیٹھ میں خنجرقراردینے والاترکی مسلم دنیا کا پہلاملک تھا جس نے سب سے پہلے اسرائیل کو تسلیم کیا اوراس کے ساتھ تعلقات قائم کئے۔ ترکی کے ساتھ یہ تعلقات اسرائیل کے قیام کے فوراًبعد 1949 ء میں شروع ہوگئے تھے۔ ان تعلقات میں بڑے نشیب و فراز بھی آئے‘ مگروقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ تعلقات بہت گہرے ہو چکے ہیں۔ متحدہ عرب امارات کے اس فیصلے کومسلمانوں سے دھوکہ قراردینے والا ایران دوسرااسلامی ملک تھا جس نے 1950ء میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کئے تھے۔ اسلامی انقلاب کے بعد یہ باب اگرچہ بند ہو چکا ہے؛ تاہم انقلاب سے صرف دوبرس قبل ایران اور اسرائیل ایک مشترکہ میزائل بنا رہے تھے جونیوکلیئر وارہیڈ لے جانے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ آیت اللہ خمینی نے 1971ء میں کہہ دیا تھا کہ اسرائیل ایران کے سیاسی‘ معاشی اورفوجی معاملات میں اس قدرگھس چکا ہے کہ ایران عملی طورپراس کا فوجی اڈا بن کر رہ گیا ہے۔1979 ء کے اسلامی انقلاب کے تین ہفتے بعد اسرائیل سے تعلق ختم کر نے کا اعلان کر دیا گیا‘ مگر ایران عراق جنگ کے دوران اسرائیل سے اسلحہ خریداجاتارہا‘ جبکہ امریکی پابندیوں کے باوجود ایرانی تیل اسرائیل کے راستے یورپ پہنچتا رہا۔ اس کا اعتراف سوئٹزرلینڈ میں مقیم ایک بین الاقوامی تاجرمارسل ڈیوڈ رائیچ نے کیا۔ امریکی پابندیوں کے با وجود مارسل پندرہ سال تک ایرانی تیل اسرائیل کوفروخت کرتا رہا۔ امریکہ میں اس بات پراس کے خلاف امریکی پابندی کی خلاف ورزی کا مقدمہ بھی چلا۔
عراق کی شکست اورسویت یونین کے ٹوٹنے کے بعدایران نے سب سے بڑاخطرہ امریکہ کوقراردیا۔ اس کے بعد امریکہ ایک بڑا شیطان اوراسرائیل چھوٹا شیطان قرارپایا؛ چنانچہ چھوٹے شیطان کا مقابلہ کرنے کے لیے غزہ میں حماس اورلبنان میں حزب اللہ جیسی قوتوں کی حمایت شروع کردی گئی۔ترکی اورایران کی طرح خفیہ تعلقات اورجنگ وجدل کے بعد مصرنے بھی 1980 ء میں اسرائیل کو باقاعدہ تسلیم کیا۔ آج مصر اور اسرائیل کے درمیان فوجی اورسکیورٹی تعاون جاری ہے۔ فلسطینیوں کی جہدوجہد کے باب میں اسلامی دنیا میں اہم ترین ملک اردن ہے۔ اس کی وجہ صرف اردن میں فلسطین کی بہت بڑی آبادی ہی نہیں‘ کئی دوسرے عناصربھی ہیں۔ فلسطینی اتھارٹی قائم ہونے تک فلسطینی اردن کے شہری تھے۔ اس قربت کے باوجود دوسری طرف اردن کے شاہوں اوراسرائیلی رہنماؤں کے درمیاں ملاقاتیں اسرائیل کے قیام سے پہلے شروع ہو چکی تھیں۔ اردن کے شاہ کے ساتھ ان خفیہ ملاقاتوں کا احوال اسرائیلی وزیر اعظم گولڈا مئیرنے اپنی کتاب میں بڑی تفصیل سے کیا ہے۔ ایک بارپوریم کے تہوارکے موقع پرسابق اسرائیلی وزیراعظم ازحاک رابن نے بھیس بدل کراپنی تصاویر سوشل میڈیا پر ڈالیں۔ ان تصاویرکے ساتھ انہوں نے لکھا کہ وہ کئی مرتبہ اس طرح کا بھیس بدل چکا ہے‘ جب وہ سترکی دہائی میں اردن کے شاہ حسین سے ملنے کے لیے جایا کرتا تھا۔ اردن کے شاہ عبداللہ‘ ان کے بیٹے اورپوتے کے بارے میں بھی کئی مستند دستاویزات موجود ہیں کہ وہ کئی باراسرائیلی لیڈروں کوخفیہ طریقے سے اسرائیل کے اندرجاکرملے ہیں۔آج اسرائیل اوراردن کے درمیان گہراتعلق ہے۔ اسرائیل اردن کو سکیورٹی بفرکے طورپر بھی استعمال کرتا ہے۔
اسرائیل اورمتحدہ عرب امارات کے درمیان خفیہ مذاکرات مدت سے جاری ہیں۔ ان مذاکرات کے نتیجے میں ہی امارات نے اسرائیل کوتسلیم کیا۔ یہ فیصلہ راتوں رات نہیں ہوا‘ بلکہ اس کا ایک طویل پس منظرہے۔ اگست 2018 ء میں ذرائع ابلاغ نے ایک خبردی جس پربہت سے لوگ یقین کرنے کے لیے تیارنہیں تھے۔ اس خبرکے مطابق متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کے نیشنل سکیورٹی گروپ کوعرب امارات کے شہریوں کی جاسوسی کا ٹھیکا دیا تھا۔ اس ٹھیکے کے تحت اسرائیلی گروپ نے سپائی ویئرکے ذریعے عرب امارات کے شہریوں کے فون سنے۔ یہی اسرائیل ساختہ سپائی ویئراستعمال کرنے کا الزام سعودی عرب پربھی لگتا رہا ہے۔ 2018 ء میں ہی اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے دورہ ٔاومان کے فوراًبعد اسرائیل کی وزیرثقافت میری ریگیو نے ابوظہبی کا دورہ کیا تھا۔ یہ خاتون ایک انتہاپسند قدامت پرست ہے اور اسرئیل میں نسل پرستانہ اشتعال انگیز زبان استعمال کرنے کی شہرت رکھتی ہے‘مگراس کا گرم جوشی سے استقبال ہوا۔
فلسطین کا مقدمہ قومی آزادی کی تحریکوں کی تاریخ کا سب سے مضبوط ترین مقدمہ رہا ہے۔ یہ مقدمہ لڑتے ہوئے انہوں نے قربانی کی قابلِ رشک مثالیں قائم کی ہیں۔ سیاسی‘ سفارتی اورمسلح محاذ پرانہوں نے بے مثال جہدوجہد کی ہے۔ ایک وقت میں ایک سپرپاورسویت یونین سمیت آدھی سے زیادہ دنیا ان کے ساتھ کھڑی تھی‘ مگرفلسطینی اس وقت تک اپنی منزل حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مسلمان ریاستوں کے اسرائیل کے ساتھ اچھے یا بُرے تعلقات کبھی بھی فلسطینیوں کے مفاد کے تابع نہیں رہے‘ بلکہ عرب حکمرانوں کے اپنے ذاتی مفادات کے تابع رہے ہیں‘ جن کووہ قومی مفادات کا نام دیتے ہیں۔