نئے پاکستان کی بات ابھی ختم نہیں ہوئی۔ اگرچہ دھیمے لہجے میں ہی سہی‘ مگر اب بھی گاہے یہ بات سنائی دیتی ہے۔ نئے پاکستان کے نام پر ہم کبھی ایک نظامِ حکومت کے قیام کی بات کرتے ہیں اور کبھی سویڈن اور ناروے جیسی مساوات اور انصاف کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ان نیک خواہشات اور بلند عزائم کے باوجود مگر تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ہاں روز بروز امیر اور غریب کے درمیان فرق بڑھتا جا رہا ہے۔ معاشی عدم مساوات میں اس تیز رفتاری سے اضافہ ہو رہا ہے کہ یہ ہمارے وقت کا سب سے بڑا معاشرتی اور معاشی مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔
معاشی و سماجی عدم مساوات کی گوناگوں وجوہات ہیں۔ یہ مسئلہ انتہائی سست رفتار معاشی ترقی اور طبقاتی تقسیم سے جڑا ہے۔ اس مسئلے سے عام آدمی متاثر ہوتا ہے۔ یہ معاشرتی عدم اطمینان اور بد امنی کو فروغ دیتا ہے۔ اس سے لوگوں میں مایوسی اور بے چینی بڑھتی ہے۔ عدم مساوات کو لے کر اب سوال کسی مشرقی یا مغربی ماڈل کے انتخاب کا نہیں ہے، یا عوام کو اس بات پر قائل کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ دنیا میں کون سا معاشی و سیاسی نظام مثالی ہے؟ یا کس نظام کی کیا برکات اور کیا حاصلات ہیں؟ اب صورت حال ان مراحلے سے آگے بڑھ چکی ہے۔ اب اصل مسئلہ معاملات کی درستی کے لیے عملی اقدامات کرنے کا ہے۔ غریب عوام کو اپنی غربت اور بے چارگی کے خاتمے سے دلچسپی ہے۔ ان کو اب اس بات پر قائل کرنے کی مزید ضرورت نہیں ہے کہ وہ پس ماندگی اور نا انصافی کا شکار ہیں اور ان کی زندگیوں میں حقیقی اور خوش گوار تبدیلی کے لیے معاشی و سماجی انصاف کی ضرورت ہے۔ اس کام کے لیے آپ کسی ریاست کا ماڈل پیش کریں یا سویڈن و ناروے کے قصے بیان کریں‘ اس سے عوام کو چنداں کوئی فرق نہیں پڑتا۔
ہماری یہ دنیا بحیثیت مجموعی عدم مساوات کی شکار ہے۔ کوئی نظام مثالی نہیں، اور کسی بھی ملک کا نظام ہر لحاظ سے مکمل اور بے داغ نہیں ہے۔ اگرچہ یہ حقیقت ہے کہ ہمارے اس معاشی عدم مساوات اور سماجی نا انصافی کے دور میں کچھ ممالک میں عوام کو وہ زندگی میسر ہے، جس کو ہم ماڈل قرار دے کر اپنے عوام کے لیے اس کی خواہش کر سکتے ہیں۔ ان ممالک‘ جن میں ڈنمارک، فن لینڈ، آئس لینڈ، ناروے اور سویڈن سرفہرست ہیں‘ میں کسی حد تک وہ معاشی و سماجی مساوات موجود ہے جس کا دوسرے ممالک خواب دیکھ سکتے ہیں‘ لہٰذا یہ قدرتی بات ہے کہ پاکستان جیسے تیسری دنیا کے غریب ممالک ہی نہیں بلکہ ترقی یافتہ دنیا کے امیر ترین ممالک بھی اپنے ہاں زیادہ مساوی معاشرے کی تشکیل کے لیے ان ممالک کے معاشی و سماجی ڈھانچوں اور ان کے نظام سے رہنمائی لے سکتے ہیں۔
عدم مساوات کے باب میں قابل رشک اقدامات کرنے کے باوجود ایسا نہیں ہے کہ ان ممالک میں بسنے والے انسانوں کے تمام مسائل حل ہو چکے ہیں۔ سکینڈے نیویا کے یہ ممالک مخلوط معیشتوں والے جمہوری ممالک ہیں، جو زیادہ تر سماجی جمہوریت کے تصورات کے زیر اثر ہیں۔ وہ کلاسیکی معنوں میں کوئی سوشلسٹ ممالک نہیں۔ وہ مرکزی سطح پر منصوبہ بند معیشت کے بجائے آزاد مالی منڈیوں سے جڑے ہیں حالانکہ ریاست معیشت کے نظم و نسق میں سٹریٹیجک کردار ادا کرتی ہے، اور ملک کے معاشی بندوبست میں مداخلت کرتی ہے۔ ان ممالک کے پاس سرمایہ دارانہ مروجہ قانون رائج ہیں جو ذاتی و نجی ملکیت کو تحفظ دیتے ہیں اور کارپوریٹ املاک کی حفاظت کرتے ہیں۔ ان میں نجی معاہدوں اور لین دین کے معاملات کو نافذ کرنے کے سخت قوانین موجود ہیں۔
ان ممالک کی کہانی کامیابی کی کہانی ہے، جو یہ ثابت کرتی ہے کہ سرمایہ دارانہ ممالک میں بھی خاطر خواہ فلاحی ریاستیں ممکن ہیں، اگرچہ اس قسم کی فلاحی ریاستوں کے قیام سے طبقاتی تقسیم مکمل طور پر ختم نہیں ہوتی‘ لیکن غربت، بے روزگاری اور بے گھری جیسے سنگین مسائل پر کسی نہ کسی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔
کسی بھی ملک میں معاشی و سماجی عدم مساوات کی ایک بڑی وجہ آمدنی کی عدم مساوات ہے۔ پاکستان میں آمدنی کی تقسیم میں نا انصافی کا معاملہ عیاں ہے۔ یہ اتنا صاف دکھائی دیتا ہے کہ اس کے لیے اعداد و شمار کے گورکھ دھندے میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس عدم مساوات کا اظہار ہماری روز مرہ زندگی میں بھی نمایاں ہے۔ ہماری گلیوں، محلوں اور سڑکوں پر اس کا اظہار عام ہے۔ آمدنی میں یہ عدم مساوات غربت زدہ لوگوں کے رہن سہن اور طرز زندگی سے واضح طور پر چھلکتا ہے۔
سماجی و معاشی عدم مساوات کی دوسری بڑی اور اہم وجہ کسی بھی ملک میں دولت کی غیر منصفانہ تقسیم ہوتی ہے۔ دولت کی یہ غیر منصفانہ تقسیم صرف تیسری دنیا کے غریب اور پس ماندہ ممالک میں ہی نہیں، ترقی یافتہ اور خوش حال ممالک میں بھی ہے؛ البتہ فرق یہ ہے کہ تیسری دنیا کے غریب ممالک میں یہ تقسیم سر عام دکھائی دیتی ہے‘ لیکن اگر اعداد و شمار کی روشنی میں دیکھا جائے تو سکنڈے نیویا کے کچھ ممالک کی نسبت امریکہ اور برطانیہ جیسے ممالک میں یہ تقسیم صاف دکھائی دے گی۔
معاشی و سماجی عدم مساوات کا اظہار مختلف ممالک کے اندر عومی فلاح و بہبود اور انسانی ترقی کے اشاریوں سے بھی ہوتا ہے۔ اقوام متحدہ کی تازہ رپورٹوں میں دنیا میں انسانی ترقیاتی انڈیکس میں ناروے اور ڈنمارک شاندار کارکردگی والے پہلے اور پانچویں نمبر پر ہیں۔
عدم مساوات کا کرپشن اور بد عنوانی سے بہت گہرا تعلق ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے تیار کردہ بد عنوانی کے سالانہ انڈیکس کے مطابق ڈنمارک، فن لینڈ، ناروے اور سویڈن دنیا کے ان چھ ممالک میں شامل ہیں جن میں سب سے کم کرپشن ہے۔ بد عنوانی کے ان اعداد و شمار کا دوسرے ممالک سے تقابل کیا جائے تو برطانیہ دسویں، امریکہ 18 ویں نمبر پر ہے۔
آزادیٔ اظہارِ رائے کا بھی عدم مساوات سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔ جہاں ذرائع ابلاغ آزاد ہوں وہاں لوٹ کھسوٹ اور نا انصافی تیزی سے بے نقاب ہوتی ہے۔ اس نظر سے دیکھا جائے تو آزادیٔ صحافت کے عالمی اشاریے میں یہ ممالک ہر سال سب سے اوپر کی پوزیشن حاصل کرتے ہیں۔
معاشی ترقی اور خوش حالی کے لحاظ سے ترقی یافتہ اور خوش حال ممالک کے برابر ہونے کے علاوہ ان ممالک کا کارِ نمایاں فلاحی ریاستوں کا قیام ہے۔ ان ریاستوں میں مفت تعلیم، مفت علاج، روزگار کی ضمانت، جمہوری اور شہری آزادیوں کی ضمانت نے شہریوں کے ریاست پر اعتماد کو بڑھایا ہے۔ یہ فلاحی معاشرے بھاری ٹیکسوں پر چلتے ہیں۔ یہ ٹیکس ادا کرنے والے لوگ اپنی آمدنی کا بہت بڑا حصہ ریاست کے حوالے کرنے کے باوجود پُر مسرت زندگی گزارتے ہیں۔
ہر ملک و قوم کی کچھ اپنی خصوصیات اور اپنا ایک مخصوص نفسیاتی کردار ہوتا ہے۔ اس لیے کسی ایک ملک کے کامیاب نظام کو ہوبہو دوسرے ملک میں نافذ کرنے کے یکساں نتائج نہیں نکل سکتے‘ لیکن کچھ ایسے عناصر ضرور ہیں، جن کی حیثیت یونیورسل اور یکساں ہوتی ہے۔ پاکستان ان ممالک سے جن چیزوں میں سبق سیکھ سکتا ہے‘ وہ اظہار رائے اور میڈیا کی آزادی، کرپشن کا خاتمہ اور شفاف نظام ہے، جس میں عوام کے بنیادی حقوق اور شہری آزادیوں کو مکمل تحفظ حاصل ہو، اور یہ چیزیں سماجی و معاشی عدم مساوات کم کرنے میں مدد دے سکتی ہیں۔