''پاکستان میں کوئی بھوکا نہیں سوئے گا۔ سال دو ہزار اکیس کا ہمارا ایک ہدف غربت کا خاتمہ ہے۔ ہم دو ہزار اکیس میں کاروبار دوست پالیسیاں بنائیں گے۔ جو دولت پیدا ہو گی اس سے ہم عوام کو غربت سے نکالنے پر خرچ کریں گے۔ احساس پروگرام کے ذریعے ایک اور پروگرام متعارف کرانے لگا ہوں، جس کے تحت ہم کوشش کریں گے کہ پاکستان میں کوئی بھوکا نہ سوئے۔ پاکستان اگر کسی ملک سے سیکھ سکتا ہے تو وہ ہے چین، کیونکہ ان کا ترقی کا ماڈل اور طریقہ کار ہمارے لیے سب سے بہتر رہے گا‘‘ ان خیالات کا اظہار گزشتہ دنوں وزیر اعظم پاکستان نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ وزیر اعظم پاکستان غربت کے خاتمے میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ اس باب میں وہ وقتاً فوقتاً اپنے خیالات کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ وہ غربت کے خاتمے میں کامیاب ہونے والے مختلف ممالک کے ماڈلز میں بھی گہری دلچسپی رکھتے ہیں‘ اور اس بارے میں اکثر سوچتے رہتے ہیں کہ پاکستان کے لیے ان میں سے بہترین ماڈل کون سا ملک ہو سکتا ہے۔ ان کی اس ذہنی مشق یا مشیران کرام کی صلاح کاری کے نتیجے میں اب انہوں نے حتمی لہجے میں فرمایا ہے کہ چین کی ترقی کا ماڈل اور طریقہ ہی ہمارے لیے سب سے بہتر ہے۔ مگر وزیر اعظم صاحب کی یاد دہانی کے لیے یہ عرض کرنا بے جا نہ ہو گا کہ اگر پاکستان میں کوئی شخص بھوکا نہیں سوئے گا تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اس کی زندگی سے غربت ختم ہو گئی۔ غربت محض بھوک کا نام نہیں ہے۔ غربت ایک وسیع و عریض المیہ ہے۔ اس کے کئی خوفناک شکلیں اور رنگ ہیں۔ بھوک ان میں سے محض ایک رنگ ہے۔ یہ پوری تصویر نہیں، اس کا ایک رخ ہے، ایک چھوٹی سی جھلک ہے۔
غربت کیا ہے؟ غربت ایک ایسی حالت کا نام ہے، جس میں کسی شخص کو وہ معاشی ذرائع میسر نہیں ہوتے، جو کم از کم معیار کے مطابق زندگی کی بنیادی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔ غربت کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ کسی خاص سماج میں کسی شخص کی آمدن اتنی کم ہے، یا بالکل ہی نہیں ہے، جس کی وجہ سے وہ زندگی کی بنیادی ضروریات پوری نہیں کر سکتا۔
غربت کے مارے ہوئے افراد، خاندان یا سماج‘ مناسب رہائش، صاف پانی، متوازن خوراک اور علاج کی مناسب سہولیات سے محروم ہوتے ہیں‘ یعنی بھوک سے بچانا یا خوراک فراہم کرنا ان بنیاد ضروریات میں سے محض ایک ضرورت ہے۔ رہائش، صاف پانی اور علاج بھی بھوک کی طرح ہی انسان کی ناگزیر ضروریات ہیں۔ ہر سماج میں اس کی سماجی و معاشی تشکیل کے مطابق غربت کو ناپنے کے الگ الگ پیمانے ہوتے ہیں۔ ان پیمانوں کے مطابق مختلف سماج یہ معلوم کرتے ہیں کہ ان کے ہاں غربت کی سطح کیا ہے۔
ان پیمانوں کے مطابق پاکستان ایک غریب ملک ہے۔ اس ملک میں بہت بڑی تعداد میں لوگ غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ غربت کا تعلق بنیادی طور پر کسی ملک کے اندر موجود دولت اور وسائل کی تقسیم سے ہوتا ہے۔ جس ملک میں جس قدر دولت اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم ہو گی، وہاں اسی قدر زیادہ غربت ہو گی‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ کچھ لوگ غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزار رہے ہوں گے‘ اور دوسری طرف مراعات یافتہ طبقات بے تحاشا دولت کے مالک ہوں گے۔ اس لیے کسی بھی سماج میں غربت کے مکمل خاتمے کا خواب دولت اور وسائل کی جائز اور منصفانہ تقسیم کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ دولت کی منصفانہ تقسیم کے بغیر کسی بھی ملک میں مکمل طور پر غربت کا خاتمہ نہیں کیا جا سکتا، خواہ وہ ملک کتنا ہی دولت مند یا ترقی یافتہ کیوں نہ ہو جائے۔ اس کی مثال کچھ ترقی یافتہ ممالک کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے۔ دولت کی تقسیم کا کام مختلف ممالک میں الگ الگ طریقوں سے کیا جاتا ہے۔ کہیں یہ کام سوشلسٹ انقلاب کی شکل میں ہوتا ہے۔ کہیں سماجی جمہوریت کے نظام کے تحت اس کو بروئے کار لایا جاتا ہے۔ کہیں بھاری ٹیکسوں کے ذریعے مراعات یافتہ طبقات سے دولت اکٹھی کی جاتی ہے، اور اس کو منصفانہ طریقے سے سماج کے کم خوش نصیب اور محروم طبقات تک پہنچایا جاتا ہے۔ یہ دولت صحت اور تعلیم کے ایسے منصوبوں پر خرچ کی جاتی ہے، جن سے سماج کے نچلے طبقات کی زندگی میں تبدیلی آ سکے۔ دولت کی منصفانہ تقسیم کا عمل ایک خاص قسم کی حالات میں انقلابی اقدمات کے نتیجے میں ہی ممکن ہوتا ہے لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ انقلاب آنے تک حکمران اشرافیہ غربت میں کمی یا اس کے خاتمے کے لیے کچھ بھی نہیں کر سکتی۔ یقینا انقلاب آنے تک بہت سارے ایسے چھوٹے چھوٹے اقدامات ہیں، جن کو آپ ''بے بی سٹیپس‘‘کہہ سکتے ہیں۔ یہ اقدامات کرنے سے غربت کی شدت اور شرح میں کافی حد تک کمی لائی جا سکتی ہے‘ اور غربت زدہ لوگوں کی زندگی میں جو محرومیاں ہیں، ان کو اگر مکمل طور پر ختم نہیں تو بڑی حد تک کم ضرور کیا جا سکتا ہے‘ اور ایسے کئی اقدامات کئے جا سکتے ہیں، جو بڑی حد تک غربت کا شکار لوگوں کے دکھ درد میں کمی کا باعث بن سکتے ہیں۔
ان میں پہلا کام خاندان اور غربت کے درمیان تعلق کو تسلیم کرنا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ غربت زدہ خاندانوں میں بچوں کی تعداد اور غربت کے درمیان بہت گہرا تعلق ہوتا ہے۔ اس تعلق کو غربت زدہ نچلے طبقے کے خاندانوں میں واضح کرنا ضروری ہے۔ حکومت کے لیے ایسے اقدامات لازم ہیں، جو شاید شہری آزادیوں پر سوالیہ نشان ضرور لگاتے ہیں، لیکن لاکھوں خاندانوں کو غربت کے چکر سے نکالنے کے لیے خاندانی منصوبہ بندی کے حوالے سے سخت پالیسیاں اور اقدامات ناگزیر ہیں۔ ہمارے خطے میں کئی ممالک نے غربت کے خاتمے کے لیے اس باب میں بہت سخت قدم اٹھائے ہیں۔ چین اس کی مثال ہے۔ وزیر اعظم چین کو ماڈل تو قرار دیتے ہیں، لیکن چین کے ان حیرت انگیز اور دلیرانہ اقدامات کا کوئی ذکر نہیں کرتے جو چینیوں نے ملک کی آبادی کی رفتار پر قابو پانے کے لیے کیے۔ وہاں خاندانی منصوبہ بندی کی خلاف ورزی پر سنگین سزائیں دی جاتی رہی ہیں۔ اس باب میں پاکستان کی روایتی حکمران اشرافیہ سخت غفلت اور شعوری لاپروائی کی مرتکب ہوئی ہے۔ اس باب میں حکمران زیادہ تر سماج کے قدامت پرست اور رجعت پسند عناصر کے خیالات کے تابع رہے ہیں۔ ایسا ایک وقت میں چین میں بھی تھا۔ تاریخی طور پر قدامت پرست اور رجعت پسند قوتیں چین میں بھی ترقی کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ رہی ہیں‘ لیکن چین نے ان قوتوں کا مقابلہ تعلیم کے ہتھیار سے کیا۔ ظاہر ہے جہالت اور غربت کا چولی دامن کا ساتھ ہے مگر یہ محض کوئی اتفاق نہیں، بلکہ اس حقیقت کا اظہار ہے کہ جہالت ترقی کے راستے کی بیڑی بن جاتی ہے، جس کو علم و شعور کی ضرب سے ہی توڑا جا سکتا ہے۔ چین میں آج جو حیرت انگیز ترقی نظر آتی ہے، اس کا آغاز انیس سو انچاس کے عظیم انقلاب کا نتیجہ ہے۔ اس انقلاب کے بعد بھی چین کی رجعت پسند قوتیں مختلف طریقوں اور حیلوں بہانوں سے ترقی کے راستے میں رکاوٹ بننے کی کوشش کرتی رہیں۔ ان قوتوں کے خلاف چینی لیڈروں کی کامیابی کا راز یہ تھا کہ انہوں نے تاریکی کی ان قوتوں سے سمجھوتا کرنے سے انکار کر دیا۔ اس سلسلے میں چینی انقلاب کے خلاف مزاحمتی قوتوں کے کردار سے لے کر چین کے ثقافتی انقلاب اور اس کے بعد کے برسوں میں چین کے اندر ترقی اور تبدیلی کی خواہاں قوتوں اور رجعت پسندوں کے درمیان تضادات اور تصادم کی تاریخ پر گہری نظر ڈالنا اور اس کو سمجھنا ضروری ہے۔