کورونا نے عالمی سطح پر ناقابل تصور تباہی پھیلا دی ہے۔ معاشی بحران اور عالمی قرض بڑھتا جا رہا ہے۔ اس قرض کے جلد ہی تین سو ٹریلین تک پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ ماہرین معاشیات کے مطابق یہ رقم عالمی مجموعی گھریلو پیداوار کے 365 فیصد کے برابر ہے۔ قرضوں کا اصل بوجھ غریب ترین ممالک پر ہے۔ اس طرح اس معاشی بحران اور ناقابل برداشت بوجھ کا فوری شکار دنیا کے غریب ترین عوام ہو رہے ہیں‘ اور اس بوجھ کے کم ہونے کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔
ابتدائی اندازوں کے برعکس کورونا وائرس پھیلتا ہی چلا جا رہا ہے۔ یہ اب نئے روپ دھار کر حملے کر رہا ہے اور تباہی پھیلا رہا ہے۔ اب اس تباہی کی ابتدائی علامات مختلف اشکال میں ظاہر ہونا شروع ہو گئی ہیں۔ اس کے تباہ کن اثرات سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ عالمی نظام میں بحران کی علامات ظاہر ہو رہی ہیں۔ دبے الفاظ میں کچھ لاطینی اور افریقی ممالک قرضوں کی ادائیگی کی صلاحیت سے انکار کر رہے ہیں۔ ترقی یافتہ اور خوشحال ممالک میں بھی اس صورت حال کو محسوس کیا جا رہا ہے۔ اس بحران سے نکلنے اور نظام کو مکمل تباہی سے بچانے کے لیے حفظ ما تقدم کے طور پر قرضوں کی ادائیگیوں کو معطل کرنے، دوبارہ اقساط طے کرنے یا ادائیگیاں موخر کرنے کے لئے امیر دنیا اور مالیاتی اداروں کے اندر مختلف پروگراموں پر غور ہو رہا ہے۔
قرضوں کا بوجھ ان ممالک کے لئے خصوصی طور پر تباہ کن ہے، جن کے پاس اس وقت اتنی صلاحیت بھی نہیں ہے کہ وہ قرضے تو ایک طرف بطور ریاست یا حکومت اپنی بنیادی ذمہ داری ہی پوری کر سکیں۔ سنجیدہ اور حقیقت پسند معاشی حلقوں میں اس بات پر اتفاق ہو رہا ہے کہ عدم ادائیگی کے انتہائی خطرے سے دوچار ترقی پذیر ممالک میں قرض کی شرائط از سر نو طے کرنا ناگزیر ہو چکا ہے۔ اس ضرورت کو تو ہر کوئی تسلیم کرتا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ قرضوں کی ادائیگی کی نئی شرائط کیا ہوں گی۔ اتنے بڑے معاشی بحران میں یہ شرائط بہت اہم ہیں، اور کئی ملکوں کی معاشی ترقی اور عوام کی معاشی آسودگی میں ان شرائط کا کلیدی کردار ہے۔
تیسری دنیا کے پسماندہ ممالک کے لیے یہ شرائط بہت اہم ہیں۔ اس سلسلے میں ان کے ماضی کے تلخ تجربات ہیں۔ پاکستان سمیت کئی ممالک کی ساری معیشت ان قرضوں کے گرد گھومتی رہی ہے‘ اس لیے اب یہ بات اہم ہے کہ قرضوں کی نئی شرائط ماضی کے تلخ تجربات کی روشنی میں طے ہوں۔ ماضی میں عالمی مالیاتی ادارے اور کئی امیر ممالک مختلف ممالک کو من پسند شرائط پر قرض دیتے رہے ہیں‘ مگر وقت نے ثابت کیا کہ ان شرائط کی وجہ سے عوام کے دکھ اور مصائب کم ہونے کے بجائے ان میں اضافہ ہی ہوتا رہا۔ ان شرائط کی وجہ سے روزمرہ کی ضروریاتِ زندگی کے نرخوں میں ناقابل یقین اضافہ ہوتا رہا ہے۔ اس کی وجہ سے دنیا میں کئی جگہوں پر مزدور اور کسان فاقہ کشی پر مجبور ہوتے رہے ہیں۔ اس وقت ان قرضوں کی ادائیگی، شرح سود اور آسان اقساط ایک اہم سوال ضرور ہے، مگر اس کے ساتھ ساتھ اس وقت سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ تیسری دنیا کے پس ماندہ ممالک کے حکمران جو رقم ادھار لیتے ہیں اس کے ساتھ کیا کرنا چاہئے؟ اس رقم کو کس مقصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے؟ کورونا کے تجربے نے جو ہمیں دکھایا‘ وہ یہ ہے کہ صحت عامہ کا ایک مستحکم نظام رکھنے والے ممالک بہتر طور پر انفیکشن کی زنجیر کو توڑنے میں کامیاب رہے ہیں‘ ان ممالک کی نسبت جو اپنی صحت عامہ پر بہت کم خرچ کرتے رہے ہیں‘ جو اس مد میں مختص رقوم کا ناجائز استعمال کرتے رہے ہیں‘ اور جو اکثر اوقات ان رقوم کو خورد برد کرتے رہے ہیں۔ یہ اب ایک تلخ مگر بڑی حد تک تسلیم شدہ حقیقت ہے۔ اس حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے ان ممالک کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے صحت عامہ کے نظام کی تعمیر نو پر زیادہ سے زیادہ رقم خرچ کریں۔ اس کے بغیر اس وبا اور اس کے اثرات کا مقابلہ مشکل ہو گا۔ بری خبروں اور مایوسی کے اس دور میں اچھی خبر یہ ہے کہ ویکسین آ گئی ہے۔ یہ ویکسین تقسیم ہو رہی ہے، اور اس سے مثبت نتائج سامنے آنے کی امید ہے۔
لیکن اس وقت بد قسمتی سے ویکسین کی تقسیم اور اس تک رسائی کا عمل دنیا کی طبقاتی تقسیم کا عکاس ہے۔ ماہرین کے خیال میں دولت مند ممالک، دنیا کی 13 فیصد آبادی کے ساتھ ، امکانی ویکسینوں کی 3.4 بلین خوراکیں پہلے ہی حاصل کر چکے ہیں۔ باقی دنیا میں 2.4 بلین خوراکوں کی ویکسین کے پہلے سے آرڈر ہیں۔ غریب ترین ممالک کے پاس اس ویکسین کے لئے کوئی معاہدہ یا واضح بندوبست نہیں ہے۔ ان کی حکومتیں اعلانات تو کر رہی ہے، مگر ان اعلانات سے عملی طور پر کیا برآمد ہو گا، یہ دیکھنا باقی ہے۔
کچھ ترقی پذیر ممالک نے عالمی تجارت کی تنظیم (ڈبلیو ٹی او) کو کورونا کی روک تھام اور علاج کے سلسلے میں ویکسین کی پیٹنٹ یعنی دانشورانہ املاک کے حقوق کی چھوٹ کے لئے ایک معقول تجویز پیش کی ہے۔ اگر تجویز مان لی جاتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ فکری املاک کے حقوق کے حوالے سے تجارت سے متعلق معاہدے کی معطلی سے زیادہ تر غریب ممالک وبائی مرض کے دوران دوائیوں اور طبی مصنوعات تک مناسب اور سستی رسائی حاصل کر سکتے ہیں، لیکن ابتدا سے ہی اس تجویز کی امریکہ، برطانیہ، جاپان اور برازیل نے مخالفت کی ہے‘ اور ویکسین بنانے والے ممالک اس کے خلاف ہیں۔
گزشتہ سال موسم گرما کے آغاز میں، 140 عالمی رہنماؤں نے ایک عہد نامے پر دستخط کیے تھے‘ جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ تمام ٹیسٹ، علاج اور ویکسین پیٹنٹ کے پابند نہ ہوں، اور یہ ویکسین غریب اقوام میں بلا معاوضہ تقسیم کی جائیں۔ چین سمیت متعدد ممالک اس نقطہ نظر کے حامیوں میں شامل تھے۔ اس مہم کے پس منظر میں خیال یہ تھا کہ ایک یا ایک سے زیادہ ویکسینوں کے فارمولے کو کسی عوامی سائٹ پر اپ لوڈ کیا جا سکتا ہے، اس طرح غریب ممالک کی حکومتیں پبلک سیکٹر کی فارماسیوٹیکل فرموں کو اپنے ممالک میں ویکسین مفت میں یا سستی قیمت پر تقسیم کرنے کی ہدایت کر سکتی ہیں یا پھر اگر ان ممالک میں نجی شعبے کی فرمیں ویکسین بناتی ہیں تو انہیں کم نرخوں پر فراہم کرنے کا پابند کیا جا سکتا ہے‘ لیکن نیک نیتی پر مبنی ان کوششوں کے باوجود جس طرح سے چیزیں چل رہی ہیں، اس سے لگتا ہے کہ دنیا کی دو تہائی آبادی کو 2022 کے اختتام سے پہلے ویکسین میسر نہیں ہو گی۔ اس صورت حال سے 'ویکسین نیشنلزم‘ اور 'عوامی ویکسین‘ جیسے رجحانات جنم لے رہے ہیں۔ یہ صورت حال امیر اور غریب ممالک کے مابین تضادات، قرضوں کے سوالوں اور انسانی ترقی کے وسیع و عریض شعبوں پر شمال اور جنوب کے درمیان لڑائی کی آئینہ دار ہے۔ ان حالات میں غریب اور پسماندہ ممالک کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے قیمتی وسائل کو وائرس کے انفیکشن کی زنجیر کو توڑنے کے لئے مہارت سے استعمال کریں‘ اور مستقبل میں ایسی صورت حال سے بچنے کے لیے اپنے صحت عامہ کے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر و مرمت پر توجہ دیں اور صحت کی دیکھ بھال کرنے والے پیشہ ور افراد کی تعلیم و تربیت کا بندوبست کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ غریب اور پسماندہ ممالک کے درمیان اتحاد اور ملکی اور علاقائی سطح پر دوا سازی اور ویکسین کی تیاری کی صلاحیت پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔