''جب حکومتیں اپنے شہریوں کے فطری حقوق کا تحفظ کرنے میں ناکام ہوں تو ایک مقبول سیاسی انقلاب لازم ہو جاتا ہے۔ بنیادی انسانی حقوق انسان کے فطری حقوق ہیں، جن کو چھینا نہیں جا سکتا‘‘ ان خیالات کا اظہار دو سو تیس برس قبل ''رائٹس آف مین‘‘ میں کیا گیا تھا۔ یہ معرکہ آرا کتاب ایک انگریزی نژاد امریکی انقلابی سیاست کار فادر تھامس پین نے سترہ سو اکانوے میں لکھی تھی۔ کتاب میں پین کا مؤقف ہے کہ جب کوئی سیاسی حکومت اپنے شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ میں ناکام ہو جاتی ہے تو سیاسی انقلاب لازم ہو جاتا ہے۔ یہ مضامین اس وقت فرانسیسی انقلاب پر لکھے گئے تھے۔ خاص طور پر ان کا نقطہ ماسکہ ایڈمنڈ برک کے انقلاب کے بارے میں رجعت پسندانہ خیالات تھے۔ فرانسیسی انقلاب کے بارے میں بحث کے دوران ایڈمنڈ نے یہ استدلال اختیار کیا تھا کہ یہ انقلاب نا جائز تھا جو کبھی نہیں برپا ہونا چاہئے تھا۔ اس نے فرانس کے انقلاب کے خلاف کتاب لکھی جو قدامت پرست حلقوں اور اشرافیہ میں بہت مقبول ہوئی۔ کتاب کی جاگیردار طبقے میں دھوم مچ گئی اور اس دور میں اس کی تیس ہزار کاپیاں بک گئی، جو ان حالات میں ایسی کتاب کے لیے بڑی بات تھی۔ اس کے جواب میں تھامس پین کتاب لے کر سامنے آیا۔ پہلے ایک پبلشر جوزف جانسن نے اس کو شائع کرنے کا فیصلہ کیا، مگر حکمران اشرافیہ کے ڈر سے فیصلہ بدل دیا۔ دوسرے پبلشر جے ایس جارڈن نے ہمت کی اور کتاب چھاپ دی۔ کتاب کے مارکیٹ میں آتے ہی ہزاروں کاپیاں فروخت ہوئیں۔ اصلاح پسندوں، حکومت مخالف لوگوں، جمہوریت پسندوں، تربیت یافتہ صنعتی کارکنوں، اور مزدوروں نے اس کتاب کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔ پین کا فرانسیسی انقلاب پر یہ کام انقلابی ادب کی تاریخ میں ایک کلاسیکی دستاویز بن گیا۔
حقوق انسانی پر یہ تحریر 1789 میں فرانسیسی انقلاب کے صرف ایک سال بعد لکھی گئی تھی۔ یہ وہ وقت تھا، جس کو کچھ دانشور جدید دور کا آغاز کہتے ہیں۔ قدیم اشرافیہ کی حکمرانی کو ختم کرنے کے بعد فرانسیسی عوام یورپ کی پہلی مکمل نمائندہ جمہوریت کا قیام عمل میں لائے۔ یہ ایک تاریخی لمحہ تھا۔ اس تاریخی لمحے میں انگلینڈ کے مشہور قدامت پسند سیاسی مفکر ایڈمنڈ برک نے اس انقلاب کو خطرناک، غیر اخلاقی اور ناجائز قرار دیا اور اس انقلاب کے نتیجے میں بادشاہت، چرچ اور اشرافیہ سمیت اہم مغربی اداروں کو پہنچنے والے اہم نقصانات کے بارے میں فکر مندی کا اظہار کیا۔ برک کا کہنا تھا کہ مغرب کے روایتی ادارے اور ان کے افعال درست اور جائز تھے کیونکہ انہوں نے ثقافت اور اخلاقی اقدار کو جنم دیا تھا، اور مغربی ممالک میں اخلاقی اصولوں پر مبنی ایک نظام قائم کیا تھا، جو صدیوں کی دانش مندی کا نتیجہ تھا۔
پین نے اس ''صدیوں کی دانش مندی‘‘ کو دلائل کے ساتھ مسترد کرتے ہوئے اسے ان غالب طاقتوں کی حمایت قرار دیا، جو یورپ میں نچلے طبقات پر ظلم جاری رکھے ہوئے تھیں۔ اس کے جواب میں پین نے دو بنیادی نکات پیش کیے۔ پہلا یہ ہے کہ برک نے فرانسیسی انقلاب کو مسخ کر کے پیش کیا ہے۔ وہ انقلاب کے وقت فرانس میں موجود نہیں تھا جبکہ پین نے خود فرانس کا دورہ کیا۔ انقلاب کا مشاہدہ کیا۔ فرانسیسی دانشوروں سے تبادلہ خیال کیا۔ اس نے اپنے علم و مشاہدے کو برک کے بیانیے کی تردید کے لیے استعمال کیا۔ خصوصاً جب برک نے فرانسیسی انقلابیوں کو وحشی قرار دے کر ان کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ اس کے خیال میں برک عوامی تاثرات کو توڑنے موڑنے کی کوشش کر رہا تھا۔
پین کا دوسرا نکتہ یہ ہے کہ فرانسیسی انقلاب ایک اخلاقی اور درست عمل تھا‘ اور حکومت کی طرف سے اپنے شہریوں کی آزادی اور حقوق کے تحفظ میں ناکامی کے بعد ایسا انقلاب لازم اور ناگزیر ہو جاتا ہے۔ پین کا ایک کلیدی دعویٰ یہ ہے کہ مردوں اور عورتوں کو فطری حقوق حاصل ہیں، جو کسی بھی قانون سازی یا دیگر عوامی پالیسی کے تحت معطل نہیں ہو سکتے ہیں۔ وہ ریاست کے بارے میں اپنے تصور کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ ریاست کے پاس صرف وہ اختیارات ہونے چاہئیں، جن پر ان عوام کا اتفاق ہو جن پر ریاست کی عملداری ہے۔ اس اصول پر عمل کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اختیارات ان عام شہریوں کو منتقل ہوں، جن پر ریاست مشتمل ہے۔ ایک بار جب یہ طاقت عطا کر دی جائے، تو یہ طاقت صرف افراد کے قدرتی حقوق کے تحفظ اور ''مشترکہ بھلائی‘‘ کے لیے استعمال ہونی چاہیے۔
پین کا استدلال ہے کہ جب بھی حکومت کوئی ایسی کارروائی کرتی ہے جو جمہوری طرز حکمرانی کے مطابق نہیں ہے، تو یہ شہریوں کا فطری حق ہے کہ وہ حکومت کے حکم کو ختم کرے یا اسے تبدیل کرے۔ اس نے اصرار کیا کہ حکومت کرنے کا یہ واحد معقول طریقہ ہے کیونکہ یہ افراد کے قدرتی حقوق کا تحفظ کرتا ہے‘ اور اس کے ساتھ ساتھ حکومت کی بہتری اور نشوونما کو یقینی بناتا ہے۔ پین کا خیال ہے کہ انقلاب کے بارے میں برک کا قدامت پسندانہ مؤقف محض ظالم حکمران طبقے کے لئے کشش رکھتا ہے، لیکن فرانسیسی اسمبلی کے ذریعے تحریری حقوق کا اعلان ایک نظریہ ہے، جو جمہوری اصولوں پر عمل پیرا ہے۔
حقوق انسانی کا دوسرا حصہ پہلے حصے کے ایک سال بعد شائع ہوا۔ دوسرے حصے میں پین نے برک اور دیگر مفکرین کی تازہ تحریروں پر غور کیا، جنہیں وہ رجعت پسند سمجھتا تھا۔ اس حصے میں اس نے واضح کیا کہ معاشرتی نظام فطری نظام کا حصہ ہے، جسے کسی رسمی نظام کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہ نظام حکومت کے باہر اور اس کے باوجود موجود ہے۔ یہ قدرتی قانون کی توسیع ہے، جس کے وجود کے لئے حکومت کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ بادشاہت پر بھی سخت تنقید کرتا ہے، اور اس کا موازنہ زیادہ بہتر جمہوری ماڈل سے کرتا ہے۔ پین جمہوری حکومت کے لئے اپنے وژن کی ترجمانی کرتا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ انگلستان کے لوگ زیادہ بہتر زندگی گزار سکتے ہیں، اگر وہ آزاد جمہوریہ کا راستہ اختیار کریں۔ اقتدار پر امرا کی اجارہ داری، اور غریب عوام پر ٹیکس ختم کر کے وسیع پیمانے پر سماجی پروگراموں کو اپنائیں۔
حقوق انسانی دو صدیوں سے زیادہ پرانی ہے لیکن اکیسویں صدی میں بھی بعض حالات اور ممالک میں یہ ایک انتہائی ترقی پسند دستاویز تصور کی جا سکتی ہے، کیونکہ اس میں بہت ساری آزادیوں کا مطالبہ کیا گیا ہے، جنہیں پاکستان سمیت تیسری دنیا کے کئی ممالک میں اپنانا ابھی باقی ہے۔ یورپ میں بعد کے بدلتے ہوئے حالات میں زمین کو ہلا دینے والی کتابیں تخلیق ہوئی۔ طبقاتی جدوجہد اور انقلاب کے بارے میں تصورات واضح ہوئے۔ جمہوریت اور انسانی حقوق کے بارے میں انسانی خیالات میں انقلاب آیا‘ مگر پین کے دور میں جب انسانی حقوق کو ''آدمی کے حقوق‘‘ کہا جاتا تھا، ایسے پسماندہ اور رجعتی دور میں ایسی کتاب کو انقلابی ہی کہا جا سکتا ہے۔ اٹھارہویں صدی کے دوسرے نصف کے اس دور میں انگلستان میں جو حالات موجود تھے آج کے انگلستان کے شہری کے لیے ان حالات کا تصور کرنا بھی شاید مشکل ہو‘ لیکن کئی ترقی پذیر ممالک میں انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کے باب میں جو حالات ہیں وہ اٹھارہویں صدی کے انگلستان سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہیں۔ تیسری دنیا کے کئی پسماندہ ممالک میں حکومتیں عوام کو حقوق فراہم کرنا اپنے لیے لازم نہیں سمجھتیں، اور نہ ہی یہ ماننے کے لیے تیار ہیں کہ حکومتوں کی ناکامی کے بعد شہریوں کو ان کے خلاف احتجاج یا بغاوت کا حق ہے۔ حکومت کے اس رویے کا اظہار ہم آئے دن ارباب اختیار کی طرف سے لاٹھی‘ گولی کے استعمال اور حقوق مانگنے والوں کی گرفتاریوں کی شکل میں دیکھتے رہتے ہیں۔