ہم جس دنیا میں رہتے ہیں، یہ کوئی ساکت و جامد شے نہیں۔ یہ مسلسل بدلتی اور نشوونما پاتی ہے۔ دنیا میں کوئی نظام، نظریہ یا خیال دائمی نہیں ہوتا۔ ہمارے ارد گرد کی ہر چیز بدلتی ہے، اور لمحہ بہ لمحہ بدلتی ہے۔ نظریے اور نظام بدلتے ہیں، لیکن کچھ نظریات و نظاموں میں کچھ ایسے بنیادی اصول ہوتے ہیں، جو ہر تبدیلی کے بعد بہتر اور ترقی یافتہ شکل میں اپنا وجود برقرار رکھتے ہیں۔ پاکستان میں جمہوریت بطور نظام اپنی تمام تر ناہمواریوں کے باوجود چل رہی ہے‘ مگر اس جمہوریت کو مثبت تبدیلی اور نئے خیالات کو اپنے دامن میں سمونے کے لیے ہمیشہ تیار رہنا چاہیے۔ یعنی جمہوریت کی بقا کے لیے، جمہوریت کا ترقی پسند ہونا ضروری ہے۔ ورنہ یہ ایک ساکت جامد اور رجعت پسندانہ آمریت کی شکل اختیار کر لیتی ہے، جو اپنے سلسلۂ عمل میں تحلیل ہو جاتی ہے۔ جمہوریت کے ساتھ ساتھ معاشی انصاف بھی اسی طرح کی ایک دائمی قدر ہے‘ اور ہر زمانے میں معاشی انصاف کی شکل و صورت اور اس کے چیلنج مختلف ہوتے ہیں۔ معاشی انصاف کا بھی ترقی پسندی کے ساتھ جڑا ہونا ضروری ہے، ورنہ یہ رجعت پسندانہ خیالات اور پالیسیوں کا شکار ہو کر معاشی جبر کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ یعنی آمریت پسندانہ اور رجعت پسندانہ رویے اپنا کر کوئی قوم یا ریاست ترقی و خوش حالی کے راستے پر نہیں چل سکتی۔ اس کی ایک تاریخی مثال سابق سوویت یونین ہے۔ سوویت یونین ایک زمانے میں دنیا کی ایک عظیم سپر پاور اور ترقی پسند طاقت تھی، جس نے دنیا میں سماجی و معاشی ترقی کی نئی راہ کھولی تھی، نئی امیدیں پیدا کر دی تھی‘ مگر آگے چل کر رجعت پسندانہ پالیسیوں کا شکار ہو کر یہ طاقت صفحۂ ہستی سے مٹ گئی۔ گزشتہ دنوں ہمیں ''زوم ریڈنگ روم‘‘ میں اس موضوع پر ایک شہرہ آفاق کتاب زیر بحث لانے کا اتفاق ہوا۔ کتاب کا نام ہے ''انقلاب کو دھوکہ دیا گیا:سوویت یونین کیا ہے اور کہاں جا رہی ہے؟‘‘ یہ کتاب 1937 میں جلا وطن سوویت بالشویک، اور مارکسسٹ رہنما لیون ٹراٹسکی نے لکھی تھی۔ اس کتاب میں 1924 میں لینن کی موت کے بعد سوویت یونین میں تاریخی ترقی کا تفصیلی تجزیہ کیا گیا، اور اس پر تنقید کی گئی تھی۔ اس کتاب کو سٹالن ازم پر ٹراٹسکی کا بنیادی کام سمجھا جاتا ہے۔ یہ کتاب ٹراٹسکی نے جلا وطنی کے دوران لکھی تھی۔ وکٹر سرج نے سب سے پہلے اس کا ہسپانوی میں ترجمہ کیا تھا۔ آگے چل کرمیکس ایسٹ مین نے اس کا انگریزی ترجمہ کیا تھا، جو دنیا بھر میں بہت مقبول ہوا‘ اور آج تک دنیا بھر میں پڑھا جا رہا ہے۔
ٹراٹسکی کا اصل نام لیو ڈیوڈووچ برونسٹین (Lev Davidovich Bronstein) تھا‘ لیکن وہ اپنے تخلص لیون ٹراٹسکی کے ذریعہ مشہور ہوا۔ وہ روس کے 1917 کے اکتوبر انقلاب کے دوران ان سرکردہ رہنماؤں میں سے ایک تھے، جنہوں نے روس میں روسی سوشل ڈیموکریٹک لیبر پارٹی، جسے بالشویک بھی کہا جاتا ہے‘ کو اقتدار میں لانے کے لیے کلیدی کردار ادا کیا۔ لیون ٹراٹسکی طویل عرصے سے زارِ شاہی جاگیردار روس میں مارکسی انقلابی تحریک کے ایک سرکردہ رکن تھے، جنہیں 1900 میں حکومت کے خلاف سرگرمیوں کے سبب سائبیریا کے ایک دور دراز علاقے میں جلا وطنی کی سزا سنائی گئی۔ ان کی جلا وطنی اور سائبیریا سے فرار کی کہانی ''ایک نوجوان کا پوٹریٹ‘‘ اور ''سائبریا سے میرا فرار‘‘ جیسی مشہورکتابوں میں تفصیل سے قلم بند کی گئی ہے۔ سائبیریا سے فرار کے بعد یورپ میں جلا وطنی کا کچھ عرصہ گزارنے کے بعد لیون ٹراٹسکی 1905 کے روسی انقلاب کے دوران واپس روس لوٹے۔ روس میں یہ ایک ہیجان خیز دور تھا، جس کے دوران سینٹ پیٹرز برگ میں ان کی جوشیلی تقاریر نے ان کو ایک مشہور انقلابی شخصیت بنا دیا۔ ان کی تقاریر سے خوف زدہ اشرافیہ نے اسی سال دسمبر میں ان کو گرفتار کر لیا۔ اس کے بعد ٹراٹسکی کو دوبارہ فرار ہو کر مغربی یورپ کے مختلف ممالک میں جلا وطنی اختیار کرنا پڑی۔ جلا وطنی کے دوران ٹراٹسکی روسی سیاست میں بدستور متحرک رہے۔ اگلے عشرے کے دوران وہ روسی انقلابیوں میں اختلافات ختم کرانے اور سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے دھڑوں میں اتحاد کے لیے کوشاں رہے۔
پہلی جنگ عظیم کے آخری ایام میں روس کی پرانی حکومت تقریباً زمین بوس ہونے کے قریب تھی۔ اس صورت حال نے مختلف دھڑوں کو لینن کی سربراہی میں بالشویک حریفوں کے ساتھ معاملات طے کرنے کی ترغیب دی۔ ان بدلتے ہوئے حالات میں 1917 کے اوائل میں ٹراٹسکی نیو یارک شہر میں اپنی جلا وطنی ترک کر کے کینیڈا کے راستے واپس روس آئے اور بالشویک پارٹی کی گورننگ سنٹرل کمیٹی کے ممبر کی حیثیت سے ذمہ داریاں سنبھال لیں۔ ٹراٹسکی نے ان حالات میں کیرینسکی کی سربراہی میں قائم روسی عارضی حکومت کے اقتدار پر قبضہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اکتوبر کے اوائل میں پیٹرو گراڈ سوویت کے سربراہ کا عہدہ سنبھالنے اور اس ادارے کی عسکری انقلابی کمیٹی کی تشکیل کے لئے بھی ٹراٹسکی نے اہم رول ادا کیا تھا۔
کیرینسکی حکومت کے خاتمے کے بعد ، ٹراٹسکی کو سوویت روس کے آر ایس ایف ایس آر کا پہلا پیپلز کمشنر برائے خارجہ امور نامزد کیا گیا۔ اپریل 1918 میں ٹراٹسکی کو پیپل کمیسار برائے جنگ و بحریہ نامزد کیا گیا، جس کی مدد سے انہوں نے ''سرخ فوج‘‘کی تعمیر میں مدد کی‘ جس نے روسی خانہ جنگی میں بادشاہت کی بحالی کی خواہاں افواج کے خلاف نئی حکومت کا دفاع کرنا تھا۔
لینن کو 1923 میں فالج کے پے در پے حملوں کے نتیجے میں فعال سیاسی زندگی سے کنارہ کش ہونا پڑا۔ اس دوران مختلف متحارب گروہوں کے درمیان اقتدار و اختیار کی کشمکش شروع ہوئی۔ جنوری 1924 میں لینن کی موت کے بعد متعدد چوٹی کے لیڈروں کی سوویت اقتدار پر قبضے اور بالا دستی کی جنگ زور پکڑ گئی۔ لینن کے دیرینہ ساتھی اور کمیونسٹ انٹرنیشنل کے سربراہ گریگوری زینوف، ماسکو پارٹی کے رہنما لییو کامینیف، قومیتوں کے ماہر اور پارٹی تنظیم کے سیکرٹری جوزف سٹالن، اور لیون ٹراٹسکی نے پارٹی اور ریاستی طاقت کے نمایاں دعوے داروں کی اس کشمکش میں نمائندگی کی۔ اس کشمکش کے دوران ٹراٹسکی کو تین دیگر اہم دعوے داروں نے ایک سنگین سیاسی خطرہ کے طور پر پیش کیا، اور ٹراٹسکی کے خلاف تینوں نے مل کر ایک عارضی اتحاد تشکیل دیا۔
اگلے کئی سالوں میں ٹراٹسکی اور اس کے حامیوں کو سوویت لیڈرشپ گروپ نے سوویت سیاست اور اقتدار سے بالکل الگ تھلگ کر دیا۔ حکمران اشرافیہ نے سیاست سے بے دخل کرنے کے لیے ٹراٹسکی کو یکے بعد دیگرے جلا وطن کرنے کا عمل جاری رکھا۔ پہلے سوویت وسطی ایشیا کے دور دراز شہر الماآتا میں اور اگلے سال سوویت یونین سے بے دخل کر کے ترکی میں جلا وطن کر دیا گیا۔
سوویت یونین میں اپنے پیروکاروں سے علیحدہ ہونے کے باوجود ٹراٹسکی نے پوری زندگی اپوزیشن کے سیاسی رہنما کی حیثیت سے جلا وطنی کے دوران اپناکام جاری رکھا؛ اگرچہ جلا وطنی کے دوران ان کا قافیہ تنگ کرنے کی کوششیں جاری رہیں۔ جوزف سٹالن کی سربراہی میں سوویت حکومت کی جانب سے متعدد مغربی میزبان ممالک پر سیاسی دباؤ ڈالا گیا، اور ان ملکوں سے ٹراٹسکی کی جلا وطنی کا مطالبہ کیا جاتا رہا، جس کی وجہ سے ٹراٹسکی کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ (جاری)