1935 کے موسم بہار میں پریشانی کا شکار ٹراٹسکی نے باضابطہ طور پر ناروے میں سیاسی پناہ حاصل کرنے کی کوشش کی۔ اس وقت سکنڈے نیویا بادشاہت کے تحت ناروے میں لیبر پارٹی کی حکومت تھی۔ اس کے باوجود اس کی درخواست پر ناروے کا ردعمل سست تھا ۔ جون کے شروع میں ہی ٹراٹسکی کو مطلع کیا گیا کہ ان کی درخواست منظور کر لی گئی ہے اور وہ ویزا حاصل کرنے کے لیے پیرس میں ناروے کے سفارت خانے جا سکتے ہیں‘ لیکن اس سے پہلے کہ ٹراٹسکی یہ دستاویز حاصل کرتے ناروے میں سیاستدانوں نے مداخلت کی اور ویزا کی منظوری کو منسوخ کر دیا گیا۔ ٹراٹسکی 10 جون کو سفارتخانے پہنچے۔ فرانسیسی پولیس کو شبہ تھاکہ ٹراٹسکی پیرس میں رہائش حاصل کرنا چاہتے ہیں، جبکہ پہلے ہی ان پر ایسا کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی؛ چنانچہ پولیس نے فوری طور پر ٹراٹسکی کو شہر سے باہر جانے کا حکم دے دیا۔ ٹراٹسکی کو اپنا ناروے کیلئے طے شدہ سفر اچانک منسوخ کرنا پڑا۔
ناروے کے حکام نے مطالبہ کیا کہ ناروے کے سفر کا ویزا ملنے سے قبل ٹراٹسکی فرانس میں دوبارہ داخلے کیلئے اجازت نامہ حاصل کریں۔ یہ ایک مشکل بلکہ انہونی شرط تھی۔ آخرکار ٹراٹسکی اور ناروے کے حکام کے مابین خط و کتابت اور گفت و شنید کے بعد فرانس میں دوبارہ داخلے کے اجازت نامے کی شرط ختم کر دی گئی اور ٹراٹسکی کو ناروے میں داخلے کیلئے چھ ماہ کے محدود ویزے کی اجازت دی گئی۔ ناروے کی حکومت نے ٹراٹسکی کی رہائش گاہ کا تعین کرنے اور اسے دارالحکومت اوسلو سے خارج کرنے کا حق اپنے لیے محفوظ کر لیا‘ اور ٹراٹسکی 18 جون 1935 کو ناروے پہنچا، جہاں بالآخر اس نے اپنی کتاب مکمل کی۔
مشہور تاریخ دان باروک کنی پاز نے ٹراٹسکی کی کتاب ''انقلاب کے ساتھ دھوکہ‘‘ سٹالن ازم پر بڑا کام اور ایک دانشورانہ سروے میں بیوروکریسی کے بارے میں ٹراٹسکی کی سوچ کا نچوڑ قرار دیا ہے۔ کنی پاز کے خیال میں ٹراٹسکی نے انقلاب کے ساتھ دھوکہ دہی کے ذیلی عنوان ''سوویت یونین کیا ہے اور یہ کہاں جا رہا ہے؟‘‘ میں کتاب کی تصنیف کے پیچھے مصنف کے ارادے کا صحیح طور پر خلاصہ کیا ہے۔ ٹراٹسکی اس سوال سے دوچار ہے کہ کیا سوویت یونین میں ابھرتی ہوئی بیوروکریٹک سیاسی اور معاشی تشکیل نے ایک نیا معاشرتی ماڈل تشکیل دیا ہے جو اس سے پہلے مارکسی نظریے میں نہیں تھا۔ کنی پاز نے زور دے کر کہاکہ ٹراٹسکی نے اصرار کیاکہ سوویت نظام نے اس طرح کا کوئی نیا معاشرتی اور معاشی نظام تشکیل نہیں دیا۔ کتاب سٹالن ازم کے زیر اثر سوویت یونین اور اس کے حکمرانوں پر سخت تنقید ہے، اور سٹالننسٹ آمریت کو ختم کرنے اور سوشلسٹ جمہوریت لانے کیلئے ایک نئے سیاسی انقلاب کی حمایت کرتی ہے۔ یہ کتاب معاشی پیشرفت کی حدود کا جائزہ بھی لیتی ہے‘ نئے حکمران اشرافیہ طبقے کی نوعیت، اور سٹالننسٹ حکمرانی کے نتیجے میں سوویت یونین کے خاتمے کی پیشگوئی کرتی ہے۔ یہ تجزیہ کرنے کے مارکسی طریقہ کار پر زور دیتی ہے اور کئی اہم مشاہدات ہیش اور پیش گوئیاں کرتی ہے، جن میں سے کچھ کئی دہائیوں کے بعد سچ ثابت ہوئی ہیں۔
اس کتاب کے پہلے چند ابواب میں روس کی پالیسی میں ''زگ زیگ‘‘ کا جائزہ لیا گیا ہے۔ ٹراٹسکی نے پارٹی کی پالیسی میں جمہوریت کی کمی کے براہ راست نتیجہ کے طور پر پالیسی میں تیز تبدیلیوں کا حوالہ دیتے ہوئے ان کی وضاحت کی ہے۔ ٹراٹسکی نے اقتصادی پالیسی کے میدان میں ان ''زگ زیگز‘‘ کو سب سے زیادہ اجاگر کیا۔ اس نے سٹالن کی پالیسی پر تنقید کی جس نے پہلے رضاکارانہ اجتماعی سازی اور زمین کی نجکاری میں اضافے کی مخالفت کی، اور پھر اچانک یوٹرن لینے کے بعد ٹوٹ پھوٹ کی صنعتی اور جبری اجتماعی سازی کی پالیسی اپنائی، جس کو ٹراٹسکی نے ''معاشی مہم جوئی‘‘ قرار دیا، جس نے قوم کو تباہی کے دہانے تک پہنچایا۔
اس کے بعد ٹراٹسکی نے روس میں انقلاب کے بعد کے مراحل کا تجزیہ کیا جب قدامت پسند قوتوں نے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لیا تھا۔ وہ سٹالن کی فتح، پارٹی کو بالشویزم سے الگ کرنے اور بیوروکریٹک ڈھانچے کے بڑھتی ہوئی گرفت کا تجزیہ کرتا ہے۔ ٹراٹسکی کے خیال میں سوویت یونین میں حکمران طبقہ نہ تو سرمایہ دار ہے اور نہ ہی مزدور، بلکہ اپنی طبقاتی جڑوں سے کٹے ہوئے طبقے کا ایک حصہ ہے، جو زار روس کے دور کی بیوروکریسی اور غیرسیاسی مزدور طبقے سے متاثر ہے۔ٹراٹسکی نے سٹالن ازم کو ''بوناپارٹزم‘‘ سے تعبیر کیا۔ وہ انقلاب کے حالات کے فرانسیسی ڈکٹیٹر نپولین بوناپارٹ اور فرانسیسی ریاست پر اس کے قبضہ کے ساتھ موازنہ کرتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے بوناپارٹ اشرافیہ کے روایتی پھندوں کو واپس لایا اور سرمایہ دار سماجی نظام کے رہنما ہونے کے باوجود سرمایہ داروں کو قید کردیا۔
سٹالن نے منصوبہ بند معیشت اور برائے نام عوامی ملکیت کے حصول میں ناکام ہونے کے باوجود کارکنوں کو قید کردیا اور زار کی طرح برتاؤ کیا۔ اسی کے ساتھ ٹراٹسکی لکھتا ہے کہ حکمران طبقہ باقی معاشرے کو غریب بنا دیتا ہے۔ وہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ ''ایک منصوبہ بند معیشت کو اسی طرح جمہوریت کی ضرورت ہوتی ہے، جس طرح انسانی جسم کو آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے‘‘۔ جمہوریت کے بغیر، معاشی جمود ناگزیر ہو جاتا ہے۔
اس کے بعد وہ سوویت یونین میں روزمرہ کی زندگی پر روشنی ڈالتا ہے۔ معاشی عدم مساوات اور نئے پرولتاریہ کے جبر کے بارے میں بات کرتا ہے۔ وہ خواتین اور خاندان کے ساتھ سلوک میں بڑھتی ہوئی قدامت پسندی کو براہ راست سٹالن ازم کے عروج سے جوڑتا ہے، اور اس کا موازنہ انقلاب سے پہلے کے عہد سے کرتا ہے۔ وہ خارجہ پالیسی اور سوویت فوج کی صورت حال کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ وہ فاشزم کو شکست دینے میں ناکام رہی ہے‘ اور ان حالات و اقدامات کی روشنی میں وہ سوویت یونین کے مستقبل کا جائزہ پیش کرتا ہے۔
ٹراٹسکی کی پیش گوئیوں میں ایک اہم بات یہ ہے کہ سوویت یونین میں یا تو سیاسی انقلاب کے ذریعہ حکمران بیوروکریسی کا خاتمہ ہو گا، یا بیوروکریسی کی سربراہی میں سرمایہ دارانہ نظام بحال ہو جائے گا۔ یہ پیش گوئی ایک ایسے وقت میں کی گئی ہے جب زیادہ تر تجزیہ کار خواہ وہ سرمایہ دارانہ نظام کے حامی ہوں یا سٹالننسٹ دونوں سوویت اقتدار و طاقت میں مسلسل اضافے کی پیش گوئی کر رہے تھے۔ بہرکیف آگے چل کر ٹراٹسکی کی پیش گوئی درست ثابت ہوئی۔ جمہوریت کی کمی اور اس کے ساتھ ساتھ کمپیوٹر ٹیکنالوجی‘ جو اس وقت معیشت کی منصوبہ بندی کرنے کے لیے اتنی ترقی یافتہ نہیں تھی‘ معاشی جمود کا باعث بنی۔ صورت حال بگڑتی گئی اور سن ستر کے آخر میں سوویت معیشت میں جمود بہت واضح نظر آنے لگا۔ حکمران اشرافیہ اس کا تخلیقی حل تجویز کرنے میں ناکام رہی۔ وہ نئے دور کے تقاضوں اور حالات کی سنگینی کا ادراک بھی نہ کر سکی۔ آگے چل کر حالات ان کے قابو سے نکل گئے۔ حکمران جماعت کے سرکردہ ارکان اور حکمران اشرافیہ کے مراعات یافتہ طبقات نے 1980 کی دہائی میں سوشل ازم کی زیادہ جمہوری شکل کو وسعت دینے کے بجائے، سرمایہ دارانہ اصلاحات کو فروغ دے کر جمود کا جواب دیا۔ اس کے ایک دہائی کے بعد، پارٹی کے سابق ممبروں میں کسی واضح نظریاتی تکلیف کے بغیر سرمایہ دارانہ نظام کو مکمل طور پر قبول کر لیا گیا، جو سوویت روس کے بعد روس میں نیا معاشی طبقہ بن گئے جبکہ 1990 کی دہائی میں سوویت عوام کا معیار زندگی سخت قسم کی زوال پذیری کا شکار ہو گیا۔ اس طرح ٹراٹسکی نے جو سائنسی پیش گوئیاں کی تھیں، بڑی حد تک درست ثابت ہوئیں۔ کچھ لوگوں کے لیے سوویت یونین کا ٹوٹنا ایک عظیم المیہ تھا‘ مگر اس المیے کے اندر یہ سبق بڑا واضح تھا کہ معاشی مساوات، جمہوریت، شہری آزادیوں اور جمہوریت میں عوام کی سرگرم شرکت کے بغیر کوئی نظام زیادہ دیر نہیں چل سکتا۔ (ختم)