بات ہو رہی تھی مشرق وسطیٰ میں موجود امریکہ کے فوجی اڈوں کی اور ان کے اس خطے کی معیشت‘ معاشرت اور سیاست پر مرتب ہونے والے اثرات کی۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ امریکہ نے ان معاملات پر توجہ دینا شروع کر دی ہے۔ بحرین میں پانچویں بحری بیڑے کے اخراجات اور فوائد پر نظر ثانی کرنا ایک اچھی شروعات ہو گی کیونکہ اس طرز پر ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی موجودگی بڑے پیمانے پر انتشار کا باعث بن رہی ہے۔
اس وقت امریکہ دفاعی شراکت داری کے نام پر خطے میں جو اسلحہ فروخت کر رہا ہے، وہ دفاع کے لیے استعمال نہیں ہو رہا ہے۔ آج اس خطے میں بہت سارے امریکی ہتھیار غیر ذمہ دارانہ طریقے سے اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے استعمال ہوتے ہیں۔ اسلحے کی اس طرح کی خرید و فروخت علاقے میں اسلحے کی دوڑ کو فروغ دیتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ امریکہ مشرق وسطیٰ میں طاقت کا توازن خراب کر کے اسلحے کی دوڑ کو مہمیز لگانے کی کوشش میں ہے۔ اگر یہی حقیقت ہے تو اس کے نہایت منفی اثرات سامنے آئیں گے؛ چنانچہ واشنگٹن کو جلد یا بدیر اس پالیسی میں تبدیلی لانا ہو گی۔
یہ درست ہے کہ اگر واشنگٹن اپنی اس پالیسی میں تبدیلی لاتا ہے تو سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات یہ شکایت کریں گے کہ امریکہ انہیں چھوڑ کر ایران کو طاقت ور بنا رہا ہے۔ اس باب میں بائیڈن انتظامیہ کا کام ان کو یہ باور کرانا ہو گا کہ تہران کے ساتھ کبھی نہ ختم ہونے والے فوجی مقابلے کا کوئی متبادل بھی موجود ہے۔ علاقائی سلامتی کے لیے اجتماعی مکالمہ‘ جس میں تمام فریق شامل ہوں، اسلحے کی دوڑ اور پراکسی جنگوں کی جگہ لے سکتا ہے۔ یہ بظاہر ''یوٹوپین فینٹسی‘‘ کی طرح لگتا ہے۔
اس وقت بائیڈن انتظامیہ یمن میں خطے کی تیاری کو جانچنے کی بہترین پوزیشن میں ہے۔ معنی خیز دباؤ اور مکالمہ کشیدگی کو کم کر رہا ہے کیونکہ بائیڈن انتظامیہ نے یہاں جارحانہ کارروائیوں کے لیے امریکی حمایت ختم کر دی ہے اور اقوام متحدہ کے امن عمل کی حمایت کے لیے ایک نیا خصوصی ایلچی مقرر کیا ہے۔ ریاستہائے متحدہ اس گیند کو مزید آگے بڑھا سکتی ہے اور واشنگٹن یمن میں امن کی راہ تلاش کر سکتا ہے، جہاں ہادی کے بعد کی ایک جامع حکومت حوثی رہنماؤں کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہو۔ ملک میں بین الاقوامی امداد سے دوبارہ تعمیر شروع ہو۔ یہ وسیع تر بات چیت کے تصور کی کامیابی کا ثبوت ہے۔
کشیدگی میں کمی کے تصور میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے خلیجی شراکت داروں کے لیے بڑی کشش ہونی چاہئے۔ خطے میں تیل کی آمدنی میں کمی کا مطلب یہ ہے کہ ان ممالک کو جلد ہی معاشی اصلاحات میں سرمایہ کاری اور بیرونی ممالک میں جنگ لڑنے کے مابین انتخاب کرنے کی ضرورت ہو گی اور اس حقیقت کا ادراک کرنا ہو گا کہ ان تنازعات کی موجودگی میں خطے میں معنی خیز غیر ملکی سرمایہ کاری بڑی حد تک ایک خیالی تصور ہے۔ خلیج اور ایران کے مابین کشیدگی کم ہونے کا ایک اور فائدہ یہ ہو گا کہ مخصوص نظریات کو پوری دنیا میں پھیلانے کا عمل کم ہو جائے گا۔ یہ انتہائی قدامت پسند اور عدم برداشت پر مبنی کٹر سوچ اکثر اوقات انتہا پسندی کے نظریے کی تشکیل کا باعث بنتی ہے، اور خلیج کا تنازع اس کے پھیلائو کو ایندھن فراہم کرتا ہے۔
اس میدان میں سب سے کٹھن اور اہم کام یہ ہے کہ امریکہ کو خلیجی ریاستوں کے ساتھ انسانی حقوق کے سوالوں پر سخت بات چیت کرنی کرنا ہو گی۔ امریکی جمہوریت پر ڈونلڈ ٹرمپ کے مسلسل حملوں کے تناظر میں، بائیڈن کے لیے یہ اہم ہو گا کہ وہ قانون کی حکمرانی اور شہری حقوق کے سوالات پر صاف اور دو ٹوک لہجہ اختیار کریں۔ بائیڈن اس حوالے سے کیا پالیسی اختیار کرتے ہیں‘ یہ جلد پتا چل جائے گا‘ یہ بھی پالیسی کے دور رس کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
خلیج کے ساتھ انسانی حقوق کے بارے میں امریکی گفتگو حقیقت پسندانہ ہونی چاہئے۔ یہ ممالک راتوں رات جدید جمہوریت نہیں بنیں گے‘ لیکن جمہوریت اور انسانی حقوق کے سوال کو زیادہ دیر تک دبانا بھی ممکن نہیں رہے گا۔
اگر یہ قومیں سیاسی قیدیوں کو تشدد کا نشانہ بنانے کا عمل جاری رکھتی ہیں‘ ایک سخت نگرانی کا نظام برقرار رکھتی ہیں جو خواتین کے سفر کرنے تک کے حق کو محدود کرتا ہے‘ بیرونِ ملک حکومت مخالف لوگوں کو مسلسل ہراساں کرتی ہیں تو خطے میں نئی تحریکوں کا اٹھنا ناگزیر ہو جائے گا۔ اس صورت میں خلیجی رہنماؤں کو سیاسی حقوق میں توسیع کو ایک وجودی مسئلے کے طور پر دیکھنا پڑے گا۔ امریکہ کو خود بھی سمجھنا چاہیے، اور عرب دوستوں کو یہ سمجھنے میں مدد کرنی چاہئے کہ ان کا موجودہ سیاسی و سماجی ڈھانچہ‘ جو اس وقت ''کوئی ٹیکس نہیں، اور ''کوئی نمائندگی نہیں‘‘ کے فرسودہ اصول پر قائم ہے‘ زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتا۔ یہ بات عیاں ہے کہ آبادی میں اضافے کی وجہ سے تیل کی آمدنی پر شاہی خاندان زیادہ دیر تک ادائیگی کے متحمل نہیں ہو سکیں گے۔ جب سبسڈی ختم ہو گی، لیکن دبائو باقی رہے گا تو بد امنی کا تباہ کن طوفان پھوٹ پڑے گا۔
فرسودگی کے خاتمے اور نئی ترقی پسند پالیسی کی بات کرتے ہوئے جمود کے حامی دانشور کہتے ہیں کہ اگر بائیڈن انتظامیہ سخت رویہ اختیار کرتی ہے تو خلیجی رہنما امریکہ سے منہ موڑ کر چین یا روس کی طرف مڑ جائیں گے۔ اس دلیل میں کچھ غلط فہمیاں ہیں۔ ایک یہ کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے متبادل فوجی امداد یا دفاعی شراکت کسی اور سے کتنی ممکن ہے‘ اور دوسرا یہ کہ مشرق وسطیٰ کی سیاست میں چین اور روس خود کو ملوث کرنے کے لیے کس حد تک تیار ہوں گے؟ اس وقت دنیا میں کشیدگی ضرور ہے، مگر یہ سرد جنگ نہیں ہے۔ روس کے پاس اس خطے کو پیش کرنے کے لیے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ دوسری طرف چونکہ دنیا میں تیل کا استعمال کم ہو رہا ہے، ماسکو کو بالآخر ناگزیر طور پر خلیجی ممالک کے ساتھ خریداروں کا مقابلہ کرنا پڑے گا۔ اگرچہ چین خطے میں معاشی مواقع کی تلاش جاری رکھے گا، تاہم وہ مستقبل قریب میں کسی بھی وقت سلامتی کے محافظ کا حقیقی کردار ادا کرنے کو تیار نہیں ہو گا۔ چینی بحریہ کسی حملے کی صورت میں خلیجی ملک کی مدد کے لیے نہیں جائے گی۔ ان حالات میں اگر بحرین، امارات یا سعودی دیگر طاقتوں کی طرف رجوع کرنے کی دھمکی دیتے ہیں تو واشنگٹن اس کا جواب دینے کی پوزیشن میں ہے۔
اس وقت بائیڈن کے پاس خلیجی ممالک کے ساتھ واشنگٹن کی شراکت داری کو از سر نو ترتیب دینے کا موقع ہے۔ یہ عمل مشکل اور تکلیف دہ ہو گا۔ اس پر سخت رد عمل ہو سکتا ہے‘ لیکن اس سے فرار ممکن نہیں۔ دفاعی شراکت داری کے نام پر جدید نوآبادیاتی نظام کو ایک نیا روپ دھار کر چلانے کا عمل مکمل طور پر بے نقاب ہو چکا ہے۔ اس میں اب راز کی بات رہی نہیں۔ اس کے ساتھ وابستہ معاشی لوٹ کھسوٹ، دولت کی غیر منصفانہ تقسیم، اور مقامی حکمران اشرافیہ کے بے پناہ مفادات بھی اب کوئی راز نہیں۔ اب امریکہ کے لیے خلیج میں حکمران اشرافیہ کے ساتھ غیر مشروط طور پر کھڑا رہنا، اور جمہوریت اور انسانی حقوق کی تحریکوں کے خلاف خاموشی کی سازش کا حصہ بننا شاید زیادہ دیر تک ممکن نہیں ہو گا۔ اس پالیسی میں تبدیلی ناگزیر ہے، اور یہ جتنی جلدی رونما ہو اتنی ہی بہتر ہے۔ (ختم)