"FBC" (space) message & send to 7575

گلگت بلتستان کے مستقبل کا سوال

گزشتہ دنوں گلگت بلتستان کے مستقبل کے سوال پرقومی اسمبلی میں جائزہ کمیٹی بنانے پر اتفاق کا اظہارکیا گیا تھا۔ اس بات پر اتفاق کیا گیا تھا کہ جائزہ کمیٹی کے سربراہ قومی اسمبلی کے سپیکر ہوں گے اورکمیٹی میں حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کو برابر نمائندگی دی جائے گی تاکہ گلگت بلتستان کے سوال پر اتفاقِ رائے پیدا کیا جا سکے۔ گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی نے نو مارچ کومتفقہ طور پر ایک قرارداد منظور کی جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان اور ریاستی ادارے خطے کو عارضی صوبائی حیثیت دیں اور اسے پارلیمنٹ اور دیگر آئینی اداروں میں نمائندگی فراہم کی جائے۔ اس قرار داد کے بعد قومی اسمبلی میں جائزہ کمیٹی کا قیام اس باب میں ایک نمایا ں پیش رفت ہے۔ اس قرار داد میں کہا گیا تھا کہ گلگت بلتستان کو عبوری آئینی صوبہ قرار دینے کے لیے دستورِ پاکستان میں ترمیم کی جائے۔ اس سلسلے میں آئین میں ترامیم کا بل پارلیمنٹ سے منظور کرایا جائے۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ گلگت بلتستان کی اسمبلی نے ایسی قرار داد پاس کی ہو۔ گلگت بلتستان کی مختلف اسمبلیوں کی طرف سے ماضی میں اس طرح کی قرار دادیں پاس ہو چکی ہیں۔ یہ سلسلہ تاریخ میں بہت پیچھے جاتا ہے‘ لیکن اگر صرف جدید تاریخ کو دیکھا جائے تو سولہویں صدی کے دوسرے نصف سے ان علاقوں کے مستقبل کا سوال مقامی اور علاقائی حلقوں میں کسی نہ کسی شکل میں زیر بحث رہا ہے۔ گلگت بلتستان کا علاقہ تاریخی طور پر کئی ایک چھوٹی چھوٹی ریاستوں‘ جاگیروں اور خود مختار علاقوں جیسی اکائیوں پر مشتمل رہا ہے۔ یہ تمام اکائیاں کبھی انفرادی طور پر‘ کبھی ایک دوسرے کے خلاف اور گاہے ایک دوسرے سے مل کر اپنی حیثیت اور خطے کی طاقتور ریاستوں اور بیرونی حملہ آوروں کے بارے میں مختلف قسم کے مؤقف اختیار کرتی رہی ہیں۔ ماضی میں اس طرح کا مؤقف زیادہ تر راجوں‘ مہاراجوں‘ میروں اور والیانِ ریاست اور علاقوں کے حکمران طبقے کی طرف سے آتا رہا ہے۔ ظاہر ہے تاریخ کے ان ادوار میں گلگت بلتستان کے عوام کا اس باب میں کوئی زیاہ نمایاں کردار نہیں رہا۔ اگر گلگت بلتستان کے عوام کی تاریخ کو یہاں کے حکمرانوں کی تاریخ سے الگ کر کے دیکھا جائے‘جو کہ تاریخ کو دیکھنے کا درست طریقہ ہے‘ تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حکمران طبقات زیادہ تر فیصلے عوام کو اعتماد میں لیے بغیر ہی کرتے رہے۔ اپنے مفادات کے تابع فیصلے کرنے کے بعدعوام کو خوف لالچ اور جبر کے ذریعے یہ فیصلے ماننے پر مجبور کیا جاتا رہا ہے۔ اس کو آپ تاریخ کا جبر کہہ سکتے ہیں کہ عوام ایسے فیصلے بھی تسلیم کرتے رہے جو براہ راست ان کے مفادات سے متصادم تھے۔ البتہ بسا اوقات عوام اپنے علاقوں کی خود مختاری اور تحفظ کے لیے گاہے حکمرانوں سے مل کراور گاہے خود جنگ یا مزاحمت میں حصہ لیتے رہے ہیں۔ اس طرح اگر تاریخ کو عوامی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو گلگت بلتستان کے عوام کی تاریخ برصغیر کے دیگر عوام کی طرح ہی ظلم کی تاریخ ہے۔ 1947 ء میں بر صغیر کی تقسیم اور پاک و ہند کی آزادی کے بعد یہاں کے عوام بھی تقسیم کے عمل سے گزرنے کے بعد ایک نئی صورتحال کا شکار ہوگئے۔ اس وقت گلگت بلتستان ریاست جموں کشمیر کی عملداری سے نکل کر ایک نئی متنازع شکل اختیار کر گیا جس کاحل مسئلہ کشمیر کے ساتھ منسلک کر دیا گیا۔ اس طرح یہ علاقے طویل مدت تک کسی مسلمہ قانونی اور آئینی حیثیت کے بغیر چلتے رہے۔ 70 ء کی دہائی میں کہیں جا کر ان علاقوں کی آئینی حیثیت اور مستقبل کا سوال اہمیت اختیار کرنا شروع ہوا‘ جس کی بازگشت اقتدار کی رہداریوں میں بار بارسنائی دینے لگی۔ اس وقت دبے الفاظ میں اس حقیقت کو تسلیم کیا گیا کہ گلگت بلتستان کے عوام کو ان کے جمہوری اور بنیادی انسانی حقوق دینے کے لیے ان علاقوں کی آئینی حیثیت کا تعین ضروری ہے‘ لیکن بد قسمتی سے اس مطالبے کے خلاف ایک مضبوط بیانیہ سامنے آیا کہ ان علاقوں کی آئینی حیثیت میں تبدیلی سے مسئلہ کشمیر پر پاکستان کی پوزیشن پرمنفی اثر پڑے گا۔ اس بیانیے کو یہاں کے عوام کے جمہوری مطالبات اور انسانی حقوق کی نفی کے لیے کامیابی سے استعمال کیا گیا۔ لیکن خوش قسمتی سے اگلی چار پانچ دہائیوں کے دوران اس باب میں دو تین اہم تبدیلیاں آئیں جن کی وجہ سے اربابِ اختیار کے لیے اس مسئلے کو زیاہ دیر تک التوا میں ڈالنا ممکن نہ رہا۔ ان میں ایک تبدیلی یہ تھی کہ گلگت بلتستان کے عوام نے شعوری طور پر بہت بڑی انگڑائی لی۔ عوام کے اندر اپنی معاشی پسماندگی اور محرومی کا احساس بڑی شدت سے جاگا۔ ان کو اس بات کا ادراک ہوا کہ نا حق ان کو ان کے جمہوری اور انسانی حقوق سے محروم رکھا جاتا رہا ہے۔ دوسری تبدیلی یہ آئی کہ بدلتے ہوئے عالمی حالات کے تناظر میں ان علاقوں کی غیر معمولی سٹریٹیجک حیثیت ابھر کر سامنے آئی۔ تیسری بڑی وجہ چین کا بیلٹ اینڈ روڈمنصوبہ ہے‘ جس نے علاقے میں گیم چینجرکا کردار ادا کیا ہے‘ اور اس کی وجہ گلگت بلتستان غیر معمولی اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ چوتھی وجہ گلگت بلتستان کے غیر معمولی معدنی وسائل اور سیاحت کی دنیا میں اس کی اہمیت کا پہلے کی نسبت زیادہ واضح ادراک ہے۔ ان حالات کے پیش نظر گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کا سوال ایک کلیدی سوال بن گیا۔ اس سوال کا جواب فراہم کرنا صرف گلگت کے عوام کے لیے ہی نہیں‘ بلکہ پاکستان کے حکمران طبقات کے لیے بھی لازم ہو گیا۔
ان حالات میں گزشتہ دو دہائیوں کے دوران یہ سوال گلگت بلتستان کی مقامی سیاست کا سب سے اہم سوال رہا ہے۔ ان دو دہائیوں کے دوران پاکستان کے ارباب ِاختیار‘ مختلف وزرائے اعظم‘ اور وزراگلگت بلتستان کے دوروں کے دوران اس سوال پر بات چیت کرتے رہے ہیں۔ اس سلسلے میں کئی ایک فارمولے اور تجاویز زیر بحث آتی رہیں مگر ان میں سے جن پر سنجیدگی سے غور و فکر ہوتا رہا‘ ان میں پہلی تجویز یہ رہی ہے کہ ان علاقوں کو پاکستان کے صوبے کا درجہ دیا جائے اور دوسری تجویز یہ رہی ہے کہ یہاں پر آزاد کشمیر طرز کا سیٹ اپ قائم کر کے یہاں کے لوگوں کو ان کے جمہوری اور انسانی حقوق دیے جائیں۔ گاہے سماج کے ایک حصے کی طرف سے ان علاقوں کی اندرونی خود مختاری دینے یا آزاد کشمیر کے ساتھ ملا کرمشترکہ حکومت کی تشکیل کی بات بھی ہوتی رہی۔ ان تجاویز پر مختلف مقامی فورمز اور اسلام آباد‘ راولپنڈی میں بحث ہوتی رہی۔ اسی سلسلۂ عمل میں گلگت کی قانون ساز اسمبلی دوبار صوبہ بنانے کی قرارداد پاس کر چکی مگر اس پر پاکستان کی اندرونی سیاسی کشمکش اور آئینی تقاضوں کی وجہ سے پیشرفت نہیں ہوئی۔ گزشتہ برس وزیر اعظم پاکستان نے گلگت بلتستان کا دورہ کیا تو انہوں نے یہ اعلان کیا کہ ہم ان علاقوں کو پاکستان کا پانچواں عارضی صوبہ بنانے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ اس سے پہلے راولپنڈی میں پاکستان کی بڑی پارلیمانی پارٹیوں کے نمائندہ اجلاس میں بھی ان علاقوں کو عارضی صوبہ بنانے پر اتفاق کرنے کی خبر آ چکی تھی۔ ان اعلانات کے پس منظر اور پیش منظر میں گلگت بلتستان اسمبلی کی قرارداد اور بعد ازاں جائزہ کمیٹی کی بات سامنے آئی۔ اس سارے قصے میں اہم بات یہ ہے کہ کسی بھی علاقے کے مستقبل کا تعین ایک بہت بڑا فیصلہ ہے جو اس علاقے کے تاریخ‘ جغرافیہ اور لوگوں کی زندگیوں کو ہمیشہ کے لیے بد ل کر رکھ دیتا ہے۔ اس طرح کے فیصلے کا تعلق عوام کے جمہوری اور انسانی حقوق کے علاوہ ان کے غیر مشروط حقِ خودارادیت سے بھی جڑا ہوتا ہے؛چنانچہ اس باب میں عوام کا حقِ ملکیت اور حقِ حکمرانی تسلیم کرنا لازم ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں