تبدیلی ایک پرانا خواب ہے‘ یہ خواب تاریخ کے ہر دور میں دیکھا جاتا رہا ہے۔ پاکستان میں یہ خواب کئی بار ایک جاندار نعرہ بن کر اُبھرا۔ اس نعرے کی بنیاد پر کئی لوگ اقتدار تک پہنچے مگر یہ خواب اب تک شرمندہ تعبیر نہیں ہوا۔ موجودہ حکومت کا تو منترہ ہی تبدیلی تھی مگر تین سال ہونے کو ہیں عوام کسی تبدیلی کی جھلک دیکھنے کے لیے دم سادھے بیٹھے ہیں۔ آج کل یہ خواب مشرقِ وسطیٰ کی کئی ریاستوں سمیت سعودی عرب میں بھی دیکھا جانے لگا ہے۔ روایتی طور پر یہ ایک ایسا سماج تھا جس میں ایسے خوابوں پر پہرے رہے ہیں مگر اب زمانہ بدل رہا ہے‘ عالمی حالات بدل رہے ہیں۔ امریکہ کی حالیہ انتخابی مہم کے دوران جو بائیڈن نے بار بار اس بات کا اعادہ کیا تھا کہ وہ سعودی عرب سے تعلقات کے باب میں صدر ٹرمپ کی نسبت بہت مختلف انداز اختیار کریں گے اور اس مختلف انداز کی ایک جھلک اس وقت دکھائی دی جب ان کی انتظامیہ نے گزشتہ ماہ قومی انٹیلی جنس کی تیار کردہ دو سال پرانی رپورٹ جاری کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس رپورٹ میں سعودی ولی عہد کو جمال خاشقجی کے قتل کا مرکزی مجرم قراردیا گیا ہے؛ تاہم اس رپورٹ کو منظر عام پر لانے کے باوجود بائیڈن نے قتل کے ماسٹر مائنڈ یعنی مرکزی ملزم کو ذمہ دار ٹھہرا نے سے گریز کیا۔ انہوں نے اس پر پابندیاں لگانے کی براہ راست منظوری دینے سے بھی انکار کر دیا۔ ان کے خلاف کچھ نہ کرنے کے فیصلے کا یہ جواز پیش کیا گیا کہ امریکہ نے تاریخ میں شاید ہی کسی ایسے رہنما کے خلاف کبھی کارروائی کی منظوری دی ہو جس کے ملک کے ساتھ امریکہ کے خوش گوار سفارتی تعلقات ہوں۔ یہ سچ ہو سکتا ہے لیکن یہ پوری کہانی نہیں ہے۔ امریکہ ہمیشہ سے عربوں کو جمہوریت اور انسانی حقوق کے سوال پر دباؤ میں لانے میں ہچکچاہٹ کا شکار رہا ہے۔ ایک اہم خلیجی بادشاہت کی حیثیت سے سعودی عرب ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور دیگر مغربی جمہوری ریاستوں کا ایک اہم پارٹنر ہے۔ اس شراکت داری کی چار بڑی وجوہات ہیں‘ اول: ریاض دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کے لیے قیمتی انٹیلی جنس معلومات کا ایک اہم ذریعہ رہا ہے۔ دوم: ریاض مغربی معاشی طاقتوں کے ایما پر عالمی توانائی کی منڈیوں کو مستحکم کرنے میں ان کا مدد گار رہا ہے۔ سوم: مشرق وسطیٰ میں ایک ملک کی توسیع پسندی کے خلاف محافظ کا کردار ادا کرتا رہا ہے۔ چہارم: یہ عالمی معاشی طاقتوں کے لیے مالی سرمایہ کاری اور اسلحے کی فروخت کے لیے ایک منافع بخش مارکیٹ پیش کرتا رہا ہے۔
امریکی پالیسی سازوں کو خوف ہے کہ اگر ولی عہد کو غیر مستحکم کر دیا جائے تو بہت ہی قیمتی انٹیلی جنس تعاون ضائع ہو سکتا ہے‘ دوسرا یہ کہ سعودی چین اور روس کے ساتھ شراکت داری کر سکتے ہیں جو انسانی حقوق اور جمہوریت کے باب میں ان سے کوئی سوال نہیں کریں گے۔ کچھ لوگوں کو یہ خوف بھی ہے کہ رجعت پسند قوتیں ریاست اور اس کے وسائل پر قبضہ کر لیں گی جس سے نہ صرف سعودیوں بلکہ ان کے قریبی خلیجی ہمسایہ ممالک کو بھی خطرہ ہے۔ صدر بائیڈن کا ولی عہد کے بارے میں محتاط رویہ اسی خوف اور سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ ان لوگوں کا خیال ہے کہ ان کو ایک مستحکم بادشاہت اور ایک ایسی ممکنہ بنیاد پرست ریاست کے مابین انتخاب کا سامنا ہے جس کے بارے میں کوئی پیش گوئی کرنا مشکل ہو گا‘ لیکن امریکیوں کے لیے ایک قابل عمل درمیانی راستہ بھی ہے۔ جمہوری اصلاح کا ایک سست رفتار راستہ جو اِن کو بادشاہت پسندوں اور عسکریت پسندوں کے خلاف یکساں طور پر حفاظت کی ضمانت دے سکتا ہے۔ صدر جو بائیڈن یہ راستہ اختیار کرنے کی طرف مائل نظر آتے ہیں مگر اس میں مسئلہ یہ ہے کہ شاہی خاندان کے کچھ افراد رضاکارانہ طور پر اقتدار سے دستبردار ہونے سے گریز کریں گے لیکن دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ عرب بادشاہت آج خطرے سے دوچار ہے اور بادشاہت کو بچانے کا واحد راستہ اس نظام میں اصلاح ہے۔ یہی ایک درمیانی راستہ ہے‘ اگرچہ بادشاہ اس طرح کے درمیانی راستے کا تصور کرنے میں ناکام ہیں۔
عرب کی بد نام جیلیں ضمیر کے قیدیوں سے بھری ہوئی ہیں۔ یقینا ان قیدیوں میں سے کچھ القاعدہ یا داعش کے حامی بھی ہیں لیکن زیادہ تر ایسے نہیں ہیں۔ زیادہ تر وہ ہیں جو ایک نئے عرب کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ایک نیا سعودی عرب جس میں بے شک بادشاہت بھی موجود ہو لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک منتخب قومی اسمبلی ہو۔ اختیارات کی علیحدگی ہو‘ ایک آزاد عدلیہ ہو‘ اظہارِ رائے اور اجتماع کی آزادی ہو۔ تمام سیاسی اور شہری حقوق کی اجازت ہو۔ دوسرے لفظوں میں یہ تمام شخصیات ایسی جمہوریت چاہتی ہیں جو بے شک شاہی شہزادوں کا احترام کرتی ہو لیکن جس میں عوام کے ساتھ اقتدار میں شراکت داری بھی ہو۔ دوسرے الفاظ میں اس نئے بندوبست کو آئینی بادشاہت بھی کہا جا سکتا ہے۔
عربوں کی جیلوں میں پڑے ہوئے ضمیر کے قیدیوں کے علاوہ کچھ اور لوگ بھی بادشاہت کے ناقدین ہیں۔ یہ لوگ اپنے ملک سے فرار ہو کر مغرب کی جمہوری ریاستوں میں پناہ گزین ہیں۔ کینیڈا‘ ریاست ہائے متحدہ اور مختلف یورپی ممالک میں اب سینکڑوں عرب جلا وطنی اور سیاسی پناہ کے متلاشی افراد موجود ہیں۔ یہ لوگ تبدیلی کا مطالبہ کر رہے ہیں‘ نئے سعودی عرب کی بات کر رہے ہیں۔ ریاض میں حکومت ان کو مغربی ایجنٹ سمجھتی ہے جو اپنی آن لائن سرگرمی سے شہزادوں کی ساکھ کو داغ دار کر رہے ہیں۔ ان میں سے بہت سے ناقدین خوف زدہ رہتے ہیں کہ ان کا انجام بھی جمال خاشقجی جیسا ہو سکتا ہے۔ گزشتہ سال ستمبر میں جلا وطن لوگوں کے ایک گروپ نے جمہوریت کی حامی ''نیشنل اسمبلی پارٹی‘‘ کے قیام کا اعلان کیا تھا۔ یہ پارٹی نیا سعودی عرب چاہتی ہے۔ یہ نہ تو مذہبی ریاست چاہتی ہے اور نہ ہی ری پبلک کا مطالبہ کرتی ہے۔ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ عوام جمہوری ذرائع انتخابات اور آزادانہ تقریر کا استعمال کرتے ہوئے اپنے مستقبل کے سیاسی نظام کا انتخاب کریں۔ ان لوگوں کا خیال ہے کہ امریکہ واحد طاقت ہے جو شاہی خاندان پر اس طرح کی اصلاحات کرنے کے لیے دباؤ ڈالنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
بقول اس پارٹی کے بد قسمتی سے ماضی میں امریکہ کی طرف سے عربوں کو ہر طرح کی حمایت سیاسی اصلاحات کے مطالبات کے بغیر حاصل ہوتی رہی۔ اس کی بنیادی وجہ اس ملک کا استحکام تھا جو اِن تجارتی سرگرمیوں کے لیے لازم سمجھا جاتا تھا‘ لیکن یہ غلط انتخاب تھا۔ مگر آج کسی بھی معاملے میں سعودی عرب اتنا مستحکم نہیں ہے جتنا پہلے تھا۔ پچھلے کئی برسوں میں تیل کی قیمتوں میں کمی ہوئی ہے۔ کووڈ وبا کی وجہ سے ایک سال میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری ایک گمبھیر مسئلہ بن چکی ہے۔ براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کے خاتمے نے معاشی پوزیشن کو کمزور کردیا ہے۔ اس کے بطن سے عوامی عدم اطمینان نے جنم لیا ہے۔ سیاسی جبر اور مخالفین کو جیل بھیجنے کے عمل نے اعتماد کو ہلا دیا ہے۔ ان حالات میں اصلاح اور ملکی معاملات میں عوام کی شراکت داری اور نئے جمہوری عرب کا خواب عوام میں مقبولیت اختیار کرتا نظر آ رہا ہے۔