الفاظ اپنے اپنے ہیں‘ اندازجداگانہ ہے‘ مگر بیان ایک جیسا ہے۔ بیان یہ ہے کہ کشمیریوں کوحقِ خود ارادیت ملے بغیربھارت سے تعلقات معمول پر نہیں آسکتے۔ یہ بات پاکستان کے تقریباً ہر حکمران نے اپنے دور میں کہی ہے۔ وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خان نے بھی یہ بات گزشتہ ہفتے ایک بار پھر اپنے انداز اور اپنے الفاظ میں دہرائی ہے۔ وزیراعظم کا یہ بیان پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارت کے باب میں اقتصادی رابطہ کمیٹی کے بیان پر ہونے والے ردعمل پر سامنے آیا تھا۔
وزیر اعظم نے واضح کیا کہ کشمیر کے حق ِخودارادیت کے بغیر بھارت کے ساتھ تعلقات نارمل نہیں ہو سکتے۔ عام طور پر جب کشمیریوں کے حقِ خود ارادیت کا ذکر آتا ہے تو اس کے ساتھ اقوام متحدہ کی قراردادوں کا ذکر ضرور آتا ہے۔ پاکستان کا سرکاری موقف یہ رہاہے کہ کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کو اقوام متحدہ کی قرادادوں کے تحت تسلیم کیا گیا ہے اور مسئلہ کشمیر کا حل ان قراردادوں پر عملدرآمد ہی سے ممکن ہے۔ پاکستان میں جہاں وسیع پیمانے پر ان قراردادوں پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے‘ وہاں اتنے ہی بڑے پیمانے پران قراردادوں کے بارے میں غلط فہمیاں اور مغالطے بھی ہیں۔ عام آدمی تو ایک طرف اچھے خاصے دانشور لوگوں کے لیے بھی یہ قراردادیں بھول بھلیوں کی طرح ہیں‘ جن سے کوئی واضح نتیجہ اخذ کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔
قرار دادوں کی اس کہانی کا آغاز پنڈت جواہر لعل نہرو کے خط سے ہوتا ہے۔اُس وقت کے بھارتی وزیر اعظم نے یہ خط کشمیر میں جاری لڑائی کے پس منظر میں یکم جنوری1948ء کواقوام متحدہ کو لکھا تھا۔ اس خط میں پنڈت جواہر لعل نہرو نے اقوام متحدہ کے آرٹیکل35 کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ '' اگر کوئی ایسا مسئلہ درپیش ہوجس کے تسلسل کی وجہ سے سے عالمی امن اور سلامتی کو خطرہ لا حق ہو سکتا ہوتو کوئی بھی رکن ملک یہ مسئلہ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے سامنے پیش کر سکتا ہے۔ آج انڈیا اور پاکستان کے درمیان اسی طرح کی ایک صورتحال موجود ہے۔ حملہ آور ریاست جموں و کشمیر میں‘ جو بھارت سے الحاق کر چکی ہے‘ پاکستان کی مدد سے کارروائیاں کر رہے ہیں؛ چنانچہ بھارتی حکومت سکیورٹی کو نسل سے درخواست کرتی ہے کہ وہ پاکستان سے فوری مطالبہ کرے کہ وہ بھارت کے خلاف اس جارحیت کو بند کرے‘‘۔ پاکستان نے 15 جنوری کو سکیورٹی کونسل میں اس شکایت کا مفصل جواب دیا۔ جواب میں پاکستان نے بھارت کے اس دعوے کو مسترد کردیا کہ اس نے کشمیر میں کسی قسم کی مداخلت کی ہے۔ کشمیر کے حوالے سے اپنی پوزیشن واضح کرتے ہوئے انڈیا کے خلاف کئی سنگین اور سنجیدہ الزامات لگائے۔ بھارت کی طرف سے دائر کی گئی اس درخواست پر لگائے گئے الزامات اور پاکستان کے جوابی الزامات پر کوئی پوزیشن اختیار کرنے کے بجائے صورتحال کو مزید خراب ہونے بچانے کیلئے سیکورٹی کونسل نے فوری طور پر ایک قرارداد پاس کی۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر کے باب میں یہ سکیورٹی کونسل کی پہلی قرارداد تھی۔ اسے قراردار نمبر 38 کہا جاتا ہے۔ یہ قرارداد 17 جنوری 1948ء کو منظور کی گئی۔ اس قرارداد کے ذریعے پاکستان اور بھارت سے کہا گیا کہ وہ ریاست جموں و کشمیر میں صورتحال کو مزید بگاڑنے سے اجتناب کریں اور صورتحال میں بہتری کے لیے تمام ذرائع بروئے کار لائیں۔ اوردونوں ممالک سے کہا گیا کہ اگر صورتحال میں کوئی تبدیلی ہوتی ہے‘ تو وہ اس سے فی الفور سکیورٹی کونسل کو آگاہ کریں۔
بھارت کے لیے یہ ایک مایوس کن خبر تھی۔ ایک شکایت کنندہ یا درخواست گزار کے طور پر بھارت یہ توقع رکھتا تھا کہ سکیورٹی کونسل پاکستان کو فی الفور مداخلت روکنے کا حکم دے گی ‘مگر اس توقع کے برعکس دونوں کو پر امن رہنے اور حالات کو مزید خراب ہونے سے بچانے کی تلقین کی گئی۔ اس کے تین دن بعد یعنی 20 جنوری 1948ء کو اس سلسلے کی دوسری قرارداد یعنی قرارداد نمبر 39 پاس کی گئی۔ اس قراداد کے ذریعے کشمیر کے مسئلے کو پُرامن طریقے سے سے حل کرنے میں مدد کرنے کی پیشکش کی گئی۔ اس مقصد کے لیے ایک تین رکنی کمیشن بنانے کا اعلان کیا گیا۔ اس کمیشن کا ایک ایک ممبر پاکستان اور بھارت کو چننے کا اختیار دیا گیا۔ ان دونوںارکان نے باہمی رضامندی سے تیسرے رکن کا انتخاب کرنا تھا۔ اس کمیشن کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ وہ سکیورٹی کونسل کو مشترکہ معروضات پر مبنی خط لکھے‘ جس میں وہ یہ بتائے کہ خطے میں امن کے لیے کیا اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔ کمیشن کا مینڈیٹ حقائق کی جانچ پڑتال کرنا اور سکیورٹی کونسل کی ہدایات پرعمل کرنا تھا۔ کمیشن نے بھارت کے یکم جنوری 1948ء کے خط میں لگائے گئے الزمات کا جائزہ لینا تھا۔ اور اگر سیکورٹی کونسل ہدایت کرے تو پاکستان کے 15 جنوری کے خط میں لگائے گئے الزمات کے بارے میں بھی حقائق جاننا تھا۔ اپنے جواب میں پاکستان نے بھارت کی تقسیم کے وسیع تناظر میں کئی الزمات لگائے تھے‘ جن میں پانچ نمایاں اور سنگین الزامات تھے۔ پاکستان کا پہلا الزام یہ تھا کہ بھارت ہندوستان کی تقسیم کو ختم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ دوسراالزام یہ تھا کہ بھارت مشرقی پنجاب اور دہلی میں مسلمانوں کے قتلِ عام میں ملوث ہے۔ تیسرا بڑا الزام یہ تھا کہ بھارت نے ریاست جونا گڑھ پر ناجائز قبضہ کرلیا ہے۔ چوتھا الزام یہ تھا کہ بھارت نے تشدد اور دھوکا دہی کے ذریعے جموںو کشمیر کا بھارت کے ساتھ الحاق کیا ہے۔ اور پانچواں بڑا الزام یہ تھا کہ بھارت نے پاکستان کو فوجی کارروائی کی دھمکی دی ہے۔ 20 جنوری1948ء کی یہ قرارداد نمبر 39 بلجیم نے پیش کی تھی‘ جو اس وقت کونسل کا چیئرپرسن تھا۔ اس قرارداد پر حکومتِ برطانیہ کا بہت گہرا اثر تھا۔ کہا جاتا ہے کہ حکومتِ برطانیہ نے فلپ نوال کی قیادت میں خاص طور پر مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اپنا وفد اقوام متحدہ میں بھیجا تھا۔ فلپ کامن ویلتھ ریلیشن کا برٹش وزیر تھا۔ اس کے پاس کامن ویلتھ ریلیشن کا تجربہ تھا۔ اور یہ وفد بھیجنے کا مقصد صرف تنازع کشمیر کو حل کرنا تھا۔
اس قرارداد پر بحث و مباحثے کے دوران اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ جموں و کشمیر میں صورت حال فوری توجہ کی متقاضی ہے‘ لیکن کمیشن کے قیام کی قرارداد پاس ہونے کے باوجود اپریل 1948ء تک کمیشن کا قیام عمل میں نہیں لایا گیا۔ آخر کار جب اپریل میں کمیشن نے کام شروع کیا تو اُس وقت تک کشمیر کے زمینی حقائق یکم جنوری کی نسبت بہت بدل چکے تھے۔ کمیشن کی تشکیل میں اس غیر معمولی تاخیر کے پیچھے کہیں ایک کہانیاں بیان کی جاتی ہیں‘ لیکن اس میں سب سے بڑی بات وجہ کمیشن کے ارکان کی نامزدگی میں تاخیر تھی۔ خود پاکستان نے کمیشن کا ممبر اپریل 1948ء کے آخر میں نامزد کیا۔ پاکستان کی طرف سے اس تاخیر کی دو ممکنہ وجوہات تھیں: پہلی یہ کہ پاکستان اس مقدمے میں مدعی نہیں بلکہ مدعا علیہ تھا‘ اورتاخیر کی صورت میں اسے کشمیر میں زمینی حقائق تبدیل ہونے کی امید تھی۔ 20 جنوری کی قرارداد پاس تو ہو گئی لیکن اس پرکسی قسم کا کوئی عمل نہیں ہوا۔ اوریہ قرارداد اس طرح کی دیگر درجنوں قرار دادوں کے انبار میں دفن ہو گئی۔ فریقین نے ایک دوسرے کو اس قرارداد پر عمل نہ کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا؛ تاہم سکیورٹی کونسل اس پر خاموش رہی۔ اس سلسلے کی اگلی قرارداد مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی ایک اہم ترین قرار داد ہے‘ جس کا جائزہ کسی اگلی تحریرمیں لیا جائے گا۔