وزیراعظم کا بیان باعث ِ افسوس تھا۔ یہ بیان پریشان کن بھی تھا ‘ مگر اس میں میں حیرت کی کوئی بات نہیں۔ حیرت کی اس میں کوئی بات اس لیے نہیں ہے کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے ہمارے ہاں جس قسم کا اخلاقی کلچر پروان چڑھ رہا ہے ‘ اس میں اس طرح کی سوچ کا غلبہ ایک لازمی اَمر ہے۔ جنسی زیادتی کے بارے میں وزیر اعظم نے یہ بیان گزشتہ دنوں جاری کیا۔ وزیراعظم کے اس بیان پر جو رد عمل ہوا وہ بھی ایک لحاظ سے پریشان کن ہے۔ انسان حیرت اور افسوس سے دیکھتا ہے کہ 20 کروڑ لوگوں کی آبادی میں کتنے لوگ تھے جنہوں نے اس افسوسناک بیان کے خلاف کوئی ردعمل دیا ہے۔ عام آدمی کی بات تو الگ ہے ‘ اور ان سے ان حالات میں کسی رد عمل کی توقع ہی عبث ہے لیکن سماج کے حساس ترین لوگ‘ لکھاری شا عر‘ ادیب و دانشوراور عوامی رائے سازی کے عمل میں مصروف کار لوگ ‘ جن سے ردعمل کی بجا طور پر توقع تھی‘ وہ بھی خاموش تماشائی رہے‘ اور اس قبیل کے بہت کم لوگ تھے جن کی زبان سے کوئی کلمہ ٔحیرت‘ کلمۂ افسوس یا حرفِ مذمت نکلا ہو۔
وزیراعظم کے اس بیان سے اس امر کی ایک بار پھر تصدیق ہوتی ہے کہ ہمارے ہاں جو اخلاقیات پروان چڑھی ہے اورجو ضابطہ اخلاق رواج پا چکا ہے اس کی موجودگی میں میں جنسی ہراسگی اور جنسی زیادتی کے اس طرح کے افعال کو برا نہیں مانا جاتا‘ اور یہی سب سے بڑی اور افسوسناک بات ہے۔ اب یہ عام سی بات ہے کہ جب کبھی بھی جنسی ہراسگی یا جنسی زیادتی کا کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے تو سب سے پہلے زیادتی کا شکار ہونے والے شخص کو اس واقعے کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے۔ اس طرح کے رویے کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ شکار نے شکار ی کو اس طرح کے گھناؤنے فعل اور جرم کی خود دعوت دی ہے۔ اس طرح کے کسی خوفناک واقعہ میں ملزم کے بجائے شکار ہونے والے شخص کو ذمہ دار ٹھہرانے کے بہت ہی سنجیدہ اور خوفناک قسم کے نتائج نکلتے ہیں۔ اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ اس طرح کے واقعات کا شکار ہونے والے لوگ معاشرے میں اس طرح کی سوچ اور نفسیاتی فضا کی موجودگی میں اپنے خلاف ہونے والی دست درازی اور جنسی ہراسانی اور زیادتی کے عام واقعات کو بیان کرنے سے کتراتے ہیں‘ کیونکہ جب وہ دیکھتے ہیں کہ اس طرح کے واقعات کے ردعمل کے طور عموماً سماج انہی کی طرف انگلی اٹھاتا ہے تو وہ یہ حوصلہ نہیں پاتے کہ اپنے ساتھ ہونے والے ظلم و تشدد کا اظہار کر سکیں۔ اس کا دوسرا بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ اس سے زیادتی کرنے والے شخص کا یہ پرانا مؤقف درست ثابت ہوتا ہے کہ یہ زیادتی کا شکار ہونے والے شخص کا اپنا قصور ہے۔ اس طرح جب سماج اس جرم کا شکار ہونے والے شخص کو ذمہ دار ٹھہراتا ہے‘ تو اس سے زیادتی کرنے والے لوگوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور وہ سزا‘ احتساب اور جواب دہی کے عمل سے بچ جاتے ہیں۔ اس طرح کا رویہ نفسیاتی طو رپر ظلم کرنے والے کی مدد کرنے اور جس کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے اس کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔ اور ظلم کا شکار ہونے والوں کو خاموشی سے ظلم و زیادتی برداشت کرنے پر مجبور کرتا ہے۔
ایسے واقعات کی حوصلہ افزائی اور ان کی رونمائی کے لیے سازگار نفسیاتی فضا پیدا ہوتی ہے۔ جنسی زیادتی ‘جبر اور ہراسانی کا ماحول پیدا کرنے میں یہ رویہ بھی کارفرما ہوتا ہے۔ اسی طرح جب اس طرح کے واقعات کے خلاف شدید رد عمل یا غصے کے بجائے اس کو ایک معمولی واقعہ بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور عام طور پر یہ مکالمہ سنائی دیتا ہے کہ مرد تو مرد ہے یا لڑکا تو لڑکا ہے‘ اس نے یہ تو کرنا ہے۔ گویا مردوں سے اس قسم کی حرکات اور واقعے کی توقع رکھی جاتی ہے۔ اس قسم کی نفسیاتی فضا پیدا کرنے میں ایک اور بڑا عنصر یہ بھی ہوتا ہے کہ جب سماج کے اندر اس طرح کے چھوٹے سے چھوٹے واقعے پر شدید ردعمل کے بجائے اس کو مذاق میں اُڑایا جاتا ہے ‘ اس کے بارے میں مذاق پر مبنی گفتگو ہوتی ہے تو یہ حرکت اس طرح کے واقعات کی سنگینی کو کم کرکے اس جرم میں ملوث لوگوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔
اس عمل کی ایک اوروجہ جنسی ہراسانی کے کثرت سے رونما ہونے والے واقعات کے بارے میں بے اعتنائی ہے‘ کہ ہم معاشرے میں دیکھتے ہیں کہ عورتوں کے بارے میں جس طرح کا عام طور پررویہ اختیار کیا جاتا ہے ‘ جیسے گھور کر دیکھنا‘ پیچھا کرنا‘ آوازے کسنا اور اس طرح کے دیگر واقعات جن کا عام مشاہدہ کیا جاتا ہے‘لیکن اس کے خلاف اس طرح کا رد عمل نہیں دیا جاتا جو ایک اخلاقی اعتبار سے صحت مند سوسائٹی کے اندر ہونا چاہئے۔ اس طرح کی نفسیاتی فضا جنسی مجرموں کے لیے سازگار فضا پیدا کرتی ہے۔اس طرح کی نفسیاتی فضا میں عوامی سطح پر زیادتی کا شکار ہونے والوں کے لباس‘ ان کی ذہنی حالت‘ طرزِ زندگی اور ان کے ماضی کا بارے میں بھی سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔ بسا اوقات ان کے خاندان کا سماجی پس منظر اور کردار بھی زیر بحث لایا جاتا ہے۔جس سے لاشعوری یا شعوری طور پر ملزم کی حرکت کو جوازیت مہیا کی جاتی ہے۔
بسا اوقات ملزم کے کردار میں موجود کج روی کے بجائے سنیما ‘ٹیلی وژن وغیرہ میں پر تشدد فلموں اور ڈراموں کو بھی اس نو کے جنسی جرائم کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے‘ اور پاکستان سمیت کئی قدامت پسند معاشروں میں اس کو بنیاد بنا کر سنسر شپ عائد کی جاتی ہے اور اظہارِ رائے کی آزادی کو سلب کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس طرح کی فضا پیدا ہونے میں ہمارے ہاں ایک اور بڑی وجہ مرد کی مردانگی اور جنسی جارحیت کومردانگی کی علامت کے طور پر بڑھا چڑھا کر بیان کرنا اورعورت کی نسوانیت اور جسمانی طاقت کو کمزوری کے طور پر پیش کرنے کا عمل بھی ایک کردار ادا کرتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں عام طورپر یہ سوچ بھی پائی جاتی ہے کہ صرف غلط کردار کی حامل بے پردہ عورتیں اس جرم کا شکار ہوتی ہیں ‘ یا اس طرح سوچنا کہ مرد جنسی حملوں یا زنا بالجبر کا شکار نہیں ہوتے‘ یا جو ہوتے بھی ہیں وہ کمزور لوگ ہوتے ہیں ۔اس کے علاوہ جنسی ہراسانی‘ تشدد اور جنسی جبر کی شکایات سنجیدگی سے نہ لینا۔ صرف بچیوں اور خواتین کو یہ تربیت اور تعلیم دینا کہ اس طرح کے واقعات سے کیسے بچا جا سکتا ہے بجائے اس کے کہ یہ تعلیم لڑکوں اور مردوں کو بھی دی جائے کہ جنسی حملہ ایک سنگین اخلاقی اور قانونی جرم ہے۔ یہ تربیت بچوں کو اوائل عمر میں سکولوں اور گھروں میں دی جانی چاہیے۔ جن ممالک نے اس جرم پر کافی حد تک کامیابی سے قابو پالیا ہے انہوں نے یہی طریقہ اپنایا ہے۔
بات ہو رہی تھی وزیر اعظم کے بیان کی تو جیسا کے عرض کیا پاکستان کے اندر ہونے والا ردعمل تو قابلِ رشک نہیں تھا لیکن ملک سے باہر اس پر سخت ردعمل ہوا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مغرب و مشرق کے ترقی یافتہ اور کامیاب ممالک میں یہ بحث بہت پہلے سمیٹی جا چکی ہے اور اس بات پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ جنسی زیادتی کے واقعات میں جنسی زیادتی کے شکار افراد کو ذرا بھر بھی موردِ الزم ٹھہرانا درست نہیں ہے۔