دنیا میں کورونا کی تباہ کاریاں عروج پر ہیں۔ لاکھوں کروڑوں لوگ اس کی براہ راست تباہ کاریوں کا نشانہ بن چکے ہیں۔ دنیا میں ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں، جو بالواسطہ طور پر اس سے متاثر ہوئے۔ یہ وہ لوگ ہیں، جن کے جمہوری، معاشی اور سیاسی حقوق سلب ہوئے‘ ان کو قتل کیا گیا، یا وہ نقل مکانی پر مجبور ہوئے، مگر ان کی کہانیاں کورونا کے شور میں دب گئیں۔ ان میں میانمار کے لوگ بھی ہیں، جسے کبھی ہم برما کہتے تھے۔
اس سال موسم سرما میں میانمار کی فوج نے بغاوت کی تھی۔ اس کے بعد سے اب تک سینکڑوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ ذرائع ابلاغ اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی مصدقہ اطلاعات کے مطابق فوجی غیر مسلح شہریوں کو ملک بھر کے شہروں اور قصبوں میں گولیوں اور تشدد کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ بڑھتے ہوئے تشدد کی لرزہ خیز تصاویر عالمی میڈیا پر گردش کر رہی ہیں۔ میانمار کا مستقبل‘ جو کبھی بہت روشن لگتا تھا، اب تاریک نظر آرہا ہے۔ دنیا یہ سب دیکھ رہی ہے‘ اورخاموش ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ میانمار کے باب میں دنیا بھر کی حکومتیں بحران کی گہرائی اور شدت کا مکمل ادراک کرنے میں ناکام ہیں۔ اس کے بجائے، بہت سارے بیرونی مبصرین حیرت زدہ دکھائی دیتے ہیں‘ اور یہ فرض کرتے ہیں کہ ''عظیم طاقتوں کے مقابلے‘‘ کی منطق کے تحت میانمار کے بارے میں کوئی مربوط پالیسی بنانا ناممکن ہے۔ میانمار میں پیش آنے والے واقعات کے بارے میں یہ ظاہری طور پر حقیقت پسندانہ تفہیم خطے کی سلامتی کے لیے خطرناک طور پر گمراہ کن ہے۔ حقیقت میں یہ ملک جمہوریت کو لگتا ہوا صرف ایک اور سفاکانہ دھچکا نہیں دیکھ رہا ہے، بلکہ ایشیا کے دل میں ناکام ریاست کی سست رفتار تخلیق کے عمل سے گزر رہا ہے۔
میانمار نے فوجی حکمرانی کے تحت نصف صدی کا انحطاط برداشت کیا ہے۔ یہ سائیکل انیس سو باسٹھ میں بغاوت کے ساتھ شروع ہوا تھا۔ اس کے نتیجے میں میانمار وحشیانہ سیاسی جبر، معاشی زوال، اندرونی تفرقہ بازی اور بڑے پیمانے پر عوام کے ملک سے اخراج جیسے مسائل سے گزرا ۔
موجودہ بغاوت کا اثر ماضی کے ادوار سے زیادہ شدید لگتا ہے۔ فروری کے آغاز سے ہی ایک بہت بڑی سول نافرمانی کی تحریک سامنے آئی ہے، جس نے معیشت، حکومت اور روزمرہ کی زندگی کے بہت سے پہلوؤں کو متاثر کیا ہے۔ میانمار کے عوام روزانہ اور اپنی جان کی قیمت پر سڑکوں پر نکل رہے ہیں۔ وہ اپنی جانوں اور معاش کو دائو پر لگا کر اس بات کا اظہار کر رہے ہیں کہ وہ خاموشی سے ان حالات کو اپنا مقدر سمجھ کر قبول نہیں کریں گے۔ انہوں نے اپنی تاریخ کے خوفناک تجربے سے سیکھا ہے کہ ان کے مستقبل کے لئے فوجی حکمرانی کے ایک اور دور کا کیا مطلب ہوگا؟ وہ کسی بھی ایسے سیاسی نظام میں واپسی کے شدید مخالف ہیں، جو ملک کی سیاست میں فوجی شمولیت کو مضبوط کرتا ہو۔ فوجی تشدد کے ہر عمل کے ساتھ، اس طرح کی مستقل مزاحمت دن بدن زیادہ وسیع ہوتی جا رہی ہے۔
میانمار کی سڑکوں پر بیشتر مظاہرین نوجوان ہیں۔ سن دو ہزار گیارہ میں ملک میں جمہوری تجربے کے بعد انہیں ایک دہائی کے دوران آزادی کا ذائقہ چکھنے کا موقع ملا ہے۔ وہ ایسی توقعات رکھتے ہیں جو ایک بار صرف بڑی عمر کی نسلوں کی امنگیں تھیں۔ بے رحمانہ جبر کے باوجود ان کی مزاحمت متعدد شکلوں میں جاری ہے۔ یہاں تک کہ بہت سارے نوجوان خاموشی سے جبر کے خلاف لڑنے کے لئے ''وفاقی فوج‘‘ قائم کرنے کی تربیت لے رہے ہیں۔ اگرچہ اچھی طرح سے لیس فوج کے خلاف ان کے امکانات بہت ہی کم ہیں‘ لیکن وہ مزاحمت کے لیے تیار ہیں۔
دوسری طرف فوج کی طرف سے بھی پیچھے ہٹ جانے کے کوئی آثار نہیں نظر آتے۔ اس نے میانمار کے معاشرے میں اپنے ممبروں کو اپنی مراعات یافتہ حیثیت پر یقین کرنے اور اس کے لیے لڑنے پر تیار کررکھا ہے۔ فوجی قیادت اس واحد حکمت عملی پر عمل پیرا ہے، جس کا اس کو طویل تجربہ ہے۔ یہ حکمت عملی تشدد کا استعمال ہے۔ کئی دہائیوں سے اس نے ملک کے سرحدی علاقوں میں نسلی اقلیت والے علاقوں میں تباہی مچا رکھی ہے۔ اس کو دنیا کی طویل خانہ جنگی بھی کہا جا سکتا ہے۔ اس قتل عام کا نتیجہ سادہ ہے: معاشی اور معاشرتی تباہی، اندرونی توڑ پھوڑ کو گہرا کرنا، وسیع انسانی پریشانی اور مہاجرین کا ملک سے باہر نکالے جانا۔
فروری کی بغاوت کے نتیجے میں میانمار کے ایک اور مطلق العنان ریاست بننے کے خدشات نہیں ہیں، جیسے ہن سین کے ماتحت کمبوڈیا یا پھر سن دوہزار چودہ کی بغاوت کے بعد تھائی لینڈ بنا تھا، بلکہ اس کے ایک اور شام بننے کے زیادہ خدشات ہیں: ایک ایسی جگہ جہاں حکمران طبقے اور شہریوں کے درمیان وسیع تقسیم، باہمی تباہی اور باہمی بیگانگی دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔ یہ ایک ایسی صورتحال ہوتی ہے، جو طالع آزمائوں کو تنہا کردیتی ہے۔ وہ لالچ اور خوف کے امتزاج کا شکار ہو جاتے ہیں، اور عوام کی مستقل مزاحمت سے گھبرا کر وہ شام میں بشارالاسد اور اس کے اتحادیوں کی طرح اپنے آپ کو بچانے کیلئے ملک کو تباہ کرنے پر بھی تیار ہوجاتے ہیں۔
ان حالات میں میانمار میں غیر معینہ مدت تک صبر کے مطالبے حقیقت پسندانہ نہیں، بلکہ سٹریٹیجک اور اخلاقی طور پر اندھا پن ہیں۔ آس پاس کے ممالک صبر کی عیاشی کے متحمل نہیں ہو سکتے جبکہ ان کا ایک پڑوسی پورے خطے میں عدم استحکام پیدا کر رہا ہے۔ اس کے بجائے‘ اس سے پہلے کہ تباہی مزید پھیلے اس کے روک تھام کا بندوبست کرنا ہوگا۔ بڑی طاقتوں‘ جو ایک دوسرے کے ساتھ سٹریٹیجک مقابلے کے مدنظر میانمار کے بارے میں پالیسی مرتب کرتی ہیں‘ کو اپنی سوچ کو بدلنا ہو گا‘ اور ملک اور خطے کی زیادہ سے زیادہ بھلائی کے لئے تعاون کے راستے تلاش کرنا ہوں گے۔
جو لوگ صبر اور عاجزی کا مطالبہ کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ میانمار پہلے ہی ایک ایسے مقام پر پہنچ چکا ہے، جہاں سے واپسی آسان نہیں۔ فوج اور عوام کے مابین تفریق اتنی زیادہ ہے کہ اس پر کوئی قابو نہیں پا سکتا‘ لیکن بغاوت کو عوامی طور پر مسترد کرنے میں میانمار کی ایک نئی اور زیادہ امید کی بنیاد پہلے ہی عیاں ہے۔ اپنی موجودہ بے دریغ وحشت کے ذریعے، فوج نے اکثریتی نسلی گروہ کو کئی دہائیوں سے میانمار کے اقلیتی نسلی گروہوں پر ہونے والے تشدد اور ناانصافیوں کے بارے میں بیدار کیا ہے۔ یہ نسلی یکجہتی میانمار میں پائیدار امن اور مفاہمت کی بنیاد پیش کرتی ہے۔
فوج ملکی سلامتی اور وحدت کے لیے اپنے آپ کو ناگزیر قرار دے رہی ہے‘ لیکن کوئی فوج کے اس دعوے کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں کہ میانمار اس کے بغیر ٹوٹ جائے گا۔ سچ تو یہ ہے کہ برمی فوج نے کئی دہائیوں سے میانمار میں تقسیم اور نفاق پیدا کیا ہے، جو آج کل ارد گرد کے شہروں اور قصبوں تک پھیل رہا ہے۔ ملک کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ طویل عرصے سے فوج نے شہریوں کے کنٹرول اور آئین سے بالاتر کام کیا ہے۔ اس کی وجہ سے آج ملک گہرے بحران کا شکار ہے۔ اس بحران کے کسی بھی حل کے لئے فوج کو ملکی سلامتی کے امور پر سویلین کنٹرول کو تسلیم کرنا ہوگا‘ اور فوجی مداخلت کے بغیر منتخب نمائندوں کی بالا دستی اور حکمرانی ماننا ہوگی۔ اس کے لیے دنیا کو آگے آنا ہوگا۔ دنیا اگر اس معاملے سے یونہی صرفِ نظر کرتی رہی تو اس ملک میں بہت بڑا انسانی بحران اورخطے میں ایک ناکام ریاست جنم لے سکتی ہے‘ اور اس سے خطے میں جمہوریت اور انسانی حقوق کے تصورات کو سخت دھچکا لگ سکتا ہے۔