صدر ٹرمپ نے اپنی صدارت کے آخری دنوں میں عجلت میں جو چند ایک کام کیے‘ ان میں ایک اہم کام یہ تھا کہ انہوں نے اسرائیل کے کچھ عرب ریاستوں کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کروانے میں مدد دی۔ ان ریاستوں میں متحدہ عرب امارات، بحرین، سوڈان اور مراکش وغیرہ شامل ہیں۔ ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ ٹرمپ کے اس ''کارنامے‘‘ کو فلسطین اسرائیل تنازع کے حل کی طرف ایک تاریخی قدم قرار دیا گیا۔ اس ''تاریخی قدم‘‘ میں فلسطینی کہیں نہیں تھے۔ حالانکہ اس تاریخی قدم میں نہ تو ان کا کوئی ذکر آیا اور نہ ہی کوئی کردار تھا۔ ظاہر ہے اس عمل سے فلسطین امریکہ تعلقات خراب ہوئے‘ مگر یہ خرابی صرف اس حد تک ہی محدود رہی، جتنی فلسطینی اس کی استطاعت رکھتے تھے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اپنے اس کارنامے پر فخر کرتے ہوئے واشنگٹن سے رخصت ہو گئے۔
نئے منتخب امریکی صدر جو بائیڈن نے ٹرمپ کی پالیسی کے برعکس امریکہ اور فلسطین کے مابین تعلقات کو بحال کرنے کے عمل کا آغاز کیا۔ اس پالیسی کی بنیاد قدیم ''دو ریاستی تصور‘‘ ہی ٹھہرا۔ اس محاذ پر اپنے تجربے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، اور انتہائی تیز رفتاری سے کام کرتے ہوئے اپریل کے وسط تک جو بائیڈن صورت حال میں کافی تبدیلی لا چکے تھے۔ انہوں نے فلسطینیوں کے لیے اربوں ڈالرز کی امریکی امداد بحال کی۔ کئی ایک ترقیاتی منصوبوں کا اعلان کیا۔ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کچھ پرانے پروگرام بحال کیے اور کچھ نئے پروگرام بھی شروع کرنے کا ارادہ ظاہر کیا‘ اور سب سے بڑھ کر اسرائیل اور فلسطین کے مابین قیامِ امن کا از سر نو بیڑا اٹھایا۔ اس باب میں انہوں نے پرانی امریکی پالیسی کی روشنی میں اسرائیل فلسطین تنازع کا حل خطے میں دو ریاستوں کا قیام قرار دیا۔ صدر بائیڈن نے اپنے طویل تجربے کی روشنی میں جو دو ریاستی حل تجویز کیا، اس کی بنیاد پر پہلے ہی طویل سفارتی کاری ہو چکی ہے، اور وہ اس کی تفصیلات سے واقف ہیں۔ اس کے پس منظر میں اوسلو ایکارڈ جیسے معاہدے بھی موجود ہیں، جو ایک وقت میں امن کی طرف عظیم پیش قدمی سمجھے جاتے تھے‘ لیکن بدلتے ہوئے حالات میں بہت سارے لوگوں کا خیال ہے کہ دو ریاستی حل ایک پرانا فارمولہ ہے، جو بدلتے ہوئے معروضی حالات سے مطابقت نہیں رکھتا۔ فلسطینیوں میں اب ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں ہے، جن کے خیال میں بدلتے ہوئے حالات میں دو ریاستی تصور شاید اتنا قابل عمل یا سود مند نہ ہو۔ ان کے خیال میں اب ایک ایسے حل کی ضرورت ہے، جو اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کو الگ کرنے کے بجائے آزادی، مساوات اور انصاف کی بنیاد پر ایک مکمل جمہوری ریاست کے تصور پر مبنی ہو‘ لیکن بائیڈن انتظامیہ دو ریاستی حل کے بارے میں زیادہ پُر امید ہے، جس کے پیچھے طویل امریکی تجربہ ہے۔ اگرچہ اس حل کے ایک پُر جوش حامی جان کیری نے دوہزار تیرہ میں خبردار کیا تھا کہ دو ریاستی حل دو برسوں میں بطور آپشن موجود نہیں رہے گا اور یہ کھڑکی بند ہو جائے گی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بائیڈن کی گہری دلچسپی اور جوش سے یہ کھڑکی دوبارہ کھل سکتی ہے؟
دو ریاستی حل صرف امریکیوں کا ہی پسندیدہ حل نہیں ہے، بلکہ یہ ایک لحاظ سے عالمی برادری کا ایک مشترکہ پسندیدہ حل رہا ہے۔ عالمی برادری کے پسندیدہ حل کے طور پر اسے ستر کی دہائی میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی حمایت بھی حاصل رہی ہے۔ اس حل کو واحد قابل عمل نکتہ مان کر ستر کی دہائی سے اس پر درجنوں مذاکرات اور معاہدے ہوئے تھے۔ ان میں اوسلو، کمپ ڈیوڈ، تابا اور ایناپولس جیسے مشہور ایکارڈز اور مذاکرات شامل ہیں۔ ان ایکارڈز کے پس منظر میں دنیا کا بڑا دبائو تھا، جس کے زیر اثر اسرائیل بھی دو ریاستی حل کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوتا رہا‘ مگر دوسری طرف دنیا کی آنکھوں کے سامنے زمینی حقائق بدلنے کیلئے طاقت اور جبر سے کام لیتا رہا۔ ستر میں یہ حل واحد قابل عمل حل کے طور پر ابھرا تھا‘ تب سے لے کر آج تک دنیا بہت بدل چکی ہے۔ نصف صدی کا طویل عرصہ گزر چکا ہے۔ اس عرصے میں فلسطین اور اسرائیل کے اندر زمین پر موجود حقائق کافی بدل چکے ہیں۔ صورت حال یہ ہے کہ ویسٹ بینک اور ایسٹ یروشلم میں سات لاکھ سے زائد یہودی آباد ہو چکے ہیں۔ دوسری طرف ویسٹ بینک میں فلسطینیوں کو جنگی قیدیوں کی طرح رہنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ ان کی آبادیوں کے اردگرد تیس فٹ سے اونچی دیواریں اور ننگی باڑیں ہیں۔ اور ان کے گردونواح میں یہودی بستیوں اور آبادیوں میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے اور اسرائیل‘ ریاستی سطح پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مقبوضہ علاقوں میں یہودی آبادکاری کے لیے سرگرم ہے۔ ان حالات میں بعض لوگوں کے نزدیک دو ریاستوں کا مطلب ہو گا علاقے میں در حقیقت ایک ریاست کا غلبہ، جس کے زیر اثر دوسری ریاست کے نام پر ایک کمزور اور غیر مساوی فلسطینی حکومت قائم ہو گی۔ اس طرح کا بندوبست دو ریاستوں پر مشتمل ایک نسلی تفریق سے زیادہ کچھ نہیں ہو گا۔ یہ ایک ایسا بندوبست ہو گا جس کے اندر فلسطینی لوگ عزت سے نہیں رہ سکیں گے۔ اسی خدشے کے پیش نظر نوجوان فلسطینیوں کے خیالات میں تیزی سے تبدیلی آ رہی ہے۔ کچھ پول اور جائزے بتاتے ہیں کہ نوجوان فلسطینی ایک علیحدہ ریاست سے زیادہ اپنے بنیادی حقوق، آزادی اور بہتر معیارِ زندگی میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ ان پولز کے مطابق نوجوان فلسطینی لیڈرز میں انسانی حقوق کے یونیورسل ڈیکلریشن، اور دوسرے اداراتی اور قانونی ذرائع سے اپنے حقوق کے تحفظ کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے‘ لیکن دوسری طرف مسئلہ یہ ہے کہ اسرائیل کے دائیں بازو کے انتہا پسند مضبوط حلقے، جو مذہبی اور نسلی بنیادوں پر سوچتے ہیں، فلسطینیوں کو ایک ریاست میں قبول کرنے اور ان کو وہ مناسب جگہ‘ جس کے وہ حقدار ہیں‘ دینے کے لیے تیار نہیں۔ صورتحال یہ ہے کہ سات اعشاریہ تین ملین سے زائد فلسطینی اسرائیل اور ویسٹ بینک میں رہتے ہیں۔ ان میں کچھ اسرائیلی شہری ہیں، کچھ نہیں ہیں‘ اور جس تناسب سے ان کی آبادی بڑھ رہی ہے‘ اس کے پیشِ نظر اسرائیل کے لیے کچھ عرصے بعد ان کے حقوق کا مطالبہ رد کرنا ممکن نہیں رہے گا۔ اسرائیل فلسطین کے مابین زمین پر بدلتے ہوئے حقائق اور نوجوان نسل کی سوچ سے قطع نظر صدر جو بائیڈن نے اس مسئلے پر جو میمو جاری کیا ہے‘ وہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ امریکی پالیسی ''دو ریاستی حل‘‘ کے ارد گرد ترتیب دی جائے۔ اس میمو کے مطابق بائیڈن انتظامیہ کا مقصد اسرائیل اور فلسطین‘ دونوں کے لیے آزادی، سلامتی اور خوشحالی ہے، جس کو دو ریاستی حل کے لیے استعمال ہونا چاہیے۔ نئے نارمل حالات میں ناصرف اسرائیل اور فلسطین میں امن کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے بلکہ فلسطینیوں کے معیار زندگی میں بہتری بھی لائی جا سکتی ہے۔ اس طرح اس نئی امریکی پالیسی میں کوئی نیا پن نہیں ہے۔ یہ اوباما دور کے ''پوزیشن پیپر‘‘ کی طرف رجوع ہے، اور صدر جو بائیڈن کے عالمی سیاست میں 'سٹیٹس کو‘ قائم رکھنے اور بحال کرنے کی پالیسی کا اظہار ہے۔ فلسطینیوں کے حالات زندگی میں کوئی مثبت تبدیلی صرف ان کی سوچ اور طرز سیاست میں تبدیلی سے ہی ممکن ہے۔ ایسا تب ہی ہو سکتا ہے جب وہاں روشن خیال، جمہوریت پسند اور امن پسند قوتیں متحد ہوں، اور وہ جمہوری عمل میں فیصلے کرنے کا اختیار رکھتی ہوں۔