حال ہی میں ایک جج صاحب نے فرمایا کہ پاکستان میں سب سے بڑا مسئلہ عدم مساوات ہے۔ یہ اہم اعتراف ہے، مگر اس میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ عدم مساوات پاکستان کے ہر شعبہ زندگی میں موجود ہے۔ یہ عدم مساوات پاکستان کی سڑکوں، گلیوں اور بازاروں واضح نظر آتی ہے، اور اپنی موجودگی کا اعلان کرتی ہے۔ یہ عدم مساوات صرف ارباب اختیار یا خوش قسمت طبقات کو نظر نہیں آتی‘ ورنہ اعدادوشمار دیکھیں جائیں تو برس ہا برس سے کئی مقامی اور عالمی تحقیقی رپورٹیں بڑے تسلسل کے ساتھ اس تلخ حقیقت کا اظہار کر رہی ہیں۔ اس وقت پاکستان میں دولت کی غیر منصفانہ تقسیم ہر جگہ نظر آتی ہے‘ لیکن جن علاقوں میں یہ بہت ہی بد صورت اور نمایاں ہے، وہ دیہی علاقے ہیں۔ ملک کی آبادی کا چونسٹھ فیصد سے زائد دیہاتوں میں آباد ہے۔ اس چونسٹھ فیصد کے درمیان زمین کی تقسیم میں عدم مساوات کی المناک شکلیں موجود ہیں۔ ایک فیصد لوگ کل قابل کاشت زرعی زمین کے بیس فیصد کے مالک ہیں‘ اور بیس فیصد لوگوں کے پاس تقریباً ستر فیصد زمین ہے جبکہ تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ چھوٹے کسان کے پاس اوسطاً زیرو اعشاریہ تین ہیکٹر سے بھی کم زمین ہے۔ زمین کی تقسیم کے اس نظام کا تعلق برطانوی دور حکومت سے ہے۔ انگریز کچھ لوگوں کو زمین کے بڑے بڑے قطعے عطا کرتے تھے۔ ان تحفوں یا معاوضوں کے عوض یہ جاگیردار اور بڑے بڑے زمین دار ہندوستان میں نوآبادیاتی فوج کے لیے سپاہی بھرتی کرتے تھے۔ انگریزوں کے لیے زمینوں کا مالیہ جمع کرتے تھے، اور بوقت ضرورت دیگر خدمات سرانجام دیتے تھے۔ آزادی کے بعد زمینوں کی اس تقسیم میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی۔ اگرچہ ہر دور میں جاگیرداری کے خاتمے، زرعی اصلاحات اور زرعی انقلاب کے بلند بانگ دعوے ہوتے رہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میدان میں اتنی تبدیلی آئی ہے کہ اب کوئی جاگیراداری نظام کے خاتمے کی بات بھی کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتا۔ پاکستان کی تمام بڑی پارٹیوں میں سے کسی ایک کے منشور میں بھی جاگیرداری نظام کے بارے میں کوئی واضح موقف نہیں ہے‘ اور نہ ہی ایسی زرعی اصلاحات کا ذکر ہے، جن سے جاگیرداری نظام پر زد پڑتی ہو۔ یہ صورت حال صرف زراعت تک ہی محدود نہیں ہے۔ زراعت کے علاوہ زندگی کے دیگر شعبوں میں بھی عدم مساوات اپنی تمام تر بد صورتیوں اور خوفناکیوں کے ساتھ موجود ہے۔
یہ خوفناک حقائق ہیں مگر اس سے بھی بڑی خوفناک حقیقت یہ ہے کہ اس وقت پاکستان میں عدم مساوات اور معاشی ناہمواریوں کا مسئلہ کسی بھی سنجیدہ فورم پر زیر غور نہیں ہے۔ ملک میں کئی فورمز اور پلیٹ فارمز ایسے ہیں، جن پر اس مسئلے پر کچھ کچھ مباحثہ ہونا چاہیے تھا۔ ان میں سب سے اہم پلیٹ فارم پاکستان کی قومی اسمبلی ہے۔ لیکن یہ ستم ظریفی کی انتہا ہے کہ گزشتہ چالیس سالوں کے دوران قومی اسمبلی میں اس موضوع پر کوئی سنجیدہ بحث نہیں ہوئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو لوگ منتخب ہو کر ان ایوانوں میں آتے رہے، ان کی اکثریت ہی نہیں، بلکہ سب کا تعلق مراعات یافتہ طبقے سے رہا ہے۔ اگر کوئی اکا دکا رکن ایسا بھی گیا جو نسبتاً کم خوش قسمت طبقے سے تعلق رکھتا ہو تو وہ بھی یا تو کوئی ایسا شخص ہی ہوتا ہے، جو طبقاتی شعور سے دور ہوتا ہے یا پھر اگر وہ کوئی طبقاتی شعور رکھتا بھی ہے تو جو پاپڑ بیل کر اس نے پارٹی لیڈرشپ کی کامیاب خوشنودی کے ذریعے اسمبلی کا ٹکٹ لیا ہوتا ہے، وہ اس کے انقلابی شعورکو تھپکی دے کر سلا دیتا ہے۔ پیپلز پارٹی جیسی بظاہر سوشل ڈیموکریٹک پارٹی میں کبھی کبھار اکا دکا آدمی کو اسمبلی تک جانے کا موقع مل جاتا ہے، مگر وہ بھی اس مقام پر پہنچ کر شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری ضروری سمجھتا ہے۔ بنیادی طور پر پارٹیاں معاشی لحاظ سے خوشحال لوگوں کا انتخاب کرتی ہیں، جو دولت کے زور پر انتخابات جیتنے کے زیادہ امکانات رکھتے ہیں، بلکہ وہ اپنی دولت کا کچھ حصہ پارٹی یا بعض صورتوں میں پارٹی لیڈروں پر بھی خرچ کرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ یہ تمام بڑی پارٹیوں کی مشترکہ حکمت عملی ہے، جس کی وجہ سے ایک ہی قسم کے لوگ یا ایک ہی طبقے کے لوگ بار بار منتخب ہو کر آتے ہیں۔ اقتدار میں آنے سے پہلے موجودہ وزیر اعظم نے پاکستانی سیاست کے اس عظیم المیے کو ''باری لگانے‘‘ کے سادہ الفاظ میں بیان کیا تھا‘ مگر بڑا المیہ یہ ہے کہ انتخابات میں جس طرح کے لوگوں کو خود انہوں نے ٹکٹ دیے، اور اقتدار میں آ کر جو طرزِ عمل اختیار کیا اس کی وجہ سے وہ خود بھی ''باری لگانے‘‘ والوں میں شامل ہو گئے ہیں۔ ان کی وساطت سے بھی اسمبلی میں ایسے لوگ ہی آئے جو ہر قسم کے فکر و اندیشے سے بالاتر خوشحال لوگ ہیں‘ چنانچہ اس دور حکومت میں اسمبلی کے اندر ایک بھی بل ایسا نہیں آیا، جس میں کم مراعات یافتہ طبقات کی تلخ زندگیوں میں کسی بہتری کے لیے کوئی مباحثہ ہوا ہو یا قانون سازی ہوئی ہو‘ چنانچہ اس زاویہ نگاہ سے دیکھا جائے تو موجودہ حکومت سمیت گزشتہ دو حکومتوں کے دوران یہی صورت حال رہی۔ اگر کوئی استثنا تلاش بھی کیا جائے تو لے دے کر اٹھارہویں ترمیم جیسی قانون سازی کی اکا دکا مثال ملتی ہے۔ یہ بلا شبہ پاکستان کی تاریخ کے ایک متنازع ترین موضوع پر قانون سازی تھی، جس میں مقامی لوگوں کو حق ملکیت اور حق حکمرانی لوٹایا جا رہا تھا، جو سچی جمہوریت اور عوامی حقوق کی پاسداری طرف پہلا قدم تصور کیا جاتا ہے۔ اگرچہ یہ ایک محض جمہوری اصلاحی قدم تھا، لیکن پاکستان میں قدامت پرستانہ روایات اور رویوں کی تاریخ کو سامنے رکھتے ہوئے اس کو ایک انقلابی ''ریڈیکل‘‘ قدم بھی کہا جا سکتا ہے۔ بد قسمتی سے پاکستان کی پارلیمان میں اس طرح کے حساس اور عوامی مفاد کے موضوعات پر قانون سازی کی روایت نہیں ہے۔
عدم مساوات صرف پاکستان کا ہی نہیں دنیا بھر کا مسئلہ رہا ہے، اور آج بھی ہے۔ اس مسئلے سے ڈیل کرنے کے تاریخی طور پر دو طریقے رہے ہیں۔ ایک اصلاحی طریقہ جو پارلیمان میں قانون سازی کے ذریعے اختیار کیا جاتا رہا۔ اس طریقے سے نہ تو تاریخ میں عدم مساوات کو کبھی مکمل طور پر ختم کیا جا سکا، اور ختم نہ ہی کیا جا سکتا ہے البتہ اس سلسلے میں مثبت قانون سازی سے عدم مساوات کی شدت میں کمی ضرور لائی جا سکتی ہے۔ دنیا میں سچی سماجی جمہوریت والے ممالک کا کامیاب تجربہ یہی بتاتا ہے۔ دوسرا طریقہ انقلابی رہا ہے، جس میں ایک منظم پارٹی انقلاب کے ذریعے اقتدار پر قابض ہوتی ہے، اور انقلابی اقدامات اور قانون سازی کے ذریعے سماج کے معاشی ڈھانچے کو بدل کر نئے معاشی رشتے تشکیل دیتی ہے۔ اس طرح کا تجربہ انیس سو سترہ میں روس، انیس سو انچاس میں چین، اور انیس سو اٹھاون میں کیوبا میں ہو چکا ہے۔ جیسا کہ عرض کیا پاکستان میں پارلیمانی قوت رکھنے والی بڑی پارٹیاں عدم مساوات کو قابل توجہ مسئلہ نہیں تصور کرتیں اور اس باب میں کسی قسم کی قانون سازی کے لیے تیار نہیں ہیں۔ جہاں تک انقلابی پارٹیوں کا تعلق ہے تو پاکستان عوامی ورکرز پارٹی اور مزدور کسان پارٹی اور دیگر چند چھوٹی پارٹیاں سال ہا سال سے جدوجہد میں مصروف ہیں لیکن انقلاب یا انتخاب کے ذریعے ان کی کامیابی کے امکانات اس وقت تک نہیں، جب تک یہ سب پارٹیاں مل کر بائیں بازو کا ایک مشترکہ محاذ تشکیل نہ دے دیں۔ ایک بڑا محاذ ہی اس وقت پاکستان میں عدم مساوات کے سوال کا کوئی مؤثر جواب دے سکتا ہے۔