''دنیا میں اگر کوئی جہنم ہے تو وہ غزہ میں رہنے والے بچوں کی زندگیاں ہیں‘‘یہ کسی شاعر یا ادیب کا قول نہیں بلکہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے الفاظ ہیں۔ اس عالمی ادارے کا کام دنیا میں تصادم اور خون خرابہ روکنا اور امن قائم کرنا ہے مگر اسرائیل فلسطین تنازع پر گزشتہ ستر سال سے یہ ادارہ قراردادیں پاس کرنے اور پاس ہونے سے روکنے میں ہی مصروف ہے۔
قراردادوں کے اس طویل کھیل کے باوجود غزہ میں زندگی اپنے ڈگر پر چلتی رہتی ہے۔ یہاں اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان کسی نہ کسی شکل میں تصادم جاری رہتا ہے۔ اس تصادم کا ایک بڑا نشانہ عورتوں اور مردوں کے علاوہ فلسطینی بچے بھی ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق حالیہ گیارہ دن کے تازہ تصادم میں ستر کے قریب بچے مارے گئے۔ ابھی چار جون کو ہم لوگ دنیا بھر میں ان معصوم بچوں کا دن منا رہے ہوں گے جو دنیا میں جارحیت کا شکار ہوئے ہیں۔ بہت سے لوگ شاید یہ نہ جانتے ہوں کہ اس عالمی دن کا تعلق بھی فلسطینی بچوں سے جڑا ہے۔ چار جون کو اقوام متحدہ نے جارحیت کا شکار ہونے والے بچوں کا عالمی دن قرار دے رکھا ہے۔ اس دن کے منانے کے پیچھے بھی اقوام متحدہ کی ایک قرارداد ہے۔ اقوام متحدہ نے یہ دن منانے کا فیصلہ19 اگست 1982 ء کو کیا تھا۔ اس کو اب چالیس برس ہونے والے ہیں۔ 39 سال پہلے اس باب میں اقوام متحدہ نے ایک قرارداد پاس کی تھی۔ اس قرارداد میں کہا گیا تھا کہ اقوام متحدہ اپنے اس ساتویں ہنگامی سپیشل سیشن میں فلسطین کے مسئلے پر غور کرتے ہوئے بڑی تعداد میں اسرائیل کی طرف سے فلسطین اور لبنان کے معصوم بچوں کو نشانہ بنانے کی مذمت کرتی ہے اور چار جون کو جارحیت کا شکار معصوم بچوں کے عالمی دن کے طور پر منانے کا اعلان کرتی ہے۔ ان چالیس سالوں میں ہرسال عالمی سطح پر یہ دن منایا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں تقریبات منعقد ہوتی ہیں‘ ان تقریبات پر لاکھوں کروڑوں ڈالر خرچ کیے جاتے ہیں۔ ان تقریبات میں بچوں سے ہمدردی کا اظہار کیا جاتا ہے‘ ان کے دکھ میں آنسو بھی بہا ئے جاتے ہیں‘ ان کے دکھ میں نظمیں لکھی جاتی ہیں‘ادب تخلیق کیا جاتا ہے لیکن ہر سال جب ایسا ہو رہا ہوتا ہے تو جارحیت کا شکار بننے والے فلسطینی اور دنیا کے دیگر تصادم زدہ علاقوں میں رہنے والے بد قسمت بچوں کی تعداد میں اگلے برس کی نسبت بہت بڑا اضافہ ہو چکا ہوتا ہے۔ اس سال بھی چار جون سے کچھ دن پہلے ہی اسرائیل فلسطین تصادم بند ہوا ہے‘ لیکن اس تصادم کے زخم ابھی تازہ ہیں۔ فلسطین میں کئی غم زدہ مائیں اپنے بچوں کی موت یا ان کے معذور ہو جانے پر آنسو بہا رہی ہیں۔ اس تازہ ترین خون خرابے کے بعد بھی اس سال اقوام متحدہ کے زیر اہتمام حسب ِسابق یہ دن منایا جائے گا مگر یہ دن مناتے ہوئے کہیں بھی یہ سوال نہیں اٹھایا جائے گا کہ اس عالمی ادارے کی قراردادوں کو جس بے دردی اور حقارت سے نظر انداز کیا جا رہا ہے‘ اس کا کیا مداوا ہے؟
بچوں کے بارے میں ہی نہیں‘ فلسطین اسرائیل تنازع کے ہر پہلو پر اقوام متحدہ کی کئی قراردادیں موجود ہیں جن پر اسرائیل نے عملدرآمد سے یا تو صاف انکار کردیا یا حیلوں بہانوں اور ٹال مٹول سے کام لیا گیا ۔ ان میں سے کئی ایسی قراردادیں بھی ہیں جن کی قانونی حیثیت محض اختیاری یا سفارشی نہیں بلکہ جن پر عمل کرنا عالمی قانون کے تحت لازم ہے اور خلاف ورزی کی صورت میں متعلقہ ملک کے خلاف کارروائی کا باقاعدہ میکانزم بھی موجود ہے‘ مگردنیا کی صف بندی کے پیش نظر کوئی اس میکانزم کو استعمال کرنے کی جرأت نہیں کرتا۔ فلسطین اسرائیل تنازع میں جس حقارت اور بے دردی سے اقوام متحدہ کی قراردادو ں کو نظر انداز کیا گیایا عالمی سیاسی داؤ پیچ کے ذریعے اس سے بچ نکلنے کے طریقے نکالے گئے وہ بہت مایوس کن ہے۔ یہ صورت حال اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ آج بھی ہماری اس مہذب دنیا میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون ہی نافذ ہے۔ جو لوگ مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں حل کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں ان کو چاہیے کہ وہ اسرائیل فلسطین تنازع پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کو غور سے پڑھیں اور ان سے سبق سیکھیں۔ جہاں تک دنیا میں جارحیت کا شکار بچوں کا تعلق ہے تو فلسطین سمیت دنیا بھر میں ان کا مسئلہ حقیقی ہے۔ ان کے لواحقین کا دکھ درد ایک حقیقت ہے‘ اور اس کو پہلے سے زیادہ سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔
ایک عالمی تنظیم ''سیو دی چلڈرن‘‘ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا میں 420 ملین سے زائد بچے ایسے علاقوں میں رہتے ہیں جن کو شورش زدہ علاقے یا کانفلیکٹ زون کہا جاتا ہے۔ ان میں سے 142 ملین ایسی جگہ پر رہتے ہیں جن کو خطرناک ترین تصادم زدہ علاقے کہا جا تا ہے۔ اس طرح کے تصادم زدہ علاقوں میں بچے مختلف طریقوں سے متاثر ہوتے ہیں۔ کہیں ان کو لڑائی کے لیے بھرتی کیا جاتا ہے یا ان کو خود کش حملوں میں استعمال کیا جاتا ہے‘ کہیں ان کے سکولوں پر حملے ہوتے ہیں‘ کہیں ان کو اغوا کر کے ان کی خرید و فروخت کا کاروبار کیا جاتا ہے‘ کہیں وہ ان حالات کا شکار ہو کر جیل میں چلے جاتے ہیں اور کہیں ان کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ لاکھوں بچے تصادم کے بالواسطہ اثرات کا شکار ہوتے ہیں۔ کہیں وہ بھوک اور کم خوراکی کا شکار ہو کر مرجاتے ہیں‘ کہیں صحت کی سہولتوں کی عدم دستیابی کا شکار ہو کر معمولی بیماریوں کے ہاتھوں لقمۂ اجل بن جاتے ہیں‘ کہیں ناقص پانی اور گندگی کا شکار ہو کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ اس طرح بچوں کو تصادم کی وجہ سے بے گھر ہونا پڑتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے تصادم زدہ علاقوں میں تشدد اور پیلٹ گنوں کا شکار بچوں کی تصاویر دنیا بھر میں گردش کرتی رہی ہیں۔ افغانستان کے تصادم کے نتیجے میں لاکھوں افغان بچوں کی ہجرت اور ان کی بھوک‘ ننگ اور کسمپرسی کے مناظر بھی گزشتہ کئی دہائیوں سے عام دکھائی دیتے ہیں۔ خود اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق شام کی حالیہ صورت حال میں تقریبا 25 لاکھ بچے ہجرت پر مجبور ہوئے۔ اس رپورٹ کے مطابق بے گھر ہونے والے ان بچوں کی بہت بڑی تعداد صحت و تعلیم کی بنیادی سہولتوں کے بغیر زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کی ایک رپورٹ کے مطابق دو اعشاریہ چھ ملین (چھبیس لاکھ) بچوں کو گھر چھوڑنے پر مجبور کیا گیا اور ان میں سے دو ملین سکول جانے سے محروم ہیں۔ ایک اور رپورٹ کے مطابق اس وقت شام میں ہرپانچ میں سے چار لوگ غربت کی سطح سے نیچے رہتے ہیں۔ اس غربت اور بے چارگی سے فائدہ اٹھا کر بچوں کو جنگ کے لیے بھرتی کیا جاتا ہے۔ ان سے سستے داموں محنت مزدوری کروائی جاتی ہے یا بہت کم عمری میں ان کی شادی کر دی جاتی ہے۔ بچوں کی خرید و فروخت اوران کے جنسی اور جسمانی استحصال کی وجہ تصادم اوراس تصادم کے نتیجے میں بڑھتے ہوئے غربت کے سائے ہیں۔ بچوں کے اس وحشیانہ استحصال کا خاتمہ صرف تصادم کے خاتمے اور امن و انصاف کے قیام ہی سے ممکن ہے۔ شورش زدہ علاقوں کے ساتھ ساتھ پُرامن علاقوں میں بھی غربت کے خاتمے اور بچوں کے استحصال کے خاتمے کے لیے دولت کی منصفانہ تقسیم اور امیر و غریب کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج کو کم کرنے کے لیے انقلابی اقدامات کی ضرورت ہے۔