آزاد کشمیر میں انتخابات کا بگل بج چکا ہے۔ اٹھائیس لاکھ سے زائد ووٹر حق رائے دہی کے استعمال کے لیے تیار ہیں۔ روایتی سیاسی جوڑ توڑ کا آغاز ہو چکا ہے۔ حسب سابق ٹکٹوں کی تقسیم پر خرید و فروخت اور ہیرا پھیری کے الزامات عام ہیں۔ بہت سارے امیدواروں کو یہ شکوہ ہے کہ مقابلے کے لیے میدان مساوی نہیں ہے۔ دولت اور سرمائے کی چمک نمایاں ہے۔ اربابِ اختیار سمیت سب کی دلچسپی کا مرکز ''الیکٹیبلز‘‘ ہیں۔
انتخابات جمہوریت کا روح اور جوہر ہیں۔ یہ واحد راستہ ہے، جس پر چل کر عوام کو اپنے لیڈروں کا انتخاب اور ان کا احتساب کرنے کا موقع ملتا ہے‘ لیکن الیکشن کی برکات سے فائدہ اٹھانے کے لیے انتخابات کا آزادانہ اور شفاف ہونا ضروری ہے۔ صرف انتخابات منعقد کرانا کافی نہیں۔ دنیا کے کئی ممالک میں باقاعدگی سے انتخابات ہوتے ہیں، مگر جمہوری دنیا ان کو جمہوریت ماننے کے لیے تیار نہیں۔ قابلِ اعتبار انتخابات‘ جن کے ذریعے کسی ملک کو جمہوری ملک مانا جاتا ہے، کے کچھ بنیادی تقاضے ہیں، جو جمہوری دنیا میں مسلمہ ہیں۔ ان میں سے کچھ شرائط یونیورسل ڈیکلریشن فار ہیومن رائٹس اور انٹرنیشنل کونوویننٹ آف سول اینڈ پولیٹیکل رائٹس (Covenant of Civil and Political Rights) میں موجود ہیں۔ ان اعلامیوں اور معاہدوں کے مطابق یہ ہر شخص کا حق ہے کہ وہ آزادانہ طریقے سے منتخب شدہ نمائندوں کے ذریعے اپنے ملک کی حکمرانی میں حصہ لے۔ وہ انتخابات میں خفیہ رائے دہی کے ذریعے اپنا ووٹ دے۔ اسے انتخابات میں بطور امیدوار حصہ لینے کے لیے مساوی مواقع حاصل ہوں‘ اور اسے اپنے سیاسی خیالات کے اظہار کا حق ہو۔ اگر انتخابات میں ان بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ قوانین و روایات میں سے کسی ایک کی خلاف ورزی ہوتی ہے، تو ان انتخابات کو آزادانہ اور شفاف نہیں مانا جاتا‘ اور جس ملک میں ایسے انتخابات ہوتے ہیں، اسے یا تو جمہوری ماننے سے انکار کر دیا جاتا ہے، یا جمہوریت کی درجہ بندی میں اسے نیم، جمہوری یا خراب جمہوریت کی صف میں ڈالا جاتا ہے۔
انتخابی عمل میں پہلا مراحلہ ووٹر کی رجسٹریشن ہے۔ اس کا تعلق ووٹ دینے یا پھر بطور امیدوار عوام سے اپنے لیے ووٹ لینے سے ہے۔ ووٹر کی رجسٹریشن پر حکومتیں چند معقول پابندیاں عائد کر سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر ووٹر کی عمر کیا ہونی چاہیے یا اس کی شہریت کیا ہے؟ یہ شرائط قابل قبول ہیں‘ لیکن حکومتیں محض امتیازی سلوک کی بنیاد پر ووٹر کو رجسٹریشن سے نہیں روک سکتیں۔ ایسا عمل خواہ کسی شکل میں ہو آزادانہ اور شفاف الیکشن کے اصولوں سے متصادم ہے۔ ماضی سے اس کی کئی مثالیں مل جائیں گی۔ مغربی جمہوریتوں میں بھی اس کی کئی ایک مثالیں موجود ہیں۔ یورپ میں ایک زمانے میں ایک شہری کے ووٹ دینے کے لیے لازم تھا کہ وہ صاحب جائیداد ہو‘ یعنی جس کے پاس جائیداد نہیں ہے، اس کا شمار ان غریب لوگوں میں کیا جاتا تھا، جن کو حق رائے دہی حاصل نہیں تھا۔ امتیازی سلوک کی ایک بد ترین شکل ریاستہائے متحدہ امریکہ میں مروج تھی۔ امریکہ میں نصف صدی پہلے تک سیاہ فام لوگوں کے بطور ووٹر رجسٹر ہونے سے پہلے ان کی لٹریسی ٹیسٹ کی جاتی تھی یعنی ان پڑھ سیاہ فام لوگوں کو حق رائے دہی حاصل نہیں تھا۔ یہ امتیازی سلوک انیس سو پینسٹھ کے الیکشن ایکٹ کے تحت ختم کیا گیا۔ ہمارے ہاں رنگ و نسل کا امتیازی سلوک نہیں ہے، لیکن کچھ لوگ شناختی کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے ووٹ دینے سے محروم رہ جاتے ہیں، جس کا تعلق غربت و پسماندگی سے ہوتا ہے۔
دنیا کے جمہوری معیار کے مطابق ایسے انتخابات کو آزادانہ اور شفاف نہیں مانا جائے گا، جس میں حکومت میڈیا کو کسی خاص پارٹی یا گروپ کو کوریج دینے سے روکے۔ اس کی ایک مثال حال ہی میں عالمی فورمز پر زیر بحث رہی ہے۔ دو ہزار بیس کے انتخابات میں تیسری بار صدر بننے کے شوق میں مبتلا برونڈی کے صدر نے مخالفین کو کوریج دینے والے صحافیوں کو گرفتار کر کے جیلوں میں ڈالا۔ دنیا نے اس کے خلاف سخت رد عمل دیا، اور برونڈی کے صدارتی انتخابات کو آزادانہ اور شفاف ماننے سے انکار کر دیا۔ ہمارے ہاں حکمران شاید اس حد تک جانے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے‘ لیکن ارباب اختیار کے پاس لالچ و خوف کے کئی کارگر حربے ہوتے ہیں، جن کی وجہ سے میڈیا کے کچھ لوگ خود ہی شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری کا طرز عمل اختیار کر لیتے ہیں۔
ایک آزادانہ اور شفاف الیکشن میں حکومت یہ فیصلہ نہیں کر سکتی کہ کون انتخابات لڑ سکتا ہے، اور کون نہیں لڑ سکتا۔ نہ ہی حکومت ایسے امتیازی قوانین بنا سکتی ہے، جس میں کسی خاص پارٹی یا گروپ کو کسی خاص نظریے یا عقیدے کی بنیاد پر انتخابات میں حصہ لینے سے روکا جا سکے۔ اس کی ایک انہونی مثال دو ہزار انیس کے انتخابات میں ماسکو کے مقامی انتخابات میں سامنے آئی تھی، جس میں حکومت مخالف امیدواروں کو مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعے مقابلے سے باہر رکھنے کی کوشش کی گئی تھی۔ دنیا بھر کے دانشوروں اور انسانی حقوق کے علم برداروں نے یہ سوال اٹھایا تھا کہ اگر کسی سیاسی پارٹی یا گروپ کو انتخابات میں حصہ لینے سے ہی روکا جائے تو یہ حق رائے دہی میں براہ راست مداخلت اور قدغن سمجھی جائے گی، جو کسی بھی مسلمہ جمہوریت میں ناقابل قبول ہے۔
اس امر کو یقینی بنانا حکومت کی ذمہ داری ہے کہ انتخابات کا انعقاد ہر قسم کے خوف، لالچ اور دبائو سے آزاد ہو۔ پولنگ سٹیشن عام آدمی کے لیے محفوظ ہوں۔ وہاں پر تشدد کے خطرات نہ ہوں۔ خفیہ بیلٹ کا واحد مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ ہر آدمی خفیہ طریقے سے اپنی رائے کا اظہار کرے، اور کسی دوسرے شخص کو یہ خبر نہ ہو کہ کوئی ووٹر اپنا ووٹ کس امیدوار کے حق میں کاسٹ کر رہا ہے۔ انتخابات کے دوران انتخابی اخراجات کو قانونی حدود میں رکھنا حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ اس کے بغیر سب امیدواروں کے لیے مساوی میدان کی شرط پوری ہونا ممکن نہیں۔ سرمائے کے زور پر ووٹ کی خرید و فروخت کا عمل جمہوریت کے منہ پر طمانچہ ہے۔ انتخابات میں اخراجات کی زیادہ سے زیادہ حد کا تعین اور اس پر سختی سے عمل درآمد ضروری ہے، جس کے بغیر جمہوریت مراعات یافتہ طبقات کی لونڈی بن جاتی ہے۔
ووٹنگ کے دوران چھوٹا سا فراڈ بھی پورے انتخابات کو بے اعتبار بنا دیتا ہے۔ تیسری دنیا کی اکثر پسماندہ جمہوریتوں میں انتخابات کے دوران فراڈ کے الزامات سامنے آتے ہیں۔ پاکستان میں شاہد ہی کوئی انتخاب ایسا ہوا ہو، جس میں ووٹنگ میں فراڈ کا کوئی نہ کوئی الزام سامنے نہ آیا ہو۔ گزشتہ انتخابات میں دھاندلی کا بڑا الزام سامنے آیا تھا، جس پرتاحال لے دے ہو رہی ہے۔
انتخابات کے بعد ووٹوں کی گنتی اور ان کے نتائج کے اعلان میں ہیرا پھیری یا دھاندلی کے الزامات بھی عام ہیں۔ یہ الزامات پاکستان میں حالیہ ضمنی انتخابات کے دوران بھی منظر عام پر آئے، جہاں ہارنے والی پارٹیوں نے نتائج کو چیلنج کیا۔ بیشتر ممالک میں بظاہر آزاد الیکشن کمیشن جیسے ادارے قائم ہیں، جن کی بنیادی ذمہ داری حکومتوں اور افراد کو انتخابی فراڈ سے روکنا ہے۔ آزاد کشمیر میں نگران حکومت نہیں ہے۔ مقامی ارباب اختیار خود انتخابات کا حصہ اور امیدوار ہیں۔ دوسری طرف پاکستان میں برسر اقتدار پارٹی کی شاخ ''ایلیکٹیلز‘‘ کو اپنی صفوں میں شامل کرتے ہوئے فتح کی دعوے دار ہے۔ ان حالات میں الیکشن کمیشن کو اپنی خود مختاری اور غیر جانب داری ثابت کرنے کا سخت چیلنج درپیش ہے۔