جی سیون کے تازہ ترین اجلاس سے ماضی کی سرد جنگ کی یاد تازہ ہوتی ہے۔ ماضی کی سرد جنگ کی اصطلاح سے بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں بڑی خوفناک تصاویر ابھرتی ہیں۔ ان تصاویر میں ایک طرف امریکہ میں میکارتھی ازم کے زیر اثر انسانی حقوق اور شہری آزادیوں پر ہونے والے حملے اور جبر کے مناظر ہیں، دوسری طرف سوویت یونین میں اختلاف رائے کا اظہار کرنے والوں کی زبان بندی، قید و بند اور جلا وطنی کے قصے ہیں۔ ماضی کی اس سرد جنگ کا تصور کرتے ہیں تو کیوبا میزائل بحران جیسی کہانیاں یاد آتی ہیں، جب دو سپر پاوز کے مابین جنگ کے خوف کا یہ عالم تھا کہ لوگوں نے اپنے گھروں کے پچھواڑوں میں پناہ کے لیے مورچے بنا لیے تھے۔ اس وقت کی سرد جنگ بنیادی طور پر سوشلزم اور سرمایہ داری کے درمیان جنگ تھی۔ یہ جنگ پراکسی وار کی شکل میں کئی ممالک میں لڑی گئی تھی۔ دونوں ممالک کی براہ راست جنگ سے اجتناب کی واضح پالیسی کے باوجود نیوکلیئر جنگ کا خوف تھا، جو دنیا کے اعصاب پر سوار رہتا تھا۔ یہ نظریاتی جنگ سن انیس سو نواسی میں دیوار برلن کے گرنے اور اس کے دو سال بعد سوویت یونین کے انہدام پر ختم ہوئی۔ اس طرح وہ نظریاتی جنگ بھی ختم ہوئی، جس نے دنیا بھر میں لاکھوں کروڑوں لوگوں کے دل و دماغ کو اپنی گرفت میں لے رکھا تھا۔ اس جنگ کے خاتمے کو غلط طور پر عالمی سرمایہ داری اور لبرل ازم کی فتح قرار دیا گیا‘ اور یہ فرض کر لیا گیا کہ اب دنیا میں جمہوریت، قانون کی حکمرانی اور انسانی حقوق کے احترام کا ایک نیا دور شروع ہو گا‘ اور دنیا کی معیشت اور سلامتی کے عالمی نظام کو نئے انداز میں چلایا جائے گا۔ یہ دنیا میں طاقت کے توازن میں ایک بڑی تبدیلی تھی، جس کی وجہ سے امریکہ دنیا میں واحد سپر پاور کے طور پر ابھرا۔ یہ سلسلہ تین دہائیوں تک چلتا رہا‘ مگر ان تیس سالوں میں آہستہ آہستہ چین کے معاشی اور فوجی طاقت کے طور پر ابھرنے کی وجہ سے صورت حال میں تبدیلی آئی۔ یہ ایک غیر اعلانیہ تبدیلی ہے، جس کو ہر طرف محسوس کیا جا سکتا ہے۔ چین نے ایک معاشی طاقت کے طور پر دنیا میں اپنا کردار ادا کرنا شروع کیا۔ روزمرہ کی اشیا کے حوالے سے دنیا کی منڈی پر چین کی اجارہ داری تو بہت پہلے قائم ہو چکی تھی، لیکن اگلے قدم کے طور پر بیلٹ اور روڈ کا منصوبہ لے کر جب چین میدان میں اترا تو اس سے دنیا میں طاقت کے توازن میں واضح تبدیلی ہوتی نظر آئی۔ یہ منصوبہ ایشیا سے نکل کر افریقہ اور مشرقی یورپ تک پھیل گیا، جس کے ساتھ کئی ایسے ممالک جڑنا شروع ہو گئے، جن کو اپنے انفراسٹرکچر اور تعمیر و ترقی کے لیے سرمائے کی ضرورت تھی۔ چین نے نا صرف قرضے کی شکل میں یہ سرمایہ فراہم کرنا شروع کیا، بلکہ چینی کمپنیوں نے اپنی تکنیکی برتری، اور مہارت کی وجہ سے ان منصوبوں کی تعمیر میں حصہ لینا بھی شروع کر دیا۔ مغرب میں اس چینی منصوبے کو شک اور خوف کی نظر سے دیکھا گیا۔ اس چینی پالیسی کے بارے میں وہی نقطہ نظر اپنایا گیا، جو سرد جنگ کے دوران تیسری دنیا میں امریکی اور دیگر مغربی ممالک کی سرمایہ کاری اور مالی امداد کے بارے میں اپنایا گیا تھا۔ تیسری دنیا میں مغربی ممالک اور بینکوں کے قرضوں اور امداد کو ایسی سامراجی امداد اور قرضے قرار دیا گیا تھا، جو تیسری دنیا کے غریب ممالک کو مستقل طور پر غلام بنانے اور ان پر قبضہ کرنے کی سامراجی سازش تھی۔ اسی طرح آج مغربی معیشت دانوں اور دانشوروں کی ایک بڑی تعداد چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبوں کو چینی سامراجیت اور دنیا کی معیشت اور سیاست پر قبضہ کرنے کی سازش قرار دے رہی ہے۔ امریکہ سمیت کئی مغربی حکومتوں نے سرکاری سطح پر یہ موقف اختیار کر لیا ہے کہ، چین غریب ممالک کو جو قرضے دے رہا ہے، اس کی یک طرفہ شرائط اور بلند شرح سود ہے، جس کی واپسی غریب ممالک کے لیے نا ممکن ہو گی۔ اس باب میں چین کے خلاف ایک مشترکہ مغربی محاذ بنانے کی سوچ ابھر رہی تھی کہ اس اثنا میں امریکہ میں صدر ٹرمپ کی صدارت نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا۔ صدر ٹرمپ بھی چین کے بارے میں وہی سوچ رکھتے تھے مگر عملی طور ان کی خارجہ پالیسی نے عالمی سٹیج پر امریکی کردار کو محدود کر دیا تھا، جس کی وجہ سے چین کو اپنا بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ آگے بڑھانے کے لیے مزید وقت مل گیا۔ جو بائیڈن کے صدر منتخب ہونے کے فوراً بعد اس طرز عمل میں تبدیلی آئی۔ امریکہ کی دنیا کے سٹیج پر ایک غالب قوت اور لیڈر کے طور پر واپسی بائیڈن کے ایجنڈے کا اہم ترین نکتہ تھا‘ چنانچہ انہوں نے صدارت پر فائز ہونے کے فوراً بعد دنیا میں امریکی کردار بحال کرنے کے لیے پے در پے اقدامات کیے۔ جی سیون کا حالیہ اجلاس اس سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ اس اجلاس کو چین کے خلاف سرد جنگ کے آغاز کے اعلان کے لیے پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کیا گیا۔ اس پلیٹ فارم پر بائیڈن نے اعلان کیا کہ امریکہ کی عالمی سیاست میں واپسی ہو چکی ہے۔ آئندہ دنیا کی سیاست چین اور امریکہ کے درمیان سرد جنگ کی سیاست ہو گی۔ اس اعلان سے بظاہر جی سیون میں شامل دولت مند ممالک نے اتفاق کیا۔ اس اجلاس میں جو اعلانات اور مطالبات کیے گئے ان کو چینی حلقوں میں اعلان جنگ کے مترادف سمجھا گیا۔ اس اجلاس میں جی سیون کا قدیم امیج اور کردار دوبارہ نمایاں کرنے کی کوشش کی گئی۔ یہ وہ جی سیون تھا، جو دنیا میں ایک نظریاتی کردار ادا کرنے کا خواہش مند تھا۔ جس کے ایجنڈے پر جمہوریت، شہری آزادیاں اور انسان حقوق سر فہرست تھے۔ جمہوریت اور انسانی حقوق کے حوالے سے چین سے جو مطالبات کیے گئے، چینی دانشور ان کو ملک کی سالمیت اور بقا پر حملے کے مترادف قرار دیتے ہیں۔ اس میں ہانگ کانگ میں آزادی اور جمہوریت کا سوال، تائیوان کی خود مختاری اور ایغور مسلمانوں کے خلاف چین کے طرز عمل پر سوالات شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ چین کے بیلٹ اور روڈ منصوبے کے جواب میں بہتر تعمیر کے منصوبے کا اعلان کیا گیا۔ اس منصوبے کے تحت جی سیون کے ممالک دنیا بھر میں چین کے مقابلے منصوبے شروع کریں گے، جن کے تحت ضرورت مند ممالک کی انفراسٹرکچر اور تعمیر و ترقی میں معاونت کی جائے گی۔ ان کو قرضے اور تکنیکی امداد بھی فراہم کی جائے گی۔ بظاہر یہ بڑے خوش کن اعلانات ہیں، جن سے لگتا ہے کہ تیسری دنیا کے کئی ممالک استفادہ کر سکتے ہیں‘ لیکن یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ یہ سارے منصوبے، قرضے اور مراعات چین کے خلاف سرد جنگ کے ساتھ مشروط ہوں گے‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ ان منصوبوں سے استفادہ کرنے کے خواہش مند ممالک کو چین کے خلاف سرد جنگ میں فریق بننا پڑے گا۔ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ اور دوسرے منصوبوں سے باہر نکلنا ہو گا‘ اور اس سلسلے میں مغربی اتحادیوں کی گائیڈ لائن پر چلنا ہو گا۔ یہ سلسلہ آگے چل کر چین پر طرح طرح کی پابندیوں اور رکاوٹوں کا باعث بنے گا، جس میں مغرب کے اتحادی ممالک کو واضح طور طرف داری کرنا پڑے گی۔ اس نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو یہ دنیا کے لیے کوئی اچھی خبر نہیں ہے۔
کورونا وائرس کی خوفناک تباہی کے بعد یہ سمجھا جاتا تھا کہ اس خوفناک طوفان سے نکلنے کے بعد دنیا پُر امن بقائے باہمی کے تحت تعاون کا راستہ اختیار کرے گی، مگر جی سیون کے اعلانات کے بعد امن کا یہ خواب شرمندۂ تعبیر ہوتا نظر نہیں آتا۔