کچھ امریکی دانشور ہماری اس دنیا کی نئی تصویر بنا کر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ نئی تصویر مکمل طور پر حقیقت کی عکاس نہیں، مگر طاقت ور حلقوں میں مقبول ہے۔ اس سال موسم بہار کے آغاز میں امریکی صدر جو بائیڈن نے بھی نئی تصویر کو حقیقت تسلیم کیا۔ جو بائیڈن نے کہا کہ یہ دنیا بنیادی طور دو متحارب دنیائوں میں تقسیم ہے۔ ایک طرف جمہوری دنیا ہے۔ دوسری طرف مطلق العنان حکومتیں یا شخصی حکمرانیاں ہیں۔ ہم ان دو دنیائوں کے درمیان نقطہ تصریف پر کھڑے ہیں۔ ایک طرف وہ لوگ ہیں، جن کا خیال ہے کہ مطلق العنانیت ترقی کا آسان راستہ ہے۔ دوسری طرف وہ لوگ ہیں، جو اس دنیا کا انسانیت کی بہتری اور بھلائی کی طرف سفر جاری رکھنے کے لیے جمہوریت کو ناگزیر راستہ قرار دیتے ہیں۔ بائیڈن کے خیال میں دنیا کی اس تقسیم میں امریکہ واضح طور پر جمہوریت اور جمہوریت پسندوں کے ساتھ کھڑا ہے‘ اور صدر کے پاس داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پر ایک ایسا ایجنڈا ہے، جو امریکہ کو یہ جنگ جیتنے کی پوزیشن میں لاتا ہے۔
یہ ایک اچھی پوزیشن ہے‘ مگر اس پوزیشن کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ ایک ایسا زاویہ نگاہ ہے، جس کی وجہ سے دنیا کی ساری توجہ جمہوریت اور آمریت کے تصادم پر مرتکز ہو جاتی ہے‘ اور اس توجہ کی وجہ سے دنیا میں اس سے بھی زیادہ گہری تقسیم نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہے۔ یہ تقسیم امیر اور غریب کے درمیان ہے‘ اور اس وقت یہی ہماری دنیا کی اصلی حقیقت بھی ہے، مسئلہ بھی ہے، اور تصادم بھی ہے۔ جو بائیڈن کا یہ دعویٰ ایک طرف، لیکن اس وقت مسئلہ یہ ہے کہ امریکہ جمہوری دنیا کی رہنمائی کا دعوے دار تو ہے، لیکن عملی طور پر وہ کئی بڑے عالمی مسائل پر اس جمہوری دنیا کے خلاف ہے۔ یہ گوناگوں مسائل ہیں، جن کا احاطہ کرنے کے لیے کئی کالموں کی ضرورت ہے‘ لیکن مختصراً ان میں پہلا بڑا مسئلہ ماحولیاتی تبدیلی کا مسئلہ ہے۔
ماحولیاتی تبدیلی کے مسائل پر امریکہ ان پالیسیوں کی حمایت نہیں کرتا، جن کا دنیا کی جمہوریتیں اور جمہوریت پسند لوگ اس سے تقاضا کرتے ہیں۔ دوسرا بڑا مسئلہ دنیا میں تجارت سے جڑے قواعد و ضوابط ہیں۔ عالمی تجارت کے ان قواعد و ضوابط پر بیشتر جمہوری ممالک اور امریکہ کے درمیان سخت اختلاف رہا ہے۔ اس طرح دنیا میں بحیثیت مجموعی معاشی ترقی سے لے کر کورونا وائرس کے بحران سے جڑے مسائل تک بے شمار امور ایسے ہیں، جن پر امریکی پالیسیاں جمہوریت پسندوں کے ساتھ متصادم رہی ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس طرح کی پالیسیاں نا صرف جمہوریت کے لیے مسائل پیدا کرتی ہیں، بلکہ عالمی سیاست میں خود امریکی حیثیت اور طاقت کو بھی کمزور کرتی ہیں۔
ہماری یہ دنیا بڑی پیچیدہ ہے۔ اس دنیا میں امیر اور غریب جمہوریتوں کے بہت سے مسائل مشترکہ ہیں۔ دونوں میں ایک بڑا مشترکہ مسئلہ دولت کا چند ہاتھوں میں ارتکاز ہے‘ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم ہے‘ اور امیر و غریب کے درمیان دن بدن گہری ہوتی ہوئی خلیج ہے۔ گزشتہ نصف صدی سے دولت چند ہاتھوں میں مرتکز ہو رہی ہے۔ دونوں قسم کی جمہوریتوں میں ریاست کی طرف سے عوامی فلاح و بہبود اور سرکاری خدمات کی فراہمی میں کمی ہو رہی ہیں۔ مزدوروں، محنت کش طبقات اور کسانوں کے حالات دن بدن ابتر ہوتے جا رہے ہیں۔ ایک مشترکہ احساس ملکیت ختم ہوتا جا رہا ہے۔ ان حالات کے بطن سے جو مسائل پیدا ہو رہے ہیں، وہ بھی مشترکہ ہیں۔ ان مسائل میں تنگ نظر قوم پرستی سر فہرست ہے۔ دنیا نے اس کا حالیہ مظاہرہ امریکہ میں ٹرمپ کی قیادت میں دیکھا ہے، جو تیسری دنیا کے کسی غریب ملک کی تنگ نظر قوم پرستی سے زیادہ تنگ نظر تھا۔ نسل پرستی ایک اور مسئلہ ہے، جو اس طرح کے مسائل کے رد عمل میں سامنے آتا ہے، اور اس کے مظاہرے ہمیں آئے دن امیر اور غریب جمہوریتوں میں یکساں طور پر نظر آتے ہیں‘ اور ظاہر ہے کہ مطلق العنانیت اور شخصی حکمرانی کے رجحانات کا مظاہرہ مختلف جمہوریتوں میں عام دکھائی دیتا ہے۔
یہ ایک افسوس ناک صورت حال ہے۔ اس تشویش ناک صورت حال کی عام تصویر دنیا میں جمہوریت پر سامنے آنے والی حالیہ عالمی رپورٹوں میں دکھائی دیتی ہے‘ اور اب اس حقیقت کو ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ دنیا میں جمہوریت پر سے عام آدمی کا بھرو سہ کمزور ہو رہا ہے، چونکہ جمہوریت اس کی ضروریات پوری نہیں کر رہی ہے، اس کی توقعات پر پورا نہیں اتر رہی ہے۔ اس حقیقت کے ادراک کے باوجود امریکی لیڈرشپ اس سلسلے میں کوئی ایسا اہم قدم اٹھانے میں ناکام رہی ہے، جو دنیا میں جمہوریت کا اعتبار اور بھروسہ بحال کر سکے۔ اس کے برعکس امریکہ کا سارا فوکس چین سے مقابلہ کرنے پر ہے‘ اور بد قسمتی سے یہ مقابلہ بھی جمہوریت اور آمریت سے زیادہ ٹیکنالوجی پر ہے۔ امریکی صدر کا خیال ہے کہ امریکہ کا مستقبل کی پروڈکٹ اور ٹیکنالوجی پر غلبہ ہونا چاہیے‘ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ راستہ امریکی سرمایہ کار کی مدد تو کر سکتا ہے، مگر یہ تیسری دنیا کی غریب جمہوریتوں کی مدد نہیں کر سکتا۔
یہ مایوس کن بات ضرور ہے، لیکن یہاں راستہ بند نہیں ہو جاتا۔ اس کے بجائے ایک نئی سوچ کے لیے جگہ پیدا ہوتی ہے۔ ایک ایسی سوچ جو دنیا میں جمہوریت اور شخصی حکمرانی کے درمیان مقابلے کے بجائے سچی سوشلسٹ جمہوریت کی بات کرے، تا کہ جمہوریت کے خلاف ابھرتی ہوئی لہر کا مقابلہ کیا جا سکے۔
حال ہی میں سامنے آنے والی تازہ ترین رپورٹوں کے مطابق ترقی پذیر جمہوریتوں میں امیر جمہوریتوں کے مقابلے میں دُگنے لوگ آباد ہیں‘ اور اگر بنگلہ دیش‘ نائیجیریا اور ترکی جیسی ہائبرڈ جمہوریتوں کو بھی شامل کیا جائے تو ترقی پذیر دنیا میں آباد لوگوں کی تعداد تین گنا زیادہ ہے‘ لیکن اس قدر آبادی والے ممالک امریکی پالیسی سازی کے دوران قابل اعتنا نہیں سمجھے جاتے۔ ان کو صرف اس وقت اہمیت دی جاتی ہے جب وہ کسی وسیع جیو پولیٹیکل تصادم میں کام آتے ہوں۔ ان کا نظر نہ آنا یا نظر انداز ہونا سمجھ میں آتا ہے۔ یہ غریب ممالک ہیں۔ یہ دنیا کی سیاست اور معیشت پر وہ اثرات نہیں رکھتے جو امیر جمہوریتیں رکھتی ہیں۔
دوسری طرف امیر جمہوریتیں ہیں۔ یہ دنیا کی کل آبادی کا پندرہ فیصد ہیں‘ لیکن یہ دنیا کی کل جی ڈی پی کے تینتالیس فیصد دولت کے مالک ہیں۔ ان کا فوجی بجٹ بھی بہت بھاری ہے۔ امریکہ کا کئی جمہوریتوں کے عوام کے ساتھ نسلی اور ثقافتی تعلق بھی ہے۔ اس طرح کچھ امریکی رہنما جمہوریت اور دولت کو آپس میں گڈ مڈ کرتے ہیں۔ اس طرح وہ دنیا میں جمہوریت کے فروغ کے مقصد کو کنفیوز کر دیتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں امیر جمہو ریتیں بڑی تیزی سے غلط سمت کی طرف بڑھتی رہی ہیں۔ ظاہر ہے اس طرح کی پالیسی کا نا کام ہونا لازم ہے، جو امیر جمہوریت کی ترجیحات پر مبنی ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ غریب جمہوری ممالک کے مفادات اکثر امیر جمہوری ممالک کے مفادات سے متصادم ہوتے ہیں‘ اور اکثر امیر جمہوری ممالک ترقی پذیر جمہوری ممالک میں شخصی حکمرانی والی حکومتوں کی طرف جھکائو رکھتے ہیں۔
یہ تجربہ تاریخی طور پر بار بار دیکھنے میں آیا ہے۔ اس طرح اس وقت دنیا میں جمہوریت پسندوں اور شخصی حکمرانی کے درمیان جنگ میں ایک اہم نکتہ عدم مساوات پر توجہ دینا ہے، جو عالمی معیشت کا ایک نمایاں اور بد صورت رخ ہے۔