پاکستان میں حال ہی میں ایک قابل تعریف بل پاس ہوا ہے۔ یہ حراست میں تشدد کے خلاف ایک بہترین بل ہے‘ مگر کسی نے اس بل کو اہمیت نہیں دی۔ نہ تو اخبارات نے اس پر سرخیاں جمائیں، اور نہ ہی اس کی توصیف میں لکھاریوں نے کالم لکھے استثنا کے طور پر البتہ ایک آدھ اخبار نے اس پر اداریہ لکھا جو قابل تحسین ہے۔ اس طرح کے موضوعات پر عموماً کالم اس لیے نہیں لکھے جاتے کہ ان کو زیادہ مقبولیت نہیں ملتی۔ سوشل میڈیا پر ''لائیک‘‘ نہیں آتے۔ اس سے کوئی معاشی یا سیاسی فائدہ نہیں ہوتا۔ یہ موضوع ایسے لوگوں سے متعلق ہوتا ہے جن کے پیچھے کوئی لابی، کوئی بااثر سیاست دان، سیاسی پارٹی یا سرمایہ کار نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ اس طرح کے اہم ترین مسائل سے جڑے موضوعات کے بارے میں یہ فرض کیا جاتا ہے کہ ان کا وجود ہی نہیں، اور اگر ہے بھی تو یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں۔
گزشتہ سال یا گزشتہ سے اگلے برس میں نے پاکستان میں جیلوں کی مخدوش حالت اور قیدیوں کے نا گفتہ بہ حالات پر ایک کالم لکھا تھا‘ جس کے جواب میں ایک قیدی نے اپنے دوست کے توسط سے مجھے پیغام دیا کہ اس نے اپنے عرصہ قید میں یہ پہلا کالم پڑھا ہے، اور شکر گزار ہے۔ ظاہر ہے‘ اس دور میں جب لوگ سوشل میڈیا پر مقبولیت کی دوڑ میں مبتلا ہوں، قیدیوں کے حالات پر کون لکھے گا۔ ان لوگوں کی تو سوشل میڈیا پر وہ رسائی نہیں کہ آپ کی تعریفوں کے پل باندھ سکیں۔ یہی بات تشدد کے خلاف اس بل پر بھی صادق آتی ہے۔ یہ بل ملزمان، مجرمان یا ان کے عزیر و اقارب کے ساتھ پولیس کے سلوک کے بارے میں ہے۔ اس ''سلوک‘‘ سے مراد پولیس کا ملزمان پر تشدد، ان کے عزیز و اقارب کی بے جا گرفتاریاں اور ان سے معلومات کے حصول کے لیے ان پر تشدد یا ان کی نا جائز اور غیر قانونی حراست شامل ہے۔ اس میں خصوصاً ملزمان کی قرابت دار خواتین کی گرفتاری یا ملزمان کی تلاش و گرفتاری کے دوران ان سے بد سلوکی اور بسا اوقات بے حرمتی کے واقعات شامل ہیں۔ ظاہر ہے کہ پولیس کی ان کارروائیوں اور بد سلوکی کا شکار ہونے والے بے شمار لوگوں کا تعلق سماج کے کم خوش قسمت، غریب اور بے بس طبقات سے ہوتا ہے، اس لیے کوئی ان پر توجہ نہیں دیتا۔ ان کے حق کے لیے کالم اور اداریے نہیں لکھے جاتے۔ اینکر پرسنز کی ان میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔
پاکستان میں تھانوں اور عقوبت خانوں میں سرکاری اہلکاروں کی طرف سے تشدد کا وحشانہ عمل پاکستان کی تشکیل سے لے کر اب تک جاری ہے۔ اس کا آغاز حسن ناصر سے ہوا تھا۔ اس دوران چوہتر سالوں میں اس باب میں دنیا میں ناقابل یقین تبدیلیاں آئی۔ پوری دنیا اس بات پر تقریباً اتفاق کر چکی ہے کہ پولیس تشدد ایک وحشیانہ اور ظالمانہ عمل ہے، جس کی روک تھام کے لیے قانون سازی سمیت دیگر ضروری اقدامات ضروری ہیں۔ اس بات کا اعلان اقوم متحدہ نے چھبیس جون انیس سو ستاسی کو اپنے کنونشن میں کیا تھا، اور عالمی قانون کی حیثیت سے اس کو اپنے آرٹیکل میں شامل کیا تھا۔ دنیا کے بیشتر ممالک نے اس کنونشن کی روشنی میں اس حوالے سے قانون سازی کی‘ لیکن پاکستان میں کسی پارلیمنٹ نے اس کنونشن کی روشنی میں، جسے پاکستان عالمی برادری کے سامنے تسلیم کر چکا تھا، قانون سازی کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ مختلف پارلیمان کے دور میں پاکستان میں پولیس تشدد کے کئی ظالمانہ واقعات ہوئے۔ کئی لوگوں کی تھانوں اور عقوبت خانوں میں تشدد سے موت واقع ہوئی۔ یہاں تک کہ سیاسی کارکنوں کو سرکاری تحویل میں عقوبت خانوں میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اس شدت کے باوجود پارلیمان اپنے فرضِ منصبی پورا کرنے میں ناکام رہی۔ بالاخر یہ فریضہ موجودہ پارلیمان نے سرانجام دیا، اور سرکاری تحویل میں تشدد کے خلاف بل پاس کر دیا۔
یہ بل پی پی پی کی سینیٹر شیری رحمن نے پیش کیا‘ اور وزیرِ انسانی حقوق شیریں مزاری نے اس کی حمایت کی۔ بل کے چیدہ چیدہ نکات میں پہلا نکتہ یہ ہے کہ پاکستان میں تشدد میں ملوث کسی بھی سرکاری ملازم کو 10 سال تک قید اور 20 لاکھ روپے تک جرمانے کی سزا ہو سکتی ہے۔
اگر کوئی سرکاری ملازم، جس کا فرض تشدد کو روکنا ہے، وہ جان بوجھ کر یا غفلت سے اس کی روک تھام میں ناکام ہو جائے، تو اسے پانچ سال قید اور دس لاکھ روپے تک جرمانے کا سامنا کرنا پڑے گا۔
جو بھی شخص کسی شخص کی دورانِ حراست موت کا باعث بنتا ہے، دوران حراست جنسی تشدد کے جرم کا ارتکاب کرتا ہے، اس جرم کی سازش کرتا ہے، یا اس جرم کے ارتکاب میں کسی اور کی مدد کرتا ہے، اسے عمر قید اور جرمانے کی سزا ہو سکتی ہے، جس کی حد تین ملین روپے تک ہو سکتی ہے۔
اس کے علاوہ، اگر کوئی سرکاری ملازم، جس کا قانونی فرض حراست کے دوران اموات اور حراست کے دوران جنسی تشدد کی روک تھام کرنا ہے، وہ جان بوجھ کر یا غفلت کی وجہ سے ایسا کرنے میں ناکام ہو جاتا ہے، تو اسے کم از کم سات سال قید اور ایک ملین روپے تک جرمانے کی سزا دی جائے گی۔
بل کے مطابق، جرمانہ مقتول یا ان کے قانونی ورثا کو ادا کیا جائے گا۔ جرمانہ ادا کرنے میں ناکامی کی صورت میں سرکاری ملازم کو بالترتیب تین سال اور پانچ سال تک اضافی قید کا سامنا کرنا پڑے گا۔
پاکستان میں عموماً دیکھا گیا ہے کہ پولیس کسی ملزم کی گرفتاری میں ناکامی پر ملزم کے عزیر و اقارب کر گرفتار کر لیتی ہیں۔ یہ ایک غیر مہذب ہتھکنڈا ہے، جس پر پوری مہذب دنیا میں پابندی ہے۔ اس صورت حال کے تدارک کے لیے بل میں کہا گیا ہے کہ ''کسی بھی شخص کو جس پر کسی جرم کا الزام عائد کیا گیا ہے، اس شخص کا ٹھکانہ معلوم کرنے یا اس کے خلاف شہادت اور ثبوت حاصل کے لیے کسی اور شخص کو تحویل میں نہیں لیا جا سکتا ہے۔ اس طرح خواتین کے تحفظ اور پولیس کے ہاتھوں ان کی بے حرمتی کے واقعات کی روک تھام کے لیے بل میں واضح کیا گیا ہے کہ خواتین کو صرف ایک خاتون اہلکار کے ذریعے ہی تحویل میں لیا جا سکتا ہے۔
اس بل میں حراست کے دوران کسی شخص پر تشدد کی صورت میں شکایت درج کرنے کا طریقہ کار بھی بتایا گیا ہے۔ عدالت کو جب کسی شخص کی شکایت موصول ہو گی‘ وہ سب سے پہلے اس شخص کا بیان ریکارڈ کرے گی، اور ہدایت کرے گی کہ اس شخص کا طبی اور نفسیاتی معائنہ کیا جائے، جس کا نتیجہ 24 گھنٹوں میں عدالت میں پیش کرنا پڑے گا۔
اگر عدالت کو شواہد مل جائیں کہ تشدد ہوا ہے تو عدالت اس معاملے کو مزید کارروائی کے لیے سیشن کورٹ کے پاس بھیجے گی۔ سیشن عدالت تحقیقات کی ہدایت کرے گی اور15 دن میں رپورٹ پیش کرنے کا حکم دے گی۔ بل میں کہا گیا ہے کہ سیشن عدالت روزانہ کی بنیاد پر شکایت کی سماعت کرے گی اور 60 دن میں فیصلہ سنائے گی۔ بیان میں واضح کیا گیا ہے کہ تشدد کے ذریعے نکالا جانے والا بیان عدالت میں نا قابل قبول ہو گا۔ اس بل میں کچھ خامیاں ڈھونڈی جا سکتی ہیں‘ مگر بحیثیت مجموعی یہ ایک اچھا بل ہے۔ ریاست کا اصل امتحان اس بل پر عمل درآمد ہے۔ پولیس کی اس وقت جو حالت زار ہے، اور تشدد کا کلچر جس طرح پولیس میں عام ہے، اس کی موجودگی میں بل کا عملی نفاذ ایک بڑا چیلنج ہے۔ اگر اس بل پر پچاس فیصد بھی عمل کیا گیا تو اس سے سماج میں کرشماتی تبدیلیاں آ سکتی ہیں۔