آزاد کشمیر کے انتخابات اب آخری مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں۔ ہار جیت کی پیش گوئیاں جاری ہیں۔ ایک عام آدمی سے بات ہوئی، جس کی معلومات اس باب میں خیرہ کن ہیں۔ موصوف کو ہر حلقے کے ہر چھوٹے بڑے امیدوار کے نام، ان کے ذرائع آمدن، معاشی حیثیت، ماضی کی سیاسی وابستگیاں، یہاں تک کہ تین پشتوں تک ان کا شجرہ نسب تک یاد ہے۔ ان معلومات کی بنیاد پر ان صاحب کا تجزیہ اور نتائج کے بارے میں رائے دلچسپ اور اہم ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انتخابی مہم کے دوران جو پارٹیاں اور رہنما عوام میں بے حد مقبول ہیں، لازم نہیں کہ ان کے نامزد کردہ امیدوار ہی ووٹ لے کر اقتدار کی راہداریوں میں قدم رکھ سکیں۔ ماضی کے تجربات کا سبق یہی ہے۔ ان کے اس تجزیے پر قدرتی طور پر بے شمار سوال اٹھتے ہیں۔ کامن سینس تو یہی ہے کہ ووٹ تو انہی لوگوں کو ملنے چاہئیں جو عوام میں مقبول ہیں‘ آخر کار ووٹ تو عوام ہی دیتے ہیں‘ لیکن یہ کامن سینس اتنی کامن نہیں ہے۔ آزاد کشمیر کے انتخابات کے حوالے سے یہ کوئی پہلا سوال نہیں ہے۔ اس وقت تک آزاد کشمیر کے انتخابات میں کئی سولات اٹھائے گئے ہیں، جن کا جواب باقی ہے۔ ایک سوال یہ ہے کہ آزاد کشمیر میں ہمیشہ وہ پارٹی ہی کیوں جیتتی ہے، جو پاکستان میں حکومت وقت کی آزاد کشمیر شاخ ہوتی ہے، یا اسے ارباب اختیار کی حمایت حاصل ہوتی ہے۔ دانش ور حضرات اس سوال کا کوئی حتمی جواب دینے کے بجائے ایک دوسرے سے یہی سوال پوچھتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ نصرت جاوید جیسے سینئر ترین لکھاری نے بھی یہ بھاری پتھر اٹھانے کی کوشش کی اور چوم کر چھوڑ دیا۔ نصرت جاوید جیسے دانش ور نے اس سوال کے جواب کی ذمہ داری نوجوان صحافیوں پر ڈال دی، اور ان سے کہا کہ وہ اس کا کوئی واضح اور حتمی جواب تلاش کریں۔
بہت سارے نوجوان صحافی اس سوال کے جواب کے لیے آزاد کشمیر کے پہاڑوں اور وادیوں میں سر گرداں ہیں۔ اس سوال کے جواب کے لیے سیاسی جماعتوں کے مقبولیت کا گراف، امیدواروں کی ذاتی مقبولیت اور اثر و رسوخ کا جائزہ تو ضروری ہے ہی، مگر اس کے ساتھ ساتھ آزاد کشمیر کے لوگوں کی افتادِ طبع، کردار اور نفسیاتی ساخت کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے۔ سیانے لوگ کہتے ہیں کہ جو پارٹی اسلام آباد میں برسرِ اقتدار ہوتی ہے، اس کا مظفر آباد میں برسرِ اقتدار آنے کی دو وجوہات ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ آزاد کشمیر کے لوگ ایک خاص قسم کی پہاڑی دانش رکھتے ہیں۔ ان کا یہ احساس بہت گہرا ہے کہ ان کو لا محدود مسائل کا سامنا ہے۔ اس مسائل کے حل کے لیے وہی لوگ کچھ کر سکتے ہیں، جن کی پاکستان میں حکومت ہو۔ چونکہ کسی بھی بڑے اور قابل ذکر منصوبے کے لیے وسائل اور منظوری تو بہرحال اسلام آباد سے ہی آئے گی۔ اس طرح یہ دانش ور آزاد کشمیر کے لوگوں کو عملیت پسند قرار دیتے ہیں‘ جو زندگی کے عملی تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ کرتے ہیں۔ کچھ لوگ اس کیفیت کو دیکھ کر ان پر موقع پرستی کا الزام بھی دھر دیتے ہیں۔ دوسرا اس تاثر کی موجودگی بھی اہم ہے کہ یہاں حکومت اسی کی بنے گی، جس کی پاکستان میں حکومت ہے۔ یہ تاثر بھی رائے عامہ کو بڑے پیمانے پر متاثر کرتا ہے‘ لیکن اس خیال سے اختلاف رکھنے والوں کا خیال ہے کہ اگر یہ موقع پرستی اور عملیت پسندی کا سوال ہو تو پھر پاکستان کے صوبوں میں بھی وہی ہونا چاہیے۔ پاکستان میں کئی بار ایسا ہوا کہ مرکز میں ایک پارٹی کی حکومت قائم ہے، مگر صوبے میں دوسری پارٹی حکومت بنا لیتی ہے۔ ضمنی انتخابات میں بھی اکثر ایسا ہوتا رہا ہے کہ عوام نے مرکزی حکومت کے خلاف ووٹ دئیے۔ حال ہی میں پنجاب میں ہونے والے ضمنی انتخابات اس کی تازہ ترین مثال ہیں‘ لیکن ان معاملات سے تھوڑا آگے جا کر یہ سنجیدہ الزام بھی لگایا جاتا ہے کہ اسلام آباد میں برسر اقتدار حکومت اس کے وزرا، ہیئت مقتدرہ اور سرکاری اہل کار حکمران پارٹی کے حمایت یافتہ امیدواروں کی حمایت کرتے ہیں، جس سے ان لوگوں کا پلڑا بھاری ہو جاتا ہے۔ سرکاری وزن پڑنے سے ترازو ایک طرف ہی نہیں جھک جاتا، بلکہ یہ وزن طاقت کا توازن ہی بگاڑ دیتا ہے، اور انتخابی کھیل کے حوالے سے سب امیدواروں کے لیے میدان ایک جیسا اور ہموار نہیں رہتا، جو شفاف انتخابات کی پہلی شرط ہے۔ اس طرح کچھ امیدواروں کو ہموار اور کچھ کو نا ہموار میدان مہیا کرنا ایک طرح کی ''پری الیکشن دھاندلی‘‘ متصور ہوتی ہے۔ ان سب اعتراضات یا الزامات کی کوئی نہ کوئی جھلک ان انتخابات میں بھی نظر آ رہی ہے، لیکن بعض معاملات اس حد تک آگے بڑھے ہیں کہ جن کا متعلقہ حکام کو مجبوراً نوٹس لینا پڑا۔ اس کی ایک مثال وفاقی وزیر علی امین گنڈا پور کی ہے، جن کو آزاد کشمیر کی حدود سے نکلنے کا حکم دیا گیا۔ یہ حکم آزاد کشمیر کے خود مختار الیکشن کمیشن نے دیا۔ آزاد کشمیر کے الیکشن کمیشن نے اپنے حکم نامے میں واضح طور پر لکھا کہ وزیر موصوف الیکشن پر نا جائز طریقے سے اثر انداز ہونے کے لیے پیسے کا استعمال کر رہے تھے‘ اور دوسرا ان پر اشتعال انگیز تقاریر کا الزام لگایا گیا، جس کی وجہ سے آزاد کشمیر کا انتخابی ماحول خراب ہونے کا اندیشہ تھا؛ چنانچہ وزیر موصوف کو انتخابی ضابطوں کی سنگین خلاف ورزی کی وجہ سے آزاد کشمیر کی حدود سے نکلنے کا حکم جاری کیا گیا۔ ماضی میں اس طرح کے بے شمار واقعات ہوئے ہیں، جب وفاقی وزیر انتخابی عمل پر اثر انداز ہونے کے لیے اس سے ملتے جلتے ہتھکنڈے استعمال کرتے رہے ہیں۔ اب اگر اس طرح کے ہتھکنڈوں کی وجہ سے حکمرانوں کی حمایت یافتہ پارٹی انتخابات جیتتی رہی تو اسے آزاد کشمیر کے لوگوں کی عملیت پسندی یا موقع پرستی نہیں کہا جا سکتا۔ اگر آزاد کشمیر کے لوگ اس قدر عملیت پسند یا موقع پرست ہوتے تو آج ان کو ان نا گفتہ بہ حالات کا سامنا نہ ہوتا۔ آج حالت یہ ہے کہ یہاں روزگار کی امید ہی عبث ہے۔ ہر بچے کو ہائی سکول کرنے سے پہلے ہی یہ طے کرنا ہوتا ہے کہ اسے اپنے روزگار اور خاندان کی مالی اعانت کے لیے کس ملک میں ہجرت کرنی ہے۔ عالمی منڈی کے کس کونے میں جا کر اپنی محنت فروخت کرنی ہے‘ اور زندگی میں کب تک وطن سے دور ہجرت کا روگ سہنا ہے۔ روزگار کے نام پر یہاں محدود سرکاری ملازمتیں ہیں، جو 'اندھا بانٹے ریوڑیاں اور بار بار اپنوں کو دے‘ کے مصداق گنے چنے خاندانوں اور قبیلوں کے با اثر اور مراعات یافتہ طبقات میں بٹ جاتی ہیں۔ سڑکیں مکمل ہونے سے پہلے کھنڈرات بن جاتی ہیں۔ تعلیم اور صحت کی حالت مخدوش ہے۔ بیمار کو اپنے ہسپتالوں کے مختصر دیدار کے بعد گھنٹوں دشوار گزار راستوں پر سفر کر کے راولپنڈی یا کسی دوسرے شہر جانا پڑتا ہے، جہاں علاج معالجے کی جو سہولیات میسر ہیں، اور جس قیمت پر میسر ہیں، وہ سب کو علم ہے۔ آزاد کشمیر کا نوجوان اپنے حال پر پریشان اور مستقبل سے نا امید ہے۔ ان حالات میں ایک شفاف جمہوری عمل اور سچی عوامی جمہوریت ہی ہے، جو تاریک سرنگ کے آخری سرے پر روشنی کی ایک کرن ثابت ہو سکتی ہے۔ یہ کرن بھی اگر بجھ گئی توکیا ہو گا؟ یہ نوشتۂ دیوار ہے ۔ اگر کسی کو فرصت ہے تو پڑھ لے۔