آج کل اسرائیلی ساختہ جاسوس سافٹ ویئر عالمی دلچسپی کا سامان ہے۔ بھارت میں اس پر ایک ہنگامہ برپا ہے۔ پاکستان میں بھی اس سافٹ ویئر میں دلچسپی کا اظہار ہو رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جن لوگوں کی جاسوسی کے لیے یہ سافٹ ویئر استعمال کیا گیا، ان میں وزیر اعظم پاکستان کا نام بھی شامل ہیں۔ اس جاسوسی کا شکار ہونے والوں کی فہرست طویل ہے۔ دنیا بھر میں یہ تعداد پچاس ہزار سے بھی زیادہ بتائی جاتی ہے۔ اس سلسلے میں اب تک کی معلومات کے مطابق وزیر اعظم عمران خان کے علاوہ بھارت نے اس سافٹ ویئر کے ذریعے ایران، افغانستان، چین، نیپال اور سعودی عرب کے سفارت کاروں کی جاسوسی بھی کی ہے۔ یہ جاسوس سافٹ ویئر ایک اسرائیلی کمپنی نے بنایا ہے، جسے این ایس او گروپ کہا جاتا ہے۔ اس سافٹ ویئر کو خفیہ طریقے سے موبائل فون اور دوسری ڈیوائس پر لگایا جا سکتا ہے۔ یہ سافٹ ویئر جاسوسی کا ایک مؤثر آلہ ہے۔ یہ متعلقہ شخص کے فون کے علاوہ اس کے تمام ٹیکس پیغامات اور ای میلز پڑھ سکتا ہے اور یہ بھی بتا سکتا ہے کہ وہ شخص کمپیوٹر پر کیا کرتا ہے، اور انٹرنیٹ پر اس کی دلچسپی کا سامان کیا ہے۔ دوسرے لوگوں میں اس کی دلچسپی کس قسم کی ہے اور تعلقات کیا ہیں۔ اس سافٹ ویئر کے ذریعے یہ بھی معلوم کیا جا سکتا ہے کہ جاسوسی کا شکار شخص اس وقت کہاں ہے‘ اور فون پر کسی سے کیا گفتگو کر رہا ہے۔ اس طرح یہ کسی شخص پر نظر رکھنے کے اس وقت تک سامنے آنے والے طریقوں میں سب سے مؤثر طریقہ ہے۔ یہ سافٹ ویئر تیار کرتے وقت کمپنی کے پیش نظر شاید اس سافٹ ویئر کا مقصد مجرموں، سمگلروں اور سماج دشمن عناصر پر نظر رکھنا ہی ہو گا، لیکن جیسا کہ ہوتا ہے‘ آگے چل کر یہ سافٹ ویئر مختلف حکومتوں کے ہتھے چڑھ گیا، جنہوں نے اسے سیاسی مخالفین اور دوسرے ممالک کے سیاست کاروں اور سفارت کاروں کی جاسوسی کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا۔ اس سافٹ ویئر کے غلط استعمال کی پہلی پہلی خبریں سال دو ہزار سولہ میں سامنے آنا شروع ہوئی تھیں جب انسانی حقوق کے ایک عرب کارکن نے اپنے موبائل پر ایک مشکوک پیغام کے بارے میں ٹیکنالوجی ماہرین سے رابطہ کیا‘ لیکن اب اس بات کے شواہد سامنے آ رہے ہیں کہ اس سافٹ ویئر کا استعمال دراصل یہ خبریں آنے سے بہت پہلے شروع ہو چکا تھا۔ ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ اسرائیلی ساختہ جاسوسی کا یہ سافٹ ویئر سب سے پہلے عرب ملکوں میں شہریوں کی جاسوسی کے لیے استعمال کیا گیا۔ نیو یارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق متحدہ عرب امارات نے دو ہزار تیرہ میں ہی اس سافٹ ویئر کا استعمال شروع کر دیا تھا۔ اسرائیلی اخبار 'ٹائمز آف اسرائیل‘ نے بھی اس کی تصدیق کی ہے۔ ایک عرب حکومت پر بھی اپنے شہریوں کی جاسوسی کے لیے اس سافٹ ویئر کے استعمال کا الزام لگایا گیا۔ کچھ حلقوں کا اصرار ہے کہ واشنگٹن پوسٹ کے کالم نگار جمال خوشوگی کی جاسوسی اور قتل کے لیے اسی سافٹ ویئر کو استعمال کیا گیا تھا۔ بھارت کے بارے میں کچھ لوگوں کا دعویٰ ہے کہ اس نے چند برس قبل اسے استعمال کرنا شروع کیا تھا۔ دو ہزار انیس کے موسم خزاں میں ہافنگٹن پوسٹ میں چھپنے والے ایک کالم میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ بھارت نے وٹس ایپ پر گفتگو سننے کے لیے یہ سافٹ ویئر استعمال کیا ہے، اور اس کے ذریعے کئی سیاست کاروں، صحافیوں اور سرکاری اہل کاروں کی جاسوسی کی گئی ہے۔ بھارتی اخبار ''دی ہندو‘‘ کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق کئی حکومتی وزرا‘ حزبِ اختلاف کے رہنمائوں، اور صحافیوں کے نام اس ڈیٹا بیس میں پائے گئے ہیں جو جاسوسی کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ اس فہرست میں چالیس سے زائد جرنلسٹ اور وہ خاتون ملازمہ اور ان کے عزیز و اقارب شامل ہیں، جنہوں نے ایک جج پر جنسی حراسانی کا الزام عائد کیا تھا۔ پیرس کی ایک غیر سرکاری تنظیم ''ممنوعہ کہانیاں‘‘ اور ایمنسٹی انٹرنیشل کے مطابق دو ہزار سولہ سے لے کر اب تک پچاس ہزار سے زائد افراد کی فہرست سامنے آئی ہے، جو اس سافٹ ویئر کے ذریعے جاسوسی کا نشانہ بنے ہیں۔ ان میں گارڈین، واشنگٹن پوسٹ اور دی وائیر جیسے بڑے اخبارات کے ساتھ منسلک صحافی بھی شامل ہیں۔ اس وقت اس کہانی کو لے کر دنیا میں کئی بیانیے سامنے آ رہے ہیں۔ کچھ حقائق ہیں‘ کچھ افسانے ہیں۔ ظاہر ہے اس سلسلے میں بحث مباحثہ جاری ہے، اور جاری رہے گا، بالآخر ایک دن ہمیشہ کی سچ منظر عام پر آئے گا‘ لیکن اس سارے عمل سے ایک تشویشناک صورت حال سامنے آتی ہے، جس سے اس خدشے کی تصدیق ہوتی ہے کہ دنیا میں جدید ٹیکنالوجی کو جمہوریت اور انسانی حقوق کے حق میں بہت کم اور ان کے خلاف زیادہ استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس غلط استعمال کے مختلف پہلو ہیں، جن میں سے ہر پہلو اور رنگ بڑی تفصیلی گفتگو کا متقاضی ہے۔ ان میں سے ایک تشویشناک پہلو ڈیجیٹل جبر ہے۔ مطلق العنان حکومتیں دنیا بھر میں انسانی حقوق کی کارکنوں کو دبانے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کر رہی ہیں۔ اس ٹیکنالوجی کے ذریعے ان کے جبر کی قوت بڑھ گئی ہے۔ وہ اس ٹیکنالوجی کو سینسرشپ کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔ لوگوں کی آن لائن سرگرمیوں پر نظر رکھ رہی ہیں۔ عام لوگوں تک اطلاعات کی رسائی کے راستے میں اس ٹیکنالوجی کے ذریعے رکاوٹ بنتی ہیں۔ اس طرح مطلق العنانیت کو یہ ٹیکنالوجی طاقت فراہم کرتی ہے۔ اس کی ایک بڑی مثال ایک تیزی سے ترقی پذیر ملک ہے، جہاں لوگوں پر نگاہ رکھنے، اور سوشل مانیٹرنگ کا ایک جدید نظام قائم ہے، جس کے پیچھے جدید ٹیکنالوجی ہے۔ چین کا اپنے شہریوں پر نظر رکھنے کا یہ نظام بڑا دلچسپ اور تشویشناک ہے، لیکن یہ موضوع ایک علیحدہ کالم کا متقاضی ہے، اور شاید اگلے کسی کالم میں اس کا گہرائی تک جائزہ لیا جائے گا‘ لیکن اس وقت اس حوالے سے بھارت سمیت کئی ممالک زیر بحث ہیں، جنہوں نے اپنے شہریوں پر نظر رکھنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا ہے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ کئی ممالک سکیورٹی کے نام پر جدید ٹیکنالوجی کے بے دریغ استعمال سے انسانی اور جمہوری حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ یہ اقدامات کچھ ملکوں میں دہشت گردی کے خلاف جنگ، اور کچھ ملکوں میں ملکی سلامتی کے نام پر ہو رہے ہیں۔ اس طرح ان ممالک کو ملکی سلامتی و سالمیت کے نام پر نئی ٹیکنالوجی کے بے دریغ استعمال کرنے کا اختیار مل جاتا ہے۔ اس سلسلے میں امریکہ، فرانس اور انگلستان میں بھی نئے بل پاس ہوئے ہیں، جن میں حکومتوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو لوگوں پر نگاہ رکھنے کے لیے ایسی سرگرمیوں کی اجازت دی گئی ہے، جن کا پہلے تصور بھی کرنا ناممکن تھا۔ اس طرح سائبر سپیس پر پرائیویسی اور انسانی حقوق کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے مختلف خفیہ اداروں کو شہریوں کی ذاتی معلومات اور نجی سپیس تک رسائی دے دی گئی ہے۔
اس ماحول میں دنیا میں جمہوریت پسندوں اور انسانی حقوق کے علم برداروں کے لیے سب سے بڑا چیلنج حکومتی اختیارات اور شہریوں کے جمہوری اور انسانی حقوق کے درمیان توازن پیدا کرنا ہے‘ اور اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کو دنیا میں جمہوریت کُش اقدامات اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے لیے نہیں استعمال کیا جاتا‘ اور اس امر کو یقینی بنانے کے لیے جدو جہد کرنی ہے کہ دنیا میں مطلق العنانیت کی طرف مائل حکمران جدید ٹیکنالوجی کو اپنے اقتدار کو طوالت بخشنے اور عوام پر جبر روا رکھنے کے لیے استعمال نہ کر سکیں۔