"FBC" (space) message & send to 7575

ایک تلخ حقیقت

وزیر اعظم عمران خان نے بالآخر چار ماہ بعد اپنی بات کی وضاحت کر دی۔ کہانی کا آغاز اس سال اپریل میں ہوا۔ پاکستانی عوام سے براہ راست ٹیلی فون کالز کے دوران وزیر اعظم نے جنسی جرائم کی وجوہات کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ پاکستان میں ''ریپ‘‘ کے واقعات میں اضافے کی وجہ فحاشی اور عریانی میں اضافہ ہے۔ ان کے اس بیان کے خلاف پاکستان کی سول سوسائٹی میں خاصا بڑا رد عمل سامنے آیا۔ ہر ذی شعور شخص نے اپنے علم‘ تجربے اور نظریات کے مطابق اس پر رد عمل دیا۔ لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد کا خیال تھا کہ وزیر اعظم کے اس بیان کا مطلب جنسی جرائم کا شکار ہونے والی عورتوں کے لباس یا طرزِ زندگی کو جنسی جرائم کا ذمہ دار ٹھہرانا ہے۔ وزیر اعظم، ان کے وزرا یا کسی ترجمان کی طرف سے اس بیان کی اس طرح تردید، تصحیح یا وضاحت نہیں کی گئی، جس طرح اس کی ضرورت تھی۔
اس واقعے کے کوئی دو ماہ بعد وزیر اعظم نے ایک مغربی صحافی جوناتھن سوان کو انٹرویو دیا۔ ایچ بی او کے اس سینئر صحافی نے وزیر اعظم کے اپریل کے بیان کے تناظر میں یہ سوال کیا کہ کیا خواتین کا لباس مردوں کو ریپ کی ترغیب دیتا ہے۔ حیرت انگیز طور پر وزیر اعظم نے اس واضح سوال کا جواب واضح اور دو ٹوک انداز میں اثبات میں دیا۔ انہوں نے کہا: اگر خواتین کم کپڑے پہنیں گی تو اس کا اثر مردوں پر تو ہو گا، اگر وہ روبوٹ نہ ہوئے تو۔ یہ جواب بیشتر ناظرین اور خصوصاً پڑھے لکھے لوگوں اور خواتین کے لیے ''شاکنگ‘‘ تھا۔ ان میں خود تحریک انصاف کے خواتین بھی شامل تھیں، جو مغرب میں آباد ہیں، اور اس قسم کے بیان کے مطلب اور اہمیت سے کماحقہ آگاہ ہیں۔
مغرب میں بھی گاہے اس طرح کا بیان منظر عام پر آتا ہے، لیکن یہاں مغرب میں ایسا بیان دینے والے کو غیر حساس، ان پڑھ، غیر مہذب اور جنس پرست جیسے القابات سے نوازا جاتا ہے‘ اور اس طرح کے بیان کے خلاف سول سوسائٹی میں اتنا شدید رد عمل ہوتا ہے کہ بیان دینے والے کو اکثر اپنا بیان واپس لینا پڑتا ہے، اور معافی مانگنا پڑتی ہے۔ بہرکیف جوناتھن سوان کے ساتھ اس متنازعہ انٹرویو کے تقریباً دو ماہ بعد ایک امریکی خاتون کے ساتھ تازہ ترین انٹرویو میں عمران خان نے اپنے بیان سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا۔ ایسا انہوں نے امریکی نشریاتی ادارے پی بی ایس سے بات کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر اپنے اپریل اور جون والے بیان کی وضاحت کرتے ہوئے وزیر اعظم نے واشگاف الفاظ میں فرمایا کہ ریپ سے متاثرہ خاتون پر اس کی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی، بلکہ صرف اس جرم کا ارتکاب کرنے والا ہی ریپ کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان کے سابقہ بیان کو جان بوجھ کر سیاق و سباق سے کاٹ کر پیش کیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ میں کبھی ایسی بے وقوفانہ بات نہیں کروں گا کہ ریپ کا نشانہ بننے والی اس کی ذمہ دار ہے بلکہ ریپ کرنے والا ہی ذمہ دار ہوتا ہے۔ اس انٹرویو میں وزیر اعظم نے کہا کہ میں یہ واضح کرتا چلوں کہ چاہے خاتون نے جیسا بھی لباس پہنا ہو، یا وہ جتنی بھی ترغیب دینے والا ہو، وہی شخص اس کا ذمہ دار ہوتا ہے، جو یہ فعل کرتا ہے، کبھی بھی متاثرہ خاتون اس کی ذمہ دار نہیں ہو سکتی۔
امریکی چینل کے ساتھ اس انٹرویو میں جناب وزیر اعظم کی یہ وضاحت انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ یہ بات بہت سارے لوگوں کے لیے باعث ''ریلیف‘‘ ہے۔ اس سے نہ صرف تاریخی ریکارڈ درست ہوتا ہے، بلکہ ان کے سابقہ بیان سے سماج کے عام لوگوں کو جو غلط پیغام گیا تھا، یا اس سے ملک کی نوجوان نسل کی سوچوں پر جو منفی اثر پڑ سکتا تھا، اس کا کچھ ازالہ ہو سکتا ہے۔ اس بیان سے ظاہر ہے وزیر اعظم کے ان خیر خواہوں کو مایوسی بھی ہوئی ہے، جو ریپ اور جنسی تشدد کا ذمہ دار فحاشی، عریانی یا عورتوں کے لباس، چال چلن اور طرز زندگی کو قرار دیتے ہیں۔ یہ لوگ نہ صرف خود اس رجعت پسندانہ خیال پر یقین رکھتے ہیں، بلکہ دوسروں پر اس خیال کو مسلط کرنے کے لیے اس کا مسلسل پرچار بھی کرتے رہتے ہیں۔ یہ لوگ اس طرح کے رجعتی اور حقائق سے متصادم خیالات کی آڑ میں عورتوں کے لباس اور طرز زندگی پر طرح طرح کی پابندیاں لگانے کے لیے بے تاب رہتے ہیں۔ دراصل اس طرح کے خیالات کی آڑ میں یہ لوگ عورتوں کی سماجی و معاشی آزادیوں اور بنیادی انسانی حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کے خواب دیکھتے رہتے ہیں۔
ان حالات میں یہ قابل تعریف بات ہے کہ جناب وزیر اعظم نے اس اہم معاملے کی وضاحت کر دی۔ یہ ان کا بڑا پن ہے‘ لیکن اسی انٹرویو کے دوران انہوں نے ایک ایسی نئی متنازعہ بات چھیڑ دی، جو نتائج کے اعتبار سے اتنی ہی خطرناک اور گمراہ کن ہو سکتی ہے، جتنی پہلی والی بات تھی۔ انہوں نے کہا: میں پوری دنیا میں گھوم چکا ہوں‘ اور میرے خیال میں مغرب کی نسبت پاکستان میں اور دیگر مسلم ممالک میں خواتین کے ساتھ بہت عزت و وقار کے ساتھ پیش آیا جاتا ہے۔ مغرب سے موازنہ کیا جائے، تو ہمارے ہاں ریپ کے کیسز بہت کم ہیں۔ ہمارے ہاں ثقافتی مسائل ہیں، ہر ملک میں ہوتے ہیں؛ تاہم ان پر ثقافتی ارتقا اور تعلیم کے ذریعے قابو پایا جا سکتا ہے، لیکن میں آپ کو یہ بتا سکتا ہوں کہ ہمارا معاشرہ خواتین سے دیگر معاشروں کے مقابلے میں بہتر سلوک کرتا ہے۔
ان کا یہ نیا بیانیہ اس وقت سامنے لائے، جب پاکستان میں آئے روز خواتین کو لے کر سنگین جرائم کا ارتکاب ہو رہا ہے۔ جس وقت یہ بیان دیا گیا‘ اس سے کچھ دن پہلے راولپنڈی اور اسلام آباد میں خواتین کے قتل، جنسی تشدد کے ناقابل بیان واقعات ہوئے تھے، جیسے عام طور پر صرف انتہائی ڈرائونی فلموں میں ہی دکھائی دیتے ہیں۔ دوسری طرف یہاں کا ماحول یہ ہے کہ ان جرائم پر تبصرہ کرتے ہوئے کچھ لکھاریوں نے اشاروں کنایوں میں وہی بیانیہ دہرایا ہے، جو ایسے جرائم کا الزام ملزم کے بجائے جرم کا شکار عورتوں کو دیتا ہے اور ان جرائم کی غیر مشروط مذمت کے بجائے بعض اخبارات کی تحریروں میں حسب سابق عورتوں کے رہن سہن، طرز زندگی، اور اخلاقیات کی بحث چھیڑی گئی‘ اور درندگی کے مرتکب مردوں کو سخت سزا کے مطالبے کے بجائے خواتین کے لباس، طرز زندگی، عفت اور عصمت کی حفاظت پر طویل لیکچرز دیے گئے ہیں۔
یہ ایک افسوسناک صورت حال ہے۔ ایسی صورتحال میں کسی حکمران کی طرف سے‘ جو عوام میں مقبول بھی ہو‘ اس طرح کے بیانات صورتحال میں بگاڑ کا موجب بن سکتے ہیں۔ جہاں تک وزیر اعظم کے اس بیان کا تعلق ہے کہ پاکستان میں عورتوں کی صورتحال بہتر ہے تو اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ غیر جانب دارانہ اور معتبر عالمی رپورٹوں کے مطابق پاکستان کو عورتوں کے لیے خطرناک ترین ممالک میں شمار کیا جاتا ہے۔ ان رپورٹوں کو دشمن کی سازش قرار دے کر نظر انداز کیا جا سکتا ہے، مگر ان کہانیوں کا کیا کریں‘ جو پاکستان کی ہر وہ عورت آپ کو سنانے کے لیے تیار ہے، جسے بہ امر مجبوری گھر سے باہر قدم رکھنا پڑتا ہے۔ پاکستان میں تلاشِ معاش یا دیگر ناگزیر ضروریات کے لیے جن خواتین کو گھر سے نکلنا پڑتا ہے، ان کو گاڑیوں، دفتروں، فیکٹریوں اور عوامی مقامات پر جن نظروں، رویوں، اور حرکات و سکنات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ان کا ذمہ دار ظاہر ہے کسی دشمن ملک کو نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ یہ ہمارے سماج کی ایک بدصورت حقیقت ہے۔ اس حقیقت کو تسلیم کیے بغیر تبدیلی ممکن نہیں ہے!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں