یہ مزدوروں سے متعلق ایک فورم ہے۔ ایشیائی ممالک کا یہ رضاکارانہ فورم 2008 ء میں قائم کیا گیا تھا۔ اس کا صدردفتر ابو ظہبی میں ہے۔ اس فورم میں دو قسم کے ممالک شامل ہیں‘ ایک وہ جہاں سے مزدور دوسرے ممالک میں محنت مزدوری کی تلاش میں جاتے ہیں اور دوسرے وہ ممالک جن میں جا کر یہ لوگ محنت مزدوری کرتے ہیں۔ یہ فورم 12 رکن ممالک پر مشتمل ہے یعنی پاکستان‘ افغانستان ‘ بنگلہ دیش ‘ چین ‘ انڈیا ‘ انڈونیشیا ‘ نیپال ‘ فلپائن ‘ سری لنکا ‘ تھائی لینڈ اور ویت نام۔ یہ وہ ممالک ہیں جہاں سے محنت کش لوگ کام کاج کی تلاش میں ہجرت کرتے ہیں۔ زیادہ معاوضے اور بہتر مستقبل کی تلاش میں ان کی پہلی منزل بحرین ‘ کویت ‘ عمان ‘ قطر ‘ سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات اور ملائیشیا جیسے ممالک ہوتے ہیں۔ اس فورم کے باقاعدہ مبصرین میں انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن اور انٹر نیشنل لیبر آرگنائزیشن جیسی عالمی تنظیمیں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ غیر سرکاری تنظیمیں اور سول سوسائٹی کے نمائندے بھی اس فورم میں شامل ہو سکتے ہیں۔ اس فورم کا مستقل سیکرٹریٹ متحدہ عرب امارات میں ہے۔ اس فورم یا ادارے کا بنیادی مقصد دنیا کے مزدوروں کی سب سے بڑی عارضی ہجرت کی راہ داریوں میں مزدوروں کی ہجرت کو منظم کرنا ‘ روزگار کی خاطر ہجرت پر مجبور مزدوروں سے متعلق مختلف منصوبوں پر عملدرآمد کرنا اور ان محنت کشوں سے جڑے مشترکہ مسائل کا کثیر الجہتی مکالمے اور تعاون کے ذریعے حل تلاش کرنا نیز اس بات کو یقینی بنانے میں مدد کرنا ہے کہ فورم کے رکن ممالک اس سلسلے میں بہترین طریقوں کو اپنانے کے لیے آپس میں شراکت داری سے کام کریں اور ایک دوسرے کے تجربے سے سیکھنے کی کوشش کریں۔ اس فورم میں سول سوسائٹی کو بھی دعوت دی گئی ہے کہ وہ مکالمے میں حصہ ڈالیں اورمختلف منصوبوں کی تکمیل میں شرکت کریں۔
پچھلی ڈھائی دہائیوں کے دوران ایشیا میں مذکورہ بالا چھ خلیجی ممالک اور ملائیشیا کا ان عارضی تارکین وطن مزدوروں پر بڑے پیمانے پر انحصار کا رجحان سامنے آیا ہے۔ خلیجی ممالک دنیامیں سب سے زیادہ غیر ملکی کارکنوں کی منزل ہیں۔ ان ممالک میں باہر سے آئے ہوئے مزدوروں کا تناسب 30 سے 90 فیصد کے درمیان ہے۔ اس کے نتیجے میں خلیج کی معیشتوں میں ایشیائی نژاد مزدور انتہائی اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔ ان لوگوں نے اپنی صلاحیتوں ‘ علم اور محنت کے ذریعے گزشتہ 25 سالوں کے دوران تیل پیدا کرنے والی خلیجی ریاستوں میں ہونے والی تیز رفتار ترقی میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ ان عوامل کے نتیجے میں ان خلیجی ممالک میں مزدوروں کی نقل مکانی دنیا کے بہت سے دوسرے حصوں کی نسبت زیادہ ہے۔ ان ممالک میں یہ وسیع اتفاقِ رائے پایا جاتا ہے کہ تارکینِ وطن مزدور میزبان ممالک کی معاشی ترقی میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔
دوسری طرف ان محنت کشوں کی عارضی کارکنوں کے طور پر گلف کی ریاستوں میں ہجرت بھی ان محنت کشوں کے اپنے ممالک کی سماجی و اقتصادی ترقی پربہت گہرا مثبت اثر ڈالتی ہے۔ ورلڈ بینک کے 2014 ء کے اعداد و شمار کے مطابق ان محنت کشوں اور تجارت پیشہ لوگوں نے خلیجی ریاستوں سے تقریباً 98 بلین ڈالر کی رقوم واپس اپنے گھروں کوارسال کیں‘ جو دنیا بھر میں زر مبادلہ کی ترسیلات کا چھٹا حصہ ہے۔ خلیجی منڈیوں میں تارکین وطن مزدوروں کی جانب سے ترسیلات زر غیر ملکی آمدنی کے ایک اہم ذریعہ کی نمائندگی کرتی ہیں۔ مزید برآں مزدور اور تاجر لوگ معقول سرمائے کے ساتھ گھر لوٹتے ہیں۔ سرمائے کے علاوہ ان کے پاس مہارت‘ علم ‘ نیٹ ورک اور کاروباری خیالات بھی ہوتے ہیں۔
ابوظہبی ڈائیلاگ کے تین اہم مقاصد ہیں: سب سے پہلا مقصد مہاجر مزدوروں کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے۔ دوسرا بڑا مقصد کارکنوں کو اپنے اہداف کو پورا کرنے کے لیے بااختیار بنانے میں مدد فراہم کرنا ہے اورمزدوروں کو عارضی مزدوری کے حاصلات سے یکساں طور پر فائدہ اٹھانے کا موقع فراہم کرنا ہے۔ ان ممالک میں محنت کشوں کے رہائشی قوانین کا اپنا ایک ماڈل ہے جو دنیا کے بیشتر ممالک سے یکسر مختلف ہے۔ اس فورم کے رکن ممالک اور دنیا کے بہت سے دوسرے حصوں میں نافذ عارضی مزدوروں کے ماڈل کے درمیان اہم فرق یہ ہے کہ میزبان ممالک تارکین وطن کو مستقل رہائشی حقوق نہیں دیتے۔ اس کے بجائے تارکین وطن کے رہائشی حقوق ان کے روزگار پر منحصر ہیں۔ اگر ان کے پاس روزگار ہے تو وہ ان ممالک میں قانونی طور پر رہ سکتے ہیں یعنی رہائش کا حق روزگار کے ساتھ منسلک ہے‘ جس کے لیے عام طور پر ورک ویزا یا ورک پرمٹ اور اقامہ وغیرہ جیسی اصطلاحات استعمال کی جاتی ہیں۔عارضی لیبر ہجرت کا یہ ماڈل مستقل ہجرت کے مقابلے میں میزبان اور مہمان دونوں ممالک کو کئی اہم فوائد دیتا ہے۔ اس نظام کا میزبان ممالک کو یہ فائدہ ہے کہ وہ اپنی لیبر مارکیٹوں میں تبدیلیوں کو سنبھالنے کے قابل ہوتے ہیں۔ معاشی نمو میں اتار چڑھاؤ اور مندی دونوں کا تیزی سے جواب دے سکتے ہیں۔ ضرورت پڑتی ہے تو باہر سے لیبر منگوا سکتے ہیں۔ معاشی بحران آئے تو لیبر کو نکال سکتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ غریب ممالک سے خلیجی ممالک میں جانے والے محنت کشوں کے لیے بہتر معاوضے اور بہتر مواقع ہوتے ہیں لیکن دنیا کے ترقی یافتہ جمہوری ممالک کے مقابلے میں دیکھا جائے تو ان کی صورت حال کو کسی بھی پیمانے سے تسلی بخش یا خوش گوار نہیں کہا جا سکتا۔ مغرب کے بیشتر ممالک میں کام کاج کی غرض سے آنے والے لوگوں کو ورک پرمٹ ملتا ہے لیکن ایک مخصوص عرصے تک ان ممالک میں محنت مزدوری کرنے کے بعد ان لوگوں کو یہاں مستقل رہائش اختیار کرنے اور شہری حقوق حاصل کرنے کا حق ہوتا ہے جبکہ بیشتر خلیجی ممالک میں زندگی بھر محنت مزدوری کے باوجود یہ لوگ مستقل رہائش اور شہریت کے حق سے محروم ہوتے ہیں۔ شہری حقوق سے محرومی کے علاوہ یہ لوگ بنیادی انسانی حقوق اور محنت کشوں کے عالمی سطح پر تسلیم شدہ حقوق سے بھی محروم ہوتے ہیں۔ اگرچہ مزدوروں کے حقوق اور ان کے زندگی کے مسائل کے حوالے سے دیکھا جائے تو وہ لوگ پوری طرح سے اپنے ممالک میں بھی ان انسانی حقوق اور معاشی حقوق کو حاصل نہیں کر پاتے۔ یہ ایک طبقاتی سوال ہے‘ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم اور معاشی نا انصافی پر مبنی نظام ان لوگوں کو اپنے حقوق سے محروم رکھتا ہے۔ یہ لوگ ظاہر ہے اپنے حکمران طبقات کی رضاکارانہ معاونت سے وہ معاشی و سماجی حقوق تو حاصل نہیں کر سکتے اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ محنت کشوں کو ان کے اپنے ملکوں میں بھی اور ان ملکوں میں جہاں روزگارکے لیے جاتے ہیں معاشی انصاف پر مبنی پالیسیوں اور قوانیں کا تحفظ ہو ‘ جو اس طبقے کو طبقاتی لوٹ کھسوٹ اور معاشی نا انصافیوں سے بچا سکے۔
پاکستان میں حکمران اشرافیہ نے اس فورم کی سربراہی پر مسرت کا اظہار کیا ہے مگر یہ سربراہی تب کارآمد ثابت ہو سکتی ہے جب ان تارکین وطن محنت کشوں کو درپیش گمبھیرمسائل کا ادراک ہواوراس کے حل کے لیے عالمی طور پر تسلیم شدہ منصفانہ قوانین کے اطلاق کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ اس سے بھی زیادہ اس امر پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ محنت کش کو گھر کے قریب روزگار کے مواقع میسر ہوں تاکہ وہ روزگار کے لیے دربدر کی ٹھوکروں سے بچ سکیں۔