افغانستان کے حوالے سے تازہ ترین صورتحال آپ کے سامنے ہے۔ افغان حکومت سرنڈر کر چکی ہے اور صدر اشرف غنی اپنی ٹیم کے ہمراہ ملک چھوڑ کر جا چکے ہیں۔ لیکن افغانستان کی طرف آنے سے پہلے امریکہ اور پاکستان کی بات کرتے ہیں۔
جو بائیڈن مصروف آدمی ہیں۔ ان کے بوڑھے کندھوں پر دنیا کی طاقتور ترین ایمپائر کا بوجھ ہے۔ صرف ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے مسائل ہی نہیں دنیا کا ہر بڑا مسئلہ ان کی توجہ کا طالب ہوتا ہے۔ خواہ دنیا میں جنگ و امن کا سوال ہو، ماحولیاتی تبدیلی اور تباہی کا مسئلہ ہو، اور دنیا کے بڑے معاشی و سیاسی فیصلے ہوں، جو بائیڈن کو ان مسائل کے بارے میں جاننا پڑتا ہے، اور ان مسائل کے بارے میں فیصلے کرنے ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے دنیا کے ہر بڑے مسئلے کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ کرنے سے پہلے ان مسئلے پر بہت بڑا ''ہوم ورک‘‘کرنا پڑتا ہے۔ تحقیق و تفتیش ہوتی ہے۔ دستاویزات اور رپورٹس تیار ہوتی ہیں۔ کمیٹیاں اور کمیشن بنتے ہیں۔ مذاکرات اور گفت و شنید کے دور چلتے ہیں۔ یہ سارا کام پس منظر میں ہوتا ہے، جس میں وائٹ ہاوس کی مداخلت ضروری نہیں۔ اس گرائونڈ ورک یا ہوم ورک کی ذمہ داری متعلقہ محکموں کے نمائندوں اور اہل کاروں کی ہوتی ہے‘ اور ایک طویل ''پراسیس‘‘ کے بعد جب کسی مسئلے پر حتمی فیصلے کا وقت آتا ہے تو امریکی صدر اور اس کے مشیروں، مدد گاروں اور معاونوں کو ملوث ہونا پڑتا ہے۔ اس طرح ایک مرحلہ آتا ہے، جس پر دنیا کا ہر بڑا اور اہم ترین مسئلہ امریکی صدر کی توجہ کا متقاضی ہوتا ہے۔ گویا امریکی صدر نے دوران صدارت وقت کے خلاف دوڑ لگائی ہوتی ہے۔ دنیا میں ہزاروں لوگ ان کی توجہ چاہتے ہیں۔ ان میں سیاست دان، سفارت کار، ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سمیت زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے نمایاں افراد شامل ہوتے ہیں۔ کئی سربراہ مملکت امریکی صدر سے ملاقات کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ ان میں سے کس کی خواہش کبھی پوری نہیں ہوتی‘ جبکہ کچھ کو انتظار کرنا پڑتا ہے۔ صدر بائیڈن کو مسند اقتدار پر فائز ہوئے چھ ماہ گزر چکے ہیں۔ ان چھ ماہ میں وہ کئی ایک سربراہانِ مملکت سے نہیں مل سکے یا ان سے بذریعہ فون بات نہیں کر سکے، جن کی عام حالات میں توقع کی جاتی ہے۔ ان ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے۔
گزشتہ چھ ماہ سے جو بائیڈن کو جو سب سے بڑا مسئلہ در پیش ہے، وہ افغانستان ہے‘ جس کی تازہ صورتحال سے مین نے ابھی آپ کو آگاہ کیا۔ اس مسئلے کی اہمیت کو ایک دو کالموں میں نہیں بیان کیا جا سکتا۔ اس کے لیے کئی ضخیم کتب کی ضرورت ہے۔ اس مسئلے کا با عزت حل امریکہ کے لیے بہت ضروری ہے۔ اس کئی وجوہات ہیں، جن میں دو بہت نمایاں ہیں۔ ایک تو یہ کہ امریکہ کی خواہش کے مطابق اس مسئلے کا حل تاریخ میں امریکی ایمپائر کے مقام کا تعین کرے گا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ امریکہ کے حق میں اس مسئلے کے حل سے یہ طے ہو گا کہ مستقبل کی سیاست میں امریکہ کا کیا مقام ہے‘ اور کیا بطور سپر پاور امریکہ دنیا میں اپنی بالا دستی اور فوجی برتری قائم رکھ سکتا ہے یا نہیں۔ افغانستان کے مسئلے کی اس اہمیت کے پیش نظر پاکستان شاید امریکہ کے لیے اہم ترین ملک ہے۔ اس کی وجہ پاکستان کی جغرافیائی قربت ہی نہیں، سیاسی و مذہبی اثر و رسوخ بھی ہے، جو وہ افغانستان کے کچھ ''سٹیک ہولڈرز‘‘ پر مبینہ طور پر رکھتا ہے۔ اس تناظر میں امریکہ کے لیے پاکستان نہ تو کوئی عام ملک ہے، اور نہ ہی وزیر اعظم عمران خان دنیا کے دوسرے وزرائے اعظموں کی طرح کوئی عام وزیر اعظم ہیں۔ اس تناظر میں امریکی صدر کا چھ ماہ کا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود وزیر اعظم سے ملاقات نہ کرنا‘ حتیٰ کہ فون پر رسمی گفتگو سے گریز کرنا کوئی ایسا عمل نہیں، جس کو نظر انداز کیا جا سکتا ہو، یا اس نظر انداز کرنے کا سبب جو بائیڈن کی معمول کی مصروفیات کو قرار دیا جا سکتا ہو۔ کوئی سنجیدہ تجزیہ کار یہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہے کہ اس کی وجہ معمول کی مصروفیات ہیں، بلکہ اکثر تجزیہ کاروں کا اس بات پر اصرار ہے کہ یہ جو بائیڈن کا سوچا سمجھا اور طے شدہ عمل ہے۔ پاکستان میں بھی عام طور پر اس بات پر اتفاق رائے موجود رہا ہے۔ 'دیر آید درست آید‘ کے مصداق اب حکومت بھی ان لوگوں میں شامل ہو گئی ہے، جن کا خیال ہے کہ پاکستان کو نظر انداز کرنا ایک سوچی سمجھی امریکی پالیسی کا حصہ ہے۔
پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر نے حال ہی میں اس تلخ حقیقت کو تسلیم کیا ہے۔ فنانشل ٹائمز کے ساتھ اپنے انٹرویو میں وہ بالآخر حرف شکایت زبان پر لانے پر مجبور ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ امریکی صدر نے اتنے اہم ملک کے وزیر اعظم کے ساتھ بات نہیں کی، جو اس معاملے میں خود بقول امریکہ فیصلہ کن کردار ادا کر سکتا ہے۔ اگرچہ امریکی اہل کاروں نے یہ واضح کیا ہے کہ اگر امریکی صدر نے آج تک وزیر اعظم سے بات نہیں کی تو اس کا مطلب لازمی طور پر یہ نہیں ہے کہ امریکہ پاکستان تعلقات خراب ہیں۔ ان وضاحتوں کو کوئی ذی شعور تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ افغانستان کے مسئلے پر امریکہ پاکستان تعلقات کی تاریخ کافی طویل ہے‘ اور دونوں کے تعلقات میں اس نئے موڑ کو سمجھنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ جارج ڈبلیو بش کوئی پاکستان کا ''فین‘‘ نہیں تھا‘ لیکن افغانستان کے تناظر میں وہ پاکستان کی اہمیت سے کماحقہ آگاہ تھا۔ اس اہمیت کے پیش نظر قابل ذکر مخالفت کے باوجود اس نے دو ہزار چار میں پاکستان کو باقاعدہ اتحادی اور نیٹو سے باہر ایک شراکت دار ملک قرار دیا تھا۔ اس اتحاد کے دوران پاکستان کی مالی مدد بھی ہوتی رہی‘ لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں تعلقات نے ایک نیا موڑ لیا۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے اس مد میں بلین ڈالر خرچ کرنے اور اس کا کوئی مفید نتیجہ نہ نکلنے کا شکوہ کیا۔ دسمبر دو ہزار سترہ میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کی دو ارب ڈالر کی امداد بند کر دی۔ ٹرمپ کہنا تھا کہ گزشتہ پندرہ سالوں میں امریکہ پاکستان کو تیتیس ارب ڈالر سے زائد مدد دے چکا ہے‘ اور جواب میں ہمیں کیا ملا؟ ٹرمپ نے صرف پاکستان ہی نہیں، بلکہ کئی دوسرے ممالک کے ساتھ بھی تعلقات میں دراڑیں ڈال دی تھیں‘ مگر جو بائیڈن نے آتے ہی ٹوٹی ہوئی باڑیں مرمت کرنے اور دراڑیں بھرنے کے لیے تیز رفتار اقدامات کیے‘ لیکن پاکستان کے باب میں انہوں نے ایسا کرنے سے گریز کی پالیسی اختیار کی۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ آج امریکہ کو شاید پاکستان کی وہ شدید ضرورت نہیں ہے، جس نے بش کو مجبور کیا تھا کہ وہ اس کو اتحادی‘ شراکت دار قرار دیں۔
حالات میں بہت بڑا فرق ہے۔ فرق یہ ہے کہ بش کے وقت امریکہ افغانستان میں فوجیں لا رہا تھا، اور بائیڈن کے وقت امریکہ افغانستان سے فوجیں نکال رہا ہے۔ اور اسے ایسا کرنے کی اتنی جلدی ہے کہ وہ کئی ایسی رسمی کارروائیوں سے بھی پہلوتہی کر رہا ہے، جو ان حالات میں ضروری ہوتی ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکہ افغانستان سے کہیں نہیں جا رہا۔ وہ افغانستان سے صرف اپنی فوجیں نکال رہا ہے، تاکہ اس جانی و مالی نقصان سے بچا جا سکے، جس کی وجہ سے امریکی رہنما امریکی رائے عامہ میں ہدف تنقید بن رہے ہیں۔ امریکہ اب افغانستان کو اپنے لیے ''وائٹ ایلیفنٹ‘‘ یعنی سفید ہاتھی نہیں بننے دے گا، لیکن وہ افغان حکومت (اگلی حکومت؟) اور خطے میں موجود اپنے فوجی اڈوں کے ذریعے افغانستان کے معاملات میں اپنا کردار جاری رکھے گا۔ پاکستان کے پالیسی سازوں کو اس نئی امریکی پالیسی کو سمجھنے اور اس کے مطابق اپنا نیا کردار تلاش کرنا پڑے گا۔