افغانستان میں امریکی ناکامی کے اسباب کیا تھے؟ یہ وہ سوال ہو گا، جو شاید آنے والی نسلوں کے نصاب میں شامل ہو گا، اور ہر امتحان میں تاریخ کے طالب علم سے پوچھا جائے گا۔ طالب علم کے لیے یہ دنیا کی تاریخ کا آسان ترین سوال ہو گا۔ طالب علم وہ چند وجوہات پیش کر دے گا، جو اس ملک میں بیس برسوں کی لڑائی کے بعد امریکی پسپائی اور ناکامی کا باعث بنیں۔ تاریخ دان اپنی اپنی مرضی، نظریات اور افتاد طبع کے مطابق تاریخ لکھتے ہیں۔ جانے کل وہ تاریخ کے اس سادہ واقعے کو کیا کیا رنگ دے کر پیش کریں گے‘ لیکن ہم لوگ ان واقعات کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں، اور اپنے کانوں سے سن رہے ہیں، اس لیے ہم پہ لازم ہے کہ ان واقعات کو من و عن پیش کر دیں تاکہ یہ تاریخ میں محفوظ ہو جائیں۔
میرے نزدیک یہ امریکی ناکامی ہی نہیں انسانیت کی شکست بھی ہے۔ چار دہائیوں کے خون خرابے اور قتل و غارت گری کے بعد حال یہ ہے کہ افغانستان اور اس کے لوگ تباہی و بربادی ایک نئے دہانے پر کھڑے ہیں۔ وہاں تباہی کی ایک نئی داستان جنم لے رہی ہے۔ امن‘ ترقی اور خوش حالی اب بھی ایک خواب ہے، جس کے شرمندہ تعبیر ہونے کے آثار دور دور تک نہیں دکھائی دیتے۔ اس امریکی شکست اور ناکامی کے کئی اسباب ہیں۔
پہلا سبب نظریاتی اور تاریخی ہے۔ تاریخ کا تجربہ اور سبق یہ ہے کہ کوئی غیر ملکی قوت کسی دوسرے ملک پر قابض ہو کر اس ملک پر اپنی مرضی اور پسند کا نظام مسلط نہیں کر سکتی‘ خواہ وہ نظام کتنا ہی مثالی کیوں نہ ہو۔ فوجی برتری اور دولت کے زور پر وقتی طور پر کسی قوم کو زیرنگیں لایا جا سکتا ہے، مگر یہ عمل دیرپا نہیں ہوتا۔ مقامی باشندے خواہ کس قدر ہی کمزور اور بے بس کیوں نہ ہوں، ان کی مزاحمت کو مکمل طور پر ختم نہیں کیا جا سکتا۔ مزاحمتی کردار کسی نہ کسی شکل میں موجود رہتے ہیں، خواہ وہ تاریخ کی غلط سمت میں ہی کیوں نہ کھڑے ہوں۔ قابض قوتیں مقبوضہ علاقوں کے عوام کی مزاحمت کے طریقوں اور خدوخال کا تعین نہیں کر سکتیں۔ یہ فیصلہ بالآخر وہاں کے عوام نے کرنا ہوتا ہے کہ وہ مزاحمت کے لیے کون سا راستہ اور طریقہ اختیار کرتے ہیں۔
اس شکست اور ناکامی کی دوسری وجہ یہ ہے کہ افغان فوج اور سکیورٹی فورسز پر بہت زیادہ بھرو سہ کیا گیا۔ امریکی اور افغان حکومت نے ان کی طاقت اور صلاحیت کا غلط اندازہ لگایا۔ واقفانِ حال یہ جانتے تھے کہ افغان فوج بظاہر جدید ترین تربیت اور اسلحے کے باوجود ایسی پیشہ ور فوج نہیں، جس پر ایسے نازک حالات میں بھروسہ کیا جا سکتا۔ اس فوج کی ایک بہت بڑی تعداد صرف ''گھوسٹ فوج‘‘ تھی، جس کے نام پر ہزاروں لوگ تنخواہیں اور مراعات سمیٹ رہے تھے۔ یہ کرپشن کا ایک اڈا تھا، جس کے پیچھے امریکی ڈالر اور اسلحے کی خرید و فروخت کی ایک وسیع گنگا بہہ رہی تھی، جس میں ہزاروں لوگ ہاتھ دھو رہے تھے۔ اس میں حکومتی اہل کار بھی تھے اور فوجی عہدے دار اور دوسرے سٹیک ہولڈرز بھی تھے۔ فوج کے نام پر امریکی خزانے کا منہ کھلا تھا اور لوٹ جاری تھی۔ جب طالبان کے ساتھ لڑائی کا وقت آیا تو انہوں نے یہ سوال اٹھا دیا کہ اس قسم کی لڑائی افغان کے ہاتھوں افغان کا خون بہانے کی لڑائی ہو گی، جو جائز نہیں ہے۔ یہ باتیں اس حقیقت کے باوجود کی گئیں کہ یہ عمل افغانستان میں گزشتہ چالیس سالوں سے جاری ہے۔ انیس سو اناسی سے لے کر اب تک افغان ایک دوسرے کا خون بہا رہے ہیں۔ خواہ یہ خون سوویت ایما پر بہایا گیا ہو یا پھر امریکی ایما پر۔ خون بہانے والے طالبان ہوں، یا مقامی حکومتوں کے اہل کار۔
شکست کی تیسری وجہ مقامی حکومت اور سیاسی لیڈروں کی کرپشن تھی۔ اس باب میں امریکی سپیشل انسپکٹر کی رپورٹس اس کی گواہ ہیں۔ ان رپورٹس میں اس ناقابل یقین کرپشن کی ساری تفصیلات موجود ہیں۔ ان رپورٹس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ افغانستان کی حکومت اور اس کے سکیورٹی اور انتظامی ادارے امریکی امداد کو مالِ غنیمت کی طرح آپس میں بانٹ رہے تھے۔ جس مقصد کے لیے امریکی پیسہ آ رہا تھا، اس کا دس فیصد بھی اس مقصد پر خرچ نہیں کیا جاتا تھا۔ اس کے برعکس حکمران اشرافیہ یہ پیسہ آپس میں بانٹ رہی تھی، یا اپنے وفاداروں اور خیر خواہوں کو دے رہی تھی۔
شکست کی چوتھی بڑی وجہ افغان وار لارڈز پر بھرو سہ تھا۔ حکومت نے اپنی لوٹ کھسوٹ میں وار لارڈز کو شراکت دار بنا رکھا تھا۔ وہ ان کی چیرہ دستیوں سے صرف نظر کرتے تھے‘ اور ان کا خیال تھا کہ طالبان کے ساتھ لڑائی میں وار لارڈز ہمارے محافظ دستوں کا کردار ادا کریں گے مگر ضرورت کی گھڑی میں یہ وار لارڈز اپنے اصل کردار اور رنگ میں سامنے آئے جو اس طرح کے عناصر کا تاریخ میں ہمیشہ کردار رہا ہے۔
شکست کی پانچویں وجہ جعلی اور جھوٹی جمہوریت تھی۔ جمہوریت کے نام پر یہاں دھونس، دھاندلی، جبر اور ووٹوں کی خرید و فروخت سے حکومتیں مسلط ہوتی رہیں‘ چنانچہ جمہوریت ایک مخصوص طبقے کی لونڈی بن گئی تھی، جو اپنی بقا کے لیے امریکی فوج اور پیسے پر انحصار کرتا تھا۔ یہ جعلی جمہوریت تھی، جس کا عوام سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ جمہوریت سے عام افغان کا ایمان ہی اٹھ گیا تھا۔ نوبت یہاں تک پہنچی تھی کے آخری انتخاب میں صرف دو ملین لوگوں نے حصہ لیا، جبکہ چند برس قبل یہ تعداد آٹھ ملین سے زائد تھی۔
شکست کی چھٹی وجہ افغانستان میں معاشی و سماجی انصاف کے قیام میں مکمل ناکامی تھی۔ اقربا پروری، رشوت ستانی، اور لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم تھا۔ حکومت نے وار لارڈز اور ڈرگ ڈیلرز کے ساتھ باقاعدہ شراکت داری اختیار کر لی تھی۔ اس شراکت داری کی وجہ سے حکومت اس بات سے شعوری طور پر لا تعلق ہو گئی تھی کہ یہ وار لاڈز اپنے اپنے علاقے میں عوام کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں‘ اور وہ کس طرح عوام کو یرغمال بنا کر ان کا معاشی و سماجی استحصال کرتے ہیں۔ یہی صورت حال ڈرگ ڈیلرز کے ساتھ بھی تھی۔ حکومت کی ڈرگ ڈیلرز کے ساتھ شراکت داری اور ان کو کھلی چھٹی دینے کا یہ نتیجہ تھا کہ حالیہ دور میں افغانستان میں ڈرگ کی کاشت میں سینتیس فیصد اضافہ ہوا۔ افغانستان دنیا بھر میں نشہ آور اشیا کی خرید و فروخت کرنے والے پہلے چند ممالک میں شامل رہا۔ اس طرح یہاں کی معیشت کا بڑا حصہ مار دھاڑ، لوٹ کھسوٹ، اسلحے اور نشے کی تجارت کے گرد گھومتا رہا۔ بے روزگاری کی شرح میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا۔ نوجوان مستقبل سے مایوس ہو کر وار لارڈز، ڈرگ کارٹیل اور طالبان کے مختلف گروہوں کا حصہ بنتے رہے ہیں۔ سول سوسائٹی کا وجود ختم ہوتا گیا، اور بالآخر حکومت کی عمل داری سماج کے ان طبقات اور گروہوں تک رہ گئی تھی، جن کو حکمران اشرافیہ نے لوٹ مار میں شراکت دار بنایا ہوا تھا۔
ان حالات میں اگر اقتدار طالبان کی جھولی میں آ گرا تو اس میں ان کا کوئی کمال یا خوبی نہیں ہے۔ یہ افغانستان کی حکمران اشرافیہ کی ناکامی اور نااہلی کا نتیجہ ہے۔ فتح و شکست کا فیصلہ میدان جنگ میں ہوتا ہے، جہاں دو قوتیں ایک دوسرے کے خلاف لڑ رہی ہوتی ہیں۔ یہاں تو عالم یہ تھا کہ طالبان ایک گولی چلائے بغیر پورے افغانستان پر قابض ہو گئے، اور ٹہلتے ہوئے صدارتی محل میں داخل ہو گئے۔ یہ صورت حال راتوں رات پیدا نہیں ہوئی۔ اس کے پس منظر میں حکمران اشرافیہ کا برسوں کا کردار اور عمل تھا۔ اس میں کسی کا وہ ''مسحور کن‘‘کردار نہیں ہے، جو بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہاں کوئی ہیرو اور کوئی ولن نہیں ہے۔ یہاں صرف تباہی ہی تباہی ہے۔