اگست دو ہزار سولہ کے آخری ہفتے میں‘ میں نے کشمیر کے حوالے سے ایک کالم لکھا تھا۔ پانچ سال پہلے یہ کالم میں نے آزاد کشمیر کے اس وقت کے نئے صدر کے حلف اٹھانے کے موقع پر لکھا تھا۔ اتفاق سے گزشتہ دنوں بھی آزاد کشمیر میں بیرسٹر سلطان محمود نے نئے صدر کے طور پر حلف اٹھایا ہے۔ اس موقع پر مجھے وہ پراناکالم پڑھ کر لگا کہ پانچ سال پہلے کالم میں پیش کیا جانے والا تجزیہ آج بھی اتنا ہی نیا اور متعلقہ ہے۔ ہمارے ہاں تبدیلی کے نام پر فقط نام اور چہرے تبدیل ہوتے رہے ہیں‘ نظام وہی پرانا رہتا ہے، اور پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ اس بات میں ہمارے لیے غوروفکر کی دعوت ہے کہ ہم کس طرح وقت اور زمانے سے بچھڑ کر ایک جگہ پر منجمد ہو گئے ہیں اور فرسودگی کا شکار ہو کر ایک دائرے میں گھوم رہے ہیں۔ ہم نے اپنے آپ کو ایک تاریک سرنگ میں بند کر لیا ہے، جہاں ہم اپنے ہی بیانات کی بازگشت سن کر خوش ہو رہے ہیں۔
پانچ برس قبل میں نے لکھا تھا ''آزاد کشمیر میں نئے صدر جناب مسعود خان نے حلف اٹھا لیا ہے۔ حلف اٹھانے کے بعد انہوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اجاگر کریں گے۔ لفظ ''اجاگر‘‘ کو آپ باٹم لائن کہہ سکتے ہیں۔ یہ لفظ سنتے ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ آئندہ پانچ سال تک موصوف کے اس موضوع پر کس قسم کے بیانات آئیں گے۔ موصوف کن کن ممالک کا دورہ کریں گے۔ کن کن شخصیات سے ملاقات کریں گے۔ کن کن کانفرنسز میں شرکت کریں گے۔ کن فورمز سے خطاب کریں گے۔ مسئلہ کشمیر اجاگر کرنے کے اس عمل کے دوران دیگر کاموں کے علاوہ جو کام لازمی طور پر ان کو کرنے پڑیں گے‘ ان میں کشمیر کے حوالے سے قومی اہمیت کے دن منانا ہے۔ ان دنوں میں یوم تاسیس، یوم یکجہتی وغیرہ کے دن شامل ہیں۔ اس عمل کے دوران ان کو آزاد کشمیر میں کئی عوامی اجتماعات سے خطاب کرنا پڑے گا۔ ان خطابات کے دوران موصوف یہ فرمائیں گے کہ اس دھرتی کی آزادی کی خاطر ہم لوگ صدیوں سے قربانی دیتے آئے ہیں۔ اس دھرتی کی خاطر ہمارے آبائواجداد کی زندہ کھالیں اتروائی گئیں۔ پھر ہمارے بزرگوں نے ڈوگروں سے لڑ کر آزادی حاصل کی‘ اس علاقے کو آزادی کا بیس کیمپ بنایا‘ اور ہماری آزادی کی یہ جنگ آج بھی جاری ہے۔ ہمارے بھائی مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے خلاف سر بکفن ہیں۔ بھارت اب کشمیریوں کو زیادہ دیر تک غلام نہیں رکھ سکتا۔ کشمیر کی آزادی کا وقت آ گیا ہے۔ اس طرح وہ ساٹھ ستر سال سے دہرائے جانے والے مکالموں کو ایک بار پھر انہی الفاط میں، کامے اور فل سٹاپ سمیت دہرا کر آزاد کشمیر اور پاکستان میں مختلف مقامات پر مسئلہ کشمیر کر اجاگر کریں گے۔ مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کے لیے ان کو بیرون ممالک کے اکثر دوروں کا کشٹ بھی اٹھانا پڑے گا، تاکہ وہ مسئلہ کشمیر پر ہونے والی مختلف کانفرنسز میں شرکت کریں اور اعلیٰ شخصیات سے مل سکیں۔ ان میں او آئی سی کی کانفرنس سرفہرست ہے۔ اس کانفرنس میں وہ اسلامی ممالک کی اس تنظیم کو سینکڑوں بار یقین دلانے کے بعد ایک بار پھر یقین دلائیں گے کہ بھارت کشمیری مسلمانوں پر ظلم کررہا ہے، اس لیے او آئی سی میں بھارت کے خلاف قراداد مذمت منظور کی جائے۔ اس کے بعد وہ چند شہروں کے ہنگامی دوروں کے دوران پاکستانی سفارت خانوں کے تعاون سے منقعد ہونے والی کشمیر کانفرنسز میں شرکت کر کے مسئلہ کشمیر کو اجاگر کریں گے۔ اس کے بعد وہ کچھ ممبران پارلیمنٹ، انسانی حقوق کے نمائندوں اور کمیونٹی کے چیدہ چیدہ افراد کے ساتھ ملاقاتوں میں مسئلہ کشمیر پر بات کریں گے۔ گویا موصوف وہی کام کریں گے، جو آزاد کشمیر کے سابق صدور یا وزرائے اعظم گزشتہ پچاس سالوں سے کر رہے ہیں۔ ان سرگرمیوں کے ذریعے ظاہر ہے مسئلہ کشمیر حل نہیں ہو گا؛ البتہ اجاگر ضرور ہو گا، جیسا کہ یہ نصف صدی سے اجاگر ہوتا آیا ہے۔ تنازع کشمیر کی شروعات میں کچھ لیڈر تھے، جو مسئلہ کشمیر کے حل کی بات کرتے تھے، یا عوام سے اس کو حل کرنے کا وعدہ کرتے تھے۔ کچھ عرصہ بعد کشمیری لیڈروں نے 'حل‘ کے بجائے 'اجاگر‘ کرنے کا لفظ استعمال کرنا شروع کر دیا۔ اس اجاگر کرنے سے نہ تو مسئلہ کشمیر حل ہوتا ہے، اور نہ ہی کشمیریوں کے مصائب میں کوئی کمی آتی ہے۔ اجاگر کرنے کی اس پالیسی کے تحت جس عالمی سطح پر ہم یہ مسئلہ اٹھا رہے ہیں، اس کو باریک بینی سے دیکھا جائے تو یہ عوام کے ساتھ ایک مذاق کے علاوہ کچھ نہیں۔ یہ جو عالمی سطح پر کانفرنسز ہوتی ہیں، ان سے عالمی رائے عامہ مکمل طور پر بے خبر ہوتی ہے۔ ان کانفرنسز میں دیسی بینکوئٹ ہالوں یا ریستورانوں میں دیسی لوگوں کو بار بار جمع کر کے وہی بات دہرائی جاتی ہے، جو گزشتہ پچاس سال سے ہو رہی ہے۔ اس طرح کی کانفرنسز کا اگر کسی کو فائدہ ہوتا ہے تو وہ بینکوئٹ ہال کے مالکان کو یا تصویریں بنوانے کے شوقین خواتین و حضرات یا ان خود ساختہ لیڈران کو جن کا روزگار ہی اس طرح کی سرگرمیوں سے وابستہ ہے۔ اس کانفرنس کی خبر نہ تو مقامی ذرائع ابلاغ کو ہوتی ہے، نہ ہی مقامی لوگوں کو، مگر ہمارے نزدیک یہ کانفرنس عالمی ہوتی ہے، اور مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اٹھانے کے لیے بلائی گئی ہوتی ہے۔ جن ممبران پارلیمنٹ سے بات کی جاتی ہے، وہ اپنے ووٹر کو خوش کرنے کے لیے ملاقات کے دوران سر تو ہلاتے رہتے ہیں، لیکن اس موقع کے بعد پھر اس موضوع پر کبھی کسی سے ایک لفظ تک نہیں کہتے‘ مگر ہمارے لیڈر اس دورے کے بعد فاتحانہ انداز میں اسلام آباد ائیر پورٹ پر پہنچ کر اپنے کامیاب دورے کی نوید سناتے ہیں، جیسے کشمیر فتح کر کے آ رہے ہوں۔ 'اجا گر‘ کرنے کی یہ لا حاصل اور بے سود مشق ستر سال سے جاری ہے اور یہ جاننے کے لیے کوئی بہت زیادہ عقل مند ہونا ضروری نہیں کہ آئندہ سو سال تک بھی ایسی فضول مشق کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔ یہ مشق بنیادی طور پر ایک ناکام اور بانجھ کشمیر پالیسی کی عکاس ہے ۔ اس تجربے کی روشنی میں آزاد کشمیر کے نئے صدر صاحب کو اپنے طویل سفارتی تجربے کی روشنی میں اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے کہ اس پالیسی کے تحت ہم کبھی کشمیر نہیں لے سکتے ۔ یہ پالیسی کشمیر کے غریب عوام کے ساتھ سنگین مذاق اور ان کے وسائل کی لوٹ کے مترادف ہے؛ چنانچہ ان لیڈروں کو چاہیے کہ وہ مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کے اس ''رولر کوسٹر‘‘ پر چڑھنے سے پہلے اس بے نتیجہ پالیسی میں بنیادی تبدیلی کی بات اٹھائیں‘ کشمیر پالیسی کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرائیں۔ ایسا کیے بغیر اس مئسلے کا کوئی حل نہیں نکل سکتا۔ یہ کوئی ''کریڈٹ‘‘ کی بات نہیں ہے کہ ہم ستر سال سے مسئلہ کشمیر پر ایک ہی بات دہرا رہے ہیں۔ اس کے بجائے منطق اور جدید سفارتی تقاضوں کے مطابق یہ ''ڈس کریڈٹ‘‘ ہے کہ ہم ستر سال سے ایسی بات پر اصرار کر رہے ہیں، جس کا کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکل رہا ہے؛ چنانچہ اگر مقصد صرف مسئلہ کشمیر اجاگر کرنا ہی نہیں، بلکہ حل بھی کرنا ہے، تو اس کے لیے اپنی فرسودہ اور بانجھ پالیسی میں تبدیلی لانی ہو گی۔ ستر سال پرانے رٹے رٹائے اور لکھے ہوئے مکالمے ایک طرف رکھ کر نئی اور با معنی زبان میں بات کرنا ہو گی‘‘۔