کینیڈا میں انتخابی مہم اپنے اختتامی مراحل میں داخل ہو چکی۔ 21 ستمبر پولنگ کا دن ہے۔ خاموشی سے انتخابی مہم مکمل ہوئی اور خاموشی سے نو منتخب حکومت اپنا کام شروع کر دے گی۔ ہم لوگ جو انتخابات کو زندگی و موت کا معرکہ سمجھتے ہیں‘ ہمیں یہ انتخابات حقیقی نہیں لگتے۔ ہم جیسے پس منظر رکھنے والے لوگوں کے انتخابات کے باب میں بڑے تلخ تجربات ہیں۔ ہمیں تو یقین ہی نہیں ہو رہا کہ انتخابات اتنے پُر امن اور خوشگوار ماحول میں خاموشی سے بھی ہو سکتے ہیں۔ ہم لوگ جو تیسری دنیا کے مختلف ممالک سے آ کر یہاں آباد ہوئے‘ ہمارے تجربات مختلف ہیں۔ ہمارے نزدیک وہ انتخابات ہی کیا ہیں جن میں انتخابات سے سال یا چھ ماہ پہلے انتخابی مہم کے نام پر عوام کو مختلف گروہوں‘ قبیلوں اور قبیلہ نما سیاسی پارٹیوں میں تقسیم نہ کیا جائے۔ اوراس تقسیم کے بعد پر پارٹی مخالف پارٹی کے رہنماؤں کو ملک دشمن‘ غدار‘ دشمن ملک کا ایجنٹ‘ دشمن کا یار‘ یہاں تک کہ سکیورٹی رسک نہ قرار دے دیا جائے۔ ہمارے ہاں تو سیاسی پارٹیوں کو‘ جو دراصل قبیلہ ازم کی جدید شکلیں ہیں‘ مخالف پارٹی کے خلاف اس طرح میدان میں اتارا جاتا ہے جس طرح قدیم زمانے میں فوجیں میدان جنگ میں اترا کرتی تھیں۔ اس میدان میں تیر و تلوار استعمال کئے بغیر لفظوں سے گہرے زخم اور کچوکے لگائے جاتے ہیں۔ انتخابات ایک خوفناک جنگ سمجھ کر لڑے جاتے ہیں۔ اس جنگ میں ہار اور جیت کی جگہ فتح و شکست کی اصطلاحیں استعمال کی جاتی ہیں۔ یہ میدان جنگ جب سجتا ہے تو شعلہ نوائی کے نئے ریکارڈ قائم کیے جاتے ہیں۔ ملک اور سماج میں ہر برائی‘ ہر مصیبت اور ہر ناکامی کی وجہ مخالف پارٹی کو قرار دیا جاتا ہے۔ اس پر دشمنوں سے ساز باز کر کے ملکی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کے سنگین الزامات لگائے جاتے ہیں۔ ان الزامات کی روشنی میں یہ ثابت کیا جاتا ہے کہ مخالف پارٹی کا انتخاب ایک سنگین غلطی ہو گی‘ بلکہ اس ملک کے خلاف سازش ہو گی۔ اس طرح عوام کو خوف اور بے چینی میں مبتلا کرنے کے بعد ان کو پیغام دیا جاتا ہے کہ ان کی اپنی اور آئندہ نسلوں کی بقا اور ملک کی سلامتی کا دارو مدار اس بات پر ہے کہ ہمیں اقتدار کے سنگھاسن پر بٹھا دیا جائے۔ اس طرح یہ کھیل ہر محلے‘ ہر سڑک اور ہر گلی میں کھیلا جاتا ہے۔ یہ کھیل بسا اوقات پُرتشدد شکل بھی اختیار کر لیتا ہے جس کے نتیجے میں کچھ معصوم لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ ہمیشہ ہر انتخابات سے پہلے یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ ان انتخابات میں منظم دھاندلی ہو گی اور ہمارے پاس پکی اطلاع ہے کہ اس دھاندلی کی پوری تیاری حکومتِ وقت کر چکی ہے۔ انتخابات کے بعد دھاندلی کے تمام الزامات ثبوت کے ساتھ عوام کو پیش کر دیے جاتے ہیں۔ اس پر جلسے جلوس اور احتجاجی مظاہرے ہوتے ہیں۔ عدالتوں میں مقدمے چلتے ہیں‘ اس طرح انتخابات کا جوش و خروش اور لڑائی جھگڑے اگلے انتخابات تک چلتے رہتے ہیں۔ دھاندلی کا یہ الزام صرف حزبِ مخالف کی طرف سے ہی نہیں آتابلکہ جو پارٹی اقتدار میں آجاتی ہے‘ گاہے اس کو بھی یہ شکایت ہوتی ہے کہ جن نشستوں پر اس کے امیدوار ہار گئے‘ وہاں دراصل اس کے خلاف دھاندلی ہوئی۔ اس طرح الزام در الزام کا جو ماحول تشکیل پاتا ہے وہ پانچ سال تک برقرار رہتا ہے۔ عوام کو ایک پارٹی کی قیادت میں پانچ سال تک 'دشمن‘ کی حکومت سہنا پڑتی ہے اور حکومت کو پانچ سال تک دشمن کا احتجاج اور طعنے برداشت کرنا پڑتے ہیں۔ اس ماحول سے آنے والے لوگوں کو کینیڈا جیسے خاموش‘ پُرامن انتخابات پر یقین نہیں آتا‘ جن میں نہ کوئی دشمن کا ایجنٹ قرار پائے‘ نہ کوئی غدار ہو‘ نہ کسی کی فتح ہو نہ شکست ہواور نہ کوئی ہیرو ہو نہ کوئی ولن بلکہ سیدھی سادی ہار جیت ہو۔ اس طرح یہ انتخابات ہمارے لیے اکتاہٹ اور عدم دلچسپی کا باعث ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود ہمارے کچھ لوگ یادِ ماضی کو تازہ کرنے کا سامان کر ہی لیتے ہیں۔ اپنے کسی کونے کھدرے میں بریانی کھانے اور کھلانے کا بندوبست کر ہی لیتے ہیں۔ اپنی ایسی چھوٹی موٹی محفل بھی سجا ہی لیتے ہیں جس میں پنڈال میں کم لوگ بیٹھے ہوتے ہیں اور سٹیج پر بیٹھے معززینِ علاقہ کی تعدا دزیادہ ہوتی ہے۔ اس میں فرضی ہیرو اور ولن بھی بنا لیے جاتے ہیں۔ ایسے لوگ بھی پیش کئے جاتے ہیں جنہوں نے کمیونٹی کی بے لوث‘ اَن تھک مگر نامعلوم خدمت کی ہوتی ہے۔ ان خدمات میں کوئی سڑک‘ پانی‘ بجلی یا روزگار فراہم کرنے کی خدمات نہیں ہوتیں کیونکہ ان چیزوں کے لیے عوام کو کسی کی خدمات کی ضرورت ہی نہیں پڑتی بلکہ اس طرح کے بنیادی کام کرنا ہر حکومت اپنی بنیادی ذمہ داری سمجھ کر کرتی ہے۔ یہاں خدمات سے مراد شاید سماجی خدمات ہوتی ہیں جن کے لیے یہاں سماجی بہبود کا محکمہ قائم ہے‘ جو ضرورت مندوں کی خدمات کے لیے ہمہ وقت تیار رہتا ہے۔ اس کے باوجود ہمارے لوگ ماضی کے ''عظیم تجربات‘‘ کی یاد تازہ کرنے کا سامان کرہی لیتے ہیں۔ اس کے لیے بریانی پارٹیاں بھی ہوتی ہیں۔ اس مقصد کے لیے کچھ منتخب لوگ بھی مل جاتے ہیں جو ہر بریانی پارٹی میں شامل ہوتے ہیں۔ چہرے پر مسکراہٹ سجاتے ہیں اور ہر شریکِ محفل کے ساتھ بڑی سعادت مندی سے تصویر بنواتے ہیں۔ بریانی پارٹی کے علاوہ یہ ممبران کہیں اور نظر نہیں آتے۔ نہ عام دھارے کے میڈیا پر ان کا چہرہ نظر آتا ہے نہ پارلیمنٹ کے کسی اجلاس میں یہ نظر آتے ہیں۔ ان حالات میں کینیڈا میں انتخابات کا موسم آتا ہے اور خاموشی سے گزر جاتا ہے۔ لوگ زیادہ تر ووٹ کا فیصلہ رہنماؤں کے مباحثے سن کر‘ ٹی وی دیکھ کر یا اخبارات وغیرہ پڑھ کر کرتے ہیں۔ ہر انتخابات میں حکومت کی ماضی کی کارکردگی اور مستقبل کے منصوبے اور پالیسیوں کے پیش نظر ووٹ کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔
اس دفعہ کے انتخابات میں برسر اقتدار لبرل پارٹی اور حزبِ اختلاف کی کنزرویٹو پارٹی کے درمیان بہت ہی سخت مقابلہ ہے۔ میڈیا پول بہت ہی کم مارجن پر ہار اور جیت دکھا رہے ہیں۔ وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو اب بھی مقبول ترین سیاست دان تصور کیے جاتے ہیں۔ عوام کورونا بحران کے دوران ان کی کارکردگی سے خوش ہیں۔ اس کے باوجود کورونا بحران کے دوران ان کی طرف سے نئے انتخابات کے اعلان کو بڑے پیمانے پر احسن اقدام نہیں سمجھا گیا۔ اس سلسلے میں یہ خیال عام ہے کہ انہوں نے کورونا کے دوران اپنی مقبولیت کا فائدہ اٹھا کر انتخابات کا اعلان کر دیا تاکہ وہ اپنی اقلیتی حکومت کو اکثریتی حکومت میں بدل سکیں۔ اس موضوع کو حزبِ مخالف کی پارٹیوں نے بڑے پیمانے پر اچھالا ہے جس سے ان کی مقبولیت پر کافی فرق پڑا ہے۔
دوسری طرف کورونا بحران کے ہی تناظر میں کینیڈا کی نیو ڈیموکریٹک پارٹی کی مقبولیت میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ کورونا بحران کے پس منظر میں عوام کو سب کے لیے مفت صحت کی اہمیت کا شدت سے احساس ہوا ہے۔ نیو ڈیموکریٹک پارٹی نے صحت کے اس نظام میں مثبت تبدیلیوں اور سب کے لیے برابر سہولیات کی پالیسی پر زور دیا ہے۔ یہ وہ نکتہ ہے جس پر اس پارٹی کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔ اس مسئلے پر جسٹن ٹروڈو کی لبرل پارٹی میں موجود ترقی پسند لوگوں کا رجحان نیو ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف بڑھا ہے۔ اس صورتِ حال کا براہ راست فائدہ دائیں بازوں کی قدامت پرست پارٹی کو ہو سکتا ہے۔