"FBC" (space) message & send to 7575

آزاد سمندر اور سرد جنگ

دو ہزار سترہ کے موسم خزاں میں فلپائن کے شہر منیلا میں ایک میٹنگ ہوئی۔ اس میٹنگ کے میزبان جاپان کے (سابق) وزیر اعظم شنزو ایبی تھے۔ یہ بہت اہم میٹنگ تھی‘ مگر منیلا شہر کے لیے یہ عام سا دن تھا۔ یہاں روز مرہ کی زندگی رواں دواں تھی۔ کسی نے اس میٹنگ کا خاص نوٹس نہیں لیا، اور نہ ہی یہ میٹنگ مقامی یا عالمی اخبارات میں ہیڈ لائنز بنا سکی۔ اور تو اور اس خطے پر گہری نظر رکھنے والے چین جیسے ملک نے بھی اس میٹنگ کو سنجیدہ نہیں لیا۔ اس پر کسی تشویش کا اظہار نہیں کیا۔ اس میٹنگ میں جاپان کی میزبانی میں آسٹریلیا، انڈیا اور امریکہ نے شرکت کی، جو کواڈ کے نام سے مشہور ہوئی۔ چین نے اس میٹنگ کو ''ڈاون پلے‘‘کیا۔ چین کے وزیر خارجہ وینگ لی نے اس میٹنگ کو بحرالکاہل میں جھاگ کی طرح قرار دیا، جو وقتی طور پر کچھ توجہ تو حاصل کر لیتی ہے، مگر جلد ہی غائب ہو جاتی ہے۔ اس میٹنگ کی طرف اس رویے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس قسم کی ایک کوشش دس برس قبل بھی ہو چکی تھی، جس کے کوئی خاطر خواہ نتائج نہیں نکلے تھے۔ لیکن اس سال موسم بہار میں جب یہ میٹنگ ہوئی تو چین کا رویہ مختلف تھا۔ چین نے اس میٹنگ اور اس کے نتیجے میں بننے والے اتحاد کو خطے کے لیے ایک سکیورٹی مسئلہ قرار دیا۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ کواڈ آنے والے برسوں میں چین کے ارادوں کے لیے ایک بڑا چیلنج ثابت ہو گا۔ چین کے صدر شی جن پنگ نے خبردار کیا کہ ان کے ملک کو ورلڈ آرڈر پر سخت قسم کی جدوجہد کا سامنا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ چین کی اٹھان سے خوفزدہ ہے۔ چینی صدر نے اس یقین کا اظہار کیا ہے کہ دو ہزار پینتیس تک چین کے پاس ایک معاشی، تکنیکی اور فوجی طاقت بننے کا موقع موجود ہے۔ اس موقع کی موجودگی میں چین ایشیا اور دنیا بھر کے ممالک سے توقع رکھتا ہے کہ وہ چین کی غالب حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے اسے آگے بڑھنے کا راستہ دیں گے۔ اس طرح چین عالمی نظام کے نئے قواعد و ضوابط لکھے گا‘ اور ایک بھی گولی چلائے بغیر اپنی عالمی حیثیت مستحکم کر لے گا۔ لیکن کواڈ اس حسین تصور کے راستے میں ایک بد نما رکاوٹ کی طرح ابھر رہا ہے۔ چونکہ یہ اتحاد علاقائی قوتوں کو ایک بڑے اتحاد میں منظم کرنے کی کوشش کر رہا ہے، جو بحرالکاہل میں چین کی مزاحمت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے‘ اس لیے چین نے بالآخر اس اتحاد کے خلاف ایک واضح موقف اختیار کیا ہے‘ لیکن عملی میدان میں چین اس اتحاد کا مقابلہ کرنے کے لیے کیا حکمت عملی اختیار کرتا ہے؟ اس کا دار و مدار مستقبل میں چین امریکہ تعلقات اور عالمی سیاست میں ان کے باہمی رویوں پر ہے، جو اس وقت ایک بھر پور سرد جنگ کی شکل اختیار کر چکے ہیں‘ لیکن اب بھی کچھ لوگ پُر امید ہیں کہ یہ دونوں ملک مکمل تصادم سے بچ کر کچھ عرصہ تک آگے بڑھ سکتے ہیں۔
کواڈ کا طویل پس منظر ہے۔ کواڈ کے قیام کی پہلی کوشش دو ہزار چار کی سونامی کے فوراً بعد ہوئی تھی۔ اس وقت آسٹریلیا، امریکہ، انڈیا اور جاپان نے مل کر سونامی کی تباہی کا مقابلہ کیا تھا۔ اس وقت جاپانی وزیر اعظم نے کواڈ کو علاقائی سلامتی و تحفظ کا ایک ناگزیر فورم قرار دیا تھا، مگر تب دیگر ممالک کی طرف سے وہ جوش و خروش نظر نہیں آیا تھا، جو اس طرح کے سنجیدہ فورم کے قیام کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ اس پر سب سے زیادہ خود جارج ڈبلیو بش نے ہچکچاہٹ کا اظہار کیا تھا۔ بش کو تشویش تھی کہ اس طرح کے فورم کی تشکیل دہشت گردی کے خلاف جنگ میں چینی تعاون پر منفی اثرات مرتب کر سکتی ہے۔ بعد میں وکی لیکس سے پتہ چلا کہ بش انتظامیہ کا خیال تھا کہ کواڈ کا معاملہ آگے نہیں بڑھے گا، اور یہ ناکام کوشش بلا وجہ چین کی ناراضی کا باعث بنے گی۔
دوسری طرف نئی دہلی میں بھی (تب) وزیر اعظم من موہن سنگھ نے کواڈ کے اندر کسی سکیورٹی اتحاد کے امکانات کو رد کرتے ہوئے بیجنگ کے ساتھ تعلقات کو لازم قرار دیا تھا۔ آسٹریلین وزیر اعظم جان ہاورڈ نے بھی چین کے ساتھ باہمی نفع بخش تعلقات کو دائو پر لگانے سے انکار کر دیا تھا۔ اسی طرح جاپان میں بھی نئے وزیر اعظم یاسو فوکودا نے منتخب ہوتے ہی کواڈ کے خیال کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا تھا۔ اس طرح ان بنیادی اراکین نے خود ہی کئی برسوں تک کواڈ کے تصور کو حقیقت میں بدلنے میں تاخیر برتی۔
تقریباً ایک عشرے بعد جب ایبی دوبارہ جاپان کا وزیر اعظم منتخب ہوا تو صورت حال کافی حد تک بدل چکی تھی۔ ساوتھ چائنا سمندر میں امریکہ اور چین کے درمیاں کشیدگی کی کیفیت میں خاطر خواہ اضافہ ہو چکا تھا۔ بھارت اور چین کے درمیاں تعلقات بگڑ کر باقاعدہ سرحدی جھڑپوں کی شکل اختیار کر چکے تھے۔ لیکن اس کے باوجود جب کواڈ کے قائدین نومبر دو ہزار سترہ میں منیلا میں جمع ہوئے تو وہ اس میدان میں کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہ کر سکے۔ یہاں تک کہ یہ کوئی مشترکہ اعلامیہ جاری کرنے میں بھی ناکام رہے۔ اس کے بجائے انہوں نے انفرادی بیانات جاری کیے۔ ان بیانات سے خطے کے اہم معاملات پر ان کے شدید اختلافات کا اظہار ہوتا تھا‘ مگر اگلے تین برسوں میں صورت حال حیرت انگیز طور پر بدل گئی۔ اس سے اگلی میٹنگ ''گیم چینجر‘‘ ثابت ہوئی۔
یہ میٹنگ ستمبر دو ہزار انیس میں نیو یارک میں ہوئی۔ اس میٹنگ میں ایک کھلے اور آزاد ''انڈو پیسیفک‘‘ کے لیے مشترکہ کوششوں پر اتفاق کیا گیا۔ دو ہزار بیس کے جون میں چین اور انڈیا کے بارڈر پر دونوں ملکوں کی فوجوں میں شدید جھڑپیں ہوئیں، جن کے نتیجے میں بیس بھارتی فوجی مارے گئے۔ یہ ایک ایسا واقعہ تھا، جس نے بھارت کو چین کے بارے میں نئی پالیسی اختیار کرنے پر مجبور کیا۔ اس سے پہلے بھارت چین کے خلاف کسی اتحاد کی تشکیل کے سوال پر گومگو کی کیفیت کا شکار تھا؛ چنانچہ جب اکتوبر میں ٹوکیو میں ان ممالک کے وزرائے خارجہ کا اجلاس ہوا تو صورت حال مختلف تھی۔ یہ ممالک ایک اتحاد بنانے پر متفق اور بے تاب تھے۔ اس موقع پر امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ مائیک پومپیو نے سخت لب و لہجہ اختیار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کا مقصد کواڈ کو ایک باقاعدہ ادارے کا درجہ دینا ہے، جس کا مقصد ایک مشترکہ سکیورٹی فریم ورک تعمیر کرنا، اور وقت آنے پر چینی کمیونسٹ پارٹی کی طرف سے در پیش خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے اس اتحاد کو مزید وسیع کرنا ہے۔ اس کے بعد انڈیا نے مالا بار میں اپنی بحری مشقوں میں آسٹریلیا کو مدعو کیا، حالانکہ وہ اس سے پہلے بیجنگ کی ناراضی کی وجہ سے ایسا کوئی قدم اٹھانے سے گریز کرتا تھا۔ اس ساری پیش رفت کے بعد چین کھل کر سامنے آیا۔ اس نے اس اتحاد کو ''انڈو پیسیفک نیٹو‘‘ کا نام دیا، اور اس کو خطے کے لیے ایک سکیورٹی رسک قرار دے دیا۔
دوسری طرف امریکہ میں بائیڈن کی قیادت میں نئی انتظامیہ نے کواڈ کو اپنی خارجہ اور فوجی حکمت عملی کی ایک بڑی ترجیح قرار دے دیا۔ اس طرح کواڈ کے اجلاس میں ایک مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا، جس میں جمہوری اقدار اور علاقائی سلامتی کے تحفظ کا عہد کیا گیا۔ آزاد اور کھلے سمندر کے نعرے کے تحت کواڈ ایک سرد جنگ کا اعلان ہے، جو چین اور امریکہ کے درمیان چھڑ چکی ہے۔ اس جنگ کے مزید خدوخال آج چوبیس ستمبر کو واشنگٹن میں ہونے والے اجلاس میں واضح ہوں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں