کچھ امریکی دانشور افغانستان کے باب میں اپنی ریاست کے حالیہ اقدامات اور حکمت عملی پر سخت ناراض ہیں۔ ان کی ناراضی بے وجہ نہیں۔ ان کا خیال ہے کہ افغانستان میں امریکی فوج کشی کا بنیادی اور آخری مقصد دہشتگردی کے خلاف جنگ تھا جس کا مطلب یہ تھاکہ دہشتگردوں کی پناہ گاہوں اور خفیہ ٹھکانوں کو ختم کیا جائے‘ لیکن آگے چل کراس مقصد کے حصول کیلئے اس وقت کی مقامی افغان حکومت کا خاتمہ بھی لازم ٹھہرا۔ اس کی دو وجوہات تھیں۔ پہلی یہ کہ اس حکومت پر دہشتگردوں کی پشت پناہی اور ان کو اپنی سرزمین پر پناہ فراہم کرنے کا الزام تھا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ امریکہ کو افغانستان میں ایسی حکومت کی ضرورت تھی جو دہشتگردی کے خلاف امریکیوں کے ساتھ مل کر جنگ لڑنے پر تیار ہو۔ اس طرح دہشتگردی کے خلاف جنگ کے ساتھ مقامی حکومت کی تبدیلی اور اس کی جگہ اپنی مرضی کی حکومت کا قیام بھی افغانستان میں امریکی حکومت کا بنیادی ایجنڈا بن گیا۔ ان امریکی دانشوروں کا خیال ہے کہ یہی وہ ایجنڈا تھا، جس کی وجہ سے امریکہ افغانستان کی دلدل میں دھنس گیا، اور دھنستا ہی چلا گیا۔
آگے چل کر یہ ایجنڈا امریکی ایمپائر کیلئے ایک ناقابل برداشت بوجھ بن گیا، اور حالات نے پھر ایسا رخ اختیار کیاکہ افغانستان سے نکلنا امریکہ کی سب سے بڑی خواہش اور ضرورت بن گیا۔ جلد انخلا کی خواہش اور بیتابی نے دنیا کی اس واحد سپر پاور کو ایک تباہ کن صورتحال سے دوچار کردیا۔ ان دانشوروں کا خیال ہے کہ اصل مسئلہ افغانستان میں فوج کشی کا نہیں تھا‘ نہ ہی دہشتگردی کے خلاف جنگ کوئی اتنا بڑا چیلنج تھا، جس میں امریکہ کو ناکامی کا اندیشہ ہوتا‘ اصل مسئلہ اس وقت شروع ہوا، جب امریکہ نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں خاطر خواہ کامیابی کے بعد افغانستان سے نکلنے سے پہلے وہاں اپنی مرضی کی حکومت یا نظام لانے پراصرار کیا۔ امریکہ ماضی میں اس طرح کے ایجنڈے پرکئی بار عمل کر چکا تھا، اور اسے اس باب میں سخت تلخ تجربہ تھا‘ لیکن اس نے اس تلخ تجربے سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔
دنیا میں ''رجیم چینج‘‘ یعنی مقامی حکومت کی تبدیلی کیلئے امریکہ کی طرف سے فوجی مداخلت کی تاریخ بہت پُرآشوب اور طویل ہے۔ 2003 کے موسم بہار میں ایک امریکی سیاسی سائنسدان منکسن پائی نے ان فوجی مداخلتوں کا جائزہ لیا، جو امریکہ نے دنیا کے مختلف ممالک میں ''حکومت کی تبدیلی‘‘ یعنی رجیم چینج کیلئے کی تھیں۔ اس نے ان مداخلتوں کی کامیابی یا ناکامی پرکھنے کا جو معیار مقرر کیا، وہ یہ تھاکہ امریکہ کے کسی خاص ملک سے نکل جانے کے دس سال بعد بھی کیا وہاں جمہوریت موجود تھی؟ یعنی کیا امریکی انخلا کے بعد بھی اس ملک میں جمہوری نظام کام کررہا تھا؟ اس نے سولہ ایسے ملکوں کو اپنی تحقیق کا مرکز بنایا۔
اس سٹڈی کی روشنی میں اس نے ثابت کیاکہ ان سولہ میں صرف چار ایسے ممالک تھے، جن کو کامیاب جمہوریتیں قرار دیا جا سکتا تھا۔ ان میں دو بڑے ملک جرمنی اور جاپان تھے، جن کی کامیابیوں سے دنیا آگاہ ہے۔ دونوں ملکوں نے دوسری جنگ عظیم کی المناک شکست کے بعد اپنے آپ کو امریکہ کے حوالے کردیا تھا۔ اس کے بعد دو چھوٹے ملک پانامہ اور گرینیڈا تھے، جن میں امریکہ نے مختصر مدت کیلئے فوجی مداخلت کی تھی۔ ان کامیاب ملکوں میں بہت سی باتیں مشترک تھیں۔ ان میں ایک چیز ماضی کے کامیاب تجربات تھے، جو وہ ملک میں معاشیات اور سیاسیات پر کر چکے تھے۔ دوسری قدر مشترک یہ تھی کہ ان سارے ممالک کو ماضی میں ایک باقاعدہ اور منظم ریاست چلانے کا تجربہ تھا۔ ان ممالک کے اندر سماجی و معاشی عدم مساوات نسبتاً کم تھی۔ نسلی اعتبار سے بھی ان ممالک میں ہم آہنگی اور یکسانیت زیادہ تھی، اور ایسے تضادات کم تھے، جو اکثر ممالک میں امریکی فوجوں کے انخلا کے بعد خانہ جنگی کا باعث بنتے ہیں۔
اتفاق کی بات ہے کہ جس وقت یہ مطالعہ سامنے آیا، اس وقت امریکہ جنگ کے خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے افغانستان میں تعمیرِ نو اور جمہوری سماج کے قیام کا ارادہ کر رہا تھا، جس پرآگے چل کر اس نے عمل کرنے کی کوشش کی‘ لیکن کئی سال بعد بھی امریکہ کو افغانستان میں تعمیر نو اور جمہوریت کے قیام میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس طرح دنیا میں امریکی فوجی مداخلت کے ذریعے تبدیلی لانے کے عمل میں ناکامی کی شرح تقریباً چھیاسی فیصد سے زیادہ ہوگئی۔ اس ناکام تجربے سے بے شمار اسباق سیکھے جا سکتے ہیں۔ سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ کسی ملک میں مداخلت سے پہلے اس ملک کی تاریخ، ثقافت اور اقدار کا علم اور جائزہ ضروری ہے۔ امریکہ ان عناصر کو پس منظر کے طور پر تسلیم کرتا رہا، جبکہ ضرورت اس امر کی تھی کہ ان عناصر کو جنگ کے دوران اور بعد کی تعمیرنو میں ایک اہم ترین اور فیصلہ کن عنصر کے طور پرلیا جاتا‘ جس سے یہ طے کرنے میں آسانی ہوتی کہ افغانستان جیسی تاریخ، کلچر اور اقدار رکھنے والے ملک میں جمہوری روایات کے مطابق حکومت کی تشکیل کا کون سا طریقہ کار آمد ثابت ہوسکتا ہے۔ دوسرا یہ کہ افغانستان میں جو کچھ ہوا اس کی وجہ امریکی انٹیلی جنس کی ناکامی نہیں تھی یا اس کو امریکیوں کی جہالت قرار نہیں دیا جا سکتا، بلکہ اس کی وجہ فوجی اور سیاسی لیڈروں کی طرف سے حقائق تسلیم کرنے سے انکار تھا۔ وہ صرف وہی بات سنتے تھے، جو وہ سننا چاہتے تھے۔ اس صورتحال کا جائزہ صدر اوبامہ نے اپنی خودنوشت میں لیا ہے۔ اپنی صدارت کے دوران انہوں نے افغانستان میں امریکی حکمت عملی کا جائزہ لینے کیلئے دوماہ پر محیط ایک جائزے کا بندوبست کیا تھا۔ اوباما نے لکھا ہے کہ اس سٹڈی سے ایک چیز واضح ہوگئی کہ ہماری کوششیں رائیگاں جا سکتی ہیں، اگر طالبان کو پناہ کی سہولیات حاصل ہیں۔ اس سبق کا فائدہ ہوتا اگر امریکہ افغانستان کی تعمیر نو اور ''نیشن بلڈنگ‘‘ کا منصوبہ ترک کردیتا۔ تیسرا سبق طریقہ کار سے متعلق تھا۔ امریکیوں کو کامیابی کیلئے صرف فوج پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیے تھا۔ فوج کا کام اس مشن کو پورا کرنا ہوتا ہے، جو اس کودیا جاتا ہے۔ جب مشن کا آغاز ہو چکا ہو تو درمیان میں فوجی لیڈرشپ مشکلات کا اظہار کر سکتی ہے‘ زیادہ وسائل اور اسلحے کا مطالبہ کر سکتی ہے‘ لیکن وہ مشن کے درست یا غلط ہونے کے بارے میں بات نہیں کرسکتی۔ یہ سیاستدانوں اور پارلیمنٹ کا کام ہوتا ہے۔ اس طرح جاری مشن کی تکمیل یا اس میں تبدیلی کیلئے امریکی صدر کسی مقام پر فوجی قیادت کی بات ماننے سے انکار کر سکتا ہے۔ اس کی حالیہ مثال جو بائیڈن کا انخلا کا فیصلہ تھا۔ انہوں نے کچھ جنرلوں کے مشورے کے باوجود افغانستان سے فوجیں نکالنے کا عمل مکمل کیا۔ یہی کام اس سے پہلے صدر اوبامہ اور ٹرمپ فوجی قیادت کے مشورے پر مؤخر کر چکے تھے۔ جنگ کی تباہ کاریوں کے بعد افغانستان کی ایک جدید جمہوری ملک کے طور پر تعمیر ایک نوبل سوچ تھی‘ لیکن عملی طور پر اس مقصد کیلئے جو بندوبست کیے جاتے رہے، وہ زیادہ تر فوجی طاقت کے ذریعے بروئے کار آتے رہے، ان کا جمہوریت اور عوام سے وہ تعلق استوار نہ ہوا، جس کی ضرورت تھی۔ اس طرح جمہوریت کے نام پر بدعنوان لوگوں کے گروہ مسلط ہوتے رہے، جو اپنی بقا کیلئے عوام کے بجائے امریکی سکیورٹی فورسز کے مرہون منت تھے۔