'تیسری عالمی جنگ کسی وقت بھی چھڑ سکتی ہے‘ یہ بات حال ہی میں چین کے ایک معتبر سرکاری اخبار گلوبل ٹائمز کے ایک آرٹیکل میں لکھی گئی ہے۔ یہ صرف ایک اخبار کی بات ہی نہیں، جنگ کی باتوں کی بازگشت چین کے فیصلہ ساز اداروں میں بھی عام ہے۔ حالیہ برسوں میں چین اور امریکہ کے مابین کشیدگی میں سخت اضافہ ہوا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک اسے دھیمے لہجے میں سرد جنگ کہا جاتا تھا مگر اب اسے تیسری عالمی جنگ کہا جا رہا ہے۔
صرف چند برس قبل چین ترقی کی عالمی دوڑ اور عالمی سپر پاور کا درجہ لینے کی خواہش میں ہوا میں اڑ رہا تھا۔ اس کی معیشت تمام اندازوں سے زیادہ ترقی کر رہی تھی۔ دنیا میں روڈ اینڈ بیلٹ منصوبوں کا شہرہ تھا۔ فوجی اعتبار سے کامیابیوں کا یہ عالم تھا کہ وہ افریقہ میں اپنے فوجی اڈے بنانے کا اعلان کر رہا تھا۔ دوسری طرف صدر ٹرمپ چین کے راستے آسان کر رہا تھا۔ چین صدر ٹرمپ کے ''پروڈکشنسٹ‘‘ منصوبوں کا مذاق اڑا رہا تھا اور اس کو ایسی پالیسی قرار دے رہا تھا جس میں خود کو تاریک کمرے میں بند کرکے تالا لگا دیا جائے۔ دنیا میں چین کی ساکھ میں تیزی سے اضافہ ہو رہا تھا اور دنیا چین کو ایک نئی ابھرتی ہوئی سپر پاور کے طور پر دیکھ رہی تھی‘ لیکن گزشتہ کچھ عرصے سے صورتحال مکمل طور پر بدل گئی ہے۔ چین کو دنیا میں ایک سخت قسم کے مخالفانہ رد عمل کا سامنا ہے۔ ترقی یافتہ دنیا کی رائے عامہ میں چین کے خلاف منفی تصور میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس سلسلے میں ایک قابل اعتبار سروے کے ذریعے چین کے بارے میں سویڈن اور امریکہ سمیت دیگر مغربی ممالک کی رائے عامہ کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس سروے کے مطابق حالیہ چند برسوں میں ان ممالک میں چین کے خلاف منفی تاثرات میں حیرت انگیز اضافہ ہوا ہے۔ صدر ٹرمپ کے زمانے میں چین نے مغرب میں بڑے پیمانے پر نیک نامی حاصل کرلی تھی، اب وہاں یہ عالم ہے کہ یورپی یونین میں چین کو آفیشل سطح پر دشمن قرار دیا جا رہا ہے‘ اور نیٹو کے ممبران مشترکہ طور پر چین کا مقابلہ کرنے کی تیاری پر بحث کر رہے ہیں۔ دوسری طرف امریکہ، آسٹریلیا، انڈیا اور جاپان چین کے خلاف اتحاد کو مزید مضبوط بنیادوں پر منظم کر رہے ہیں۔ ابھی حال ہی میں امریکہ اور برطانیہ نے چین کا مقابلہ کرنے کے لیے آسٹریلیا کو نیوکلیئر ٹیکنالوجی منتقل کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔ یہ دنیا میں چین کے لیے ایک مخالفانہ ماحول ہے‘ لیکن اس کے باوجود ابھی تک چین نے اپنی پالیسیوں میں کسی قسم کی تبدیلی کا کوئی عندیہ نہیں دیا، جو یہ پیغام ہے کہ چین کی جو پالیسیاں ہیں، وہ اپنی جگہ درست ہیں، اور مغرب کو ان پالیسیوں کے ساتھ سمجھوتا کرنا پڑے گا۔ مغرب میں چین پر یہ الزامات عام ہیں کہ اس نے ہانک کانگ میں انسانی حقوق کے کارکنوں پر سخت قسم کی پابندیاں عائد کی ہیں۔ چین کی متنازع صنعتی پالیسیوں اور کورونا وائرس کے دوران اس کا کردار بھی سخت تنقید کا نشانہ ہے۔ اس کے جواب میں کوئی لچک دکھانے کے بجائے چین کا لب ولہجہ سخت ہو رہا ہے۔ سفارتی سطح پر سفارتکار ایک طرح کے ''وولف واریئرز‘‘ کا کردار ادا کر رہے ہیں، جس میں وہ مصلحت آمیز رویے کے بجائے تصادم کا لہجہ اختیار کر رہے ہیں۔ مارچ 2020 میں چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے یہ کہا تھا کہ دنیا میں جو وائرس پھیلا ہے، اس کا آغاز امریکی کھلاڑیوں کی چینی شہر ووہان آمد کے بعد ہوا۔ آسٹریلیا کے خلاف عالمی مہم میں چینی سفارت کاروں نے وہ تصاویر بھی سوشل میڈیا پر شیئر کی ہیں، جن میں میں ایک آسٹریلین فوجی افغان بچے کے گلے پہ چاقو رکھے ہوئے دکھائی دیتا ہے۔ یورپ میں یہ لڑائی اس حد تک پہنچی ہے کہ برٹش پارلیمنٹ میں چین کے ایمبیسیڈر کے داخلے پر پابندی لگائی گئی۔ مارچ میں امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے دوران چین کی اعلیٰ سطح کی سفارت کار نے اپنے امریکی ہم منصب کو یہ طعنہ دیا کہ وہ امریکہ میں سیاہ فام لوگوں کے تحفظ میں ناکام ہو چکے ہیں۔ صدر شی بھی چین دنیا کے سٹیج پر چین کا جارحانہ امیج دکھانے کے حامی رہے ہیں۔ صدر بننے سے پہلے انہوں نے کہا تھا کہ دنیا میں جن لوگوں کے پیٹ بھرے ہوئے ہیں، ان کے پاس چین کے ریکارڈ پر انگلی اٹھانے سے بہتر کام نہیں ہے؟ صدر بننے کے بعد انہوں ان اقدامات پر زور دیا جن کے سہارے چین دنیا میں اپنا کھویا ہوا جائز مقام واپس لے سکے۔ انہوں نے چینی سفارت کاروں پر ہمیشہ زور دیا کہ وہ زیادہ جارحانہ رویہ اختیار کریں اور اپنے اندر ''فائٹنگ سپرٹ‘‘ پیدا کریں۔
یہ فاَئٹنگ سپرٹ پیدا کرنے کے لیے خود چینی سفارت کاروں پر سختی کی گئی۔ اندرونی یادداشتوں اور نوٹسز کے ذریعے چینی سفارت کاروں کو ماضی کے وہ نا گفتہ بہ حالات یاد دلائے گئے، جن سے ان کو ثقافتی انقلاب کے دوران گزرنا پڑا تھا۔ ان کے سامنے ملک اور پارٹی کے ساتھ وفاداری کے بارے میں مختلف قسم کے سوالات رکھے گئے۔ کسی چینی سفارتکار کا کسی غیر ملکی سے اکیلے نہ ملنے کی پرانی پالیسی کو دوبارہ لایا گیا۔ اس سخت پالیسی کے ذریعے سفارت کاروں کو ثقافتی انقلاب کا زمانہ یاد دلا دیا گیا۔ ثقافتی انقلاب کے دوران کئی سفیروں کو جیلوں میں بند کیا گیا تھا۔ ان کو ٹوائلٹ صاف کرنے پر مجبور کیا گیا تھا‘ یہاں تک کہ چند ایک پر تشدد بھی کیا گیا۔ کچھ کو سزا کے طور پر دور دراز کے دیہی کیمپوں میں ''ری ایجوکیشن‘‘ یعنی دوبارہ تعلیم کے لیے بھیجا گیا تھا۔
چین کی اس پالیسی سے اس چیز کا اظہار ہوتا ہے کہ وہ اپنی سفارتی پالیسیوں میں کسی قسم کی تبدیلی ضروری نہیں سمجھتا‘ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ ہانگ کانگ اور تائیوان پر کوئی بات کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔ اس طرح وہ ہمالیہ سے لے کر جنوبی چینی سمندر تک پائے جانے والے علاقائی تنازعات پر کسی قسم کا سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس پالیسی کی موجودگی میں چینی سفارت کاروں کے لیے مخالفانہ عالمی ماحول میں کسی قسم کی کامیابی کے امکانات ختم ہو جاتے ہیں‘ لیکن یہ بات نہیں ہے کہ چین کے اندر اس عالمی منفی ماحول کو محسوس نہیں کیا گیا۔ چند سال پہلے چین کے مشہور لیڈر ڈینگ ژیائو پینگ کے بیٹے نے خبردار کیا تھا کہ چین کو اپنے مقام پہچاننا چاہیے اور اس کے لیے ایک ٹھنڈے دماغ کی ضرورت ہے۔ اس طرح کی وارننگ دینے والوں میں چین کا ایک تھنک ٹینک بھی شامل ہے، جس نے خبردار کیا تھا کہ 1998 کے تینامن سکوئر کے واقعے کے بعد دنیا میں چین کے خلاف منفی تصورات اپنے عروج پر ہیں۔ حال ہی میں چین کے سان فرانسسکو میں کونسلر جنرل نے بھی اس طرح کے خیالات کا اظہارکیا اور کہا کہ فارن پالیسی میں چین کے اندر فروغ پانے والے جذبات نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ اس بات کا اعتراف خود صدر شی نے بھی کیا ہے۔ انہوں نے ایک اجلاس میں اس بات پر زور دیا کہ ہم نے دنیا میں اپنا ایک اچھا تصور بنانے کی ضرورت پر زور تو دیا ہے، لیکن تاحال ان پالیسیوں میں تبدیلی کا کوئی عندیہ نہیں دیا جو اچھا امیج پیدا کرنے میں معاون ثابت ہو سکتی ہوں‘ اور دنیا کو سرد جنگ یا تیسری عالمی جنگ کے خوف سے نکال سکتی ہوں۔