''ہم نے تاریخ کے خلاف اعلانِ جنگ نہیں کیا ہے۔ ہم ترمیم پسند نہیں ہیں اور تاریخ بدلنے کا مطالبہ نہیں کر رہے۔ ہم تو صرف یہ بات یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ عوام کو پوری کہانی سنائی جائے۔ ادھوری داستان نہ بیان کی جائے۔ آدھا سچ نہ بولا جائے، بلکہ عوام کو پورا سچ بتایا جائے‘‘۔ یہ الفاظ ہیں نیویارک سٹی کے میئر کے، جو انہوں نے امریکہ کے سابق صدر تھامس جیفرسن کا مجسمہ سٹی ہال کے سامنے سے ہٹانے کی حمایت کرتے ہوئے کہے۔ مغرب میں کافی عرصے سے تاریخ کے مختلف ادوار میں سفید فام لوگوں کی طرف سے سیاہ فام لوگوں پر کیے گئے ظلم اور امتیازی سلوک کے خلاف بات ہو رہی ہے۔ اس تناظر میں تاریخ کے اوراق دوبارہ پلٹے جا رہے ہیں۔ سچ کو جھوٹ سے الگ کیا جا رہا ہے۔
مظالم کی یہ داستان اس زمانے کی بات ہے، جب مغرب میں وسیع پیمانے پر غلاموں کی تجارت ہوتی تھی۔ سیاہ فام غلاموں کو خریدا جاتا تھا اور ان کو مغرب میں گھریلو مشقت سے لے کر جاگیروں پر کھیتی باڑی اور کھیت مزدوری کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ ان کا جنسی اور جسمانی استحصال کیا جاتا تھا۔ یہ غلامی نسل در نسل منتقل ہوتی تھی۔ یہ لوگ ہر طرح کے انسانی حقوق سے محروم تھے۔ ان کے ساتھ جانوروں سے بھی بد تر اور وحشیانہ سلوک کیا جاتا تھا۔ اس وقت مختلف مغربی ممالک میں جو غلام خرید کر لائے جاتے تھے، ان کے ساتھ ہونے والے ناقابل بیان اور خوفناک سلوک کی بے شمار کہانیاں زبان زد عام ہیں۔
ان میں عام لوگوں کی کہانیاں بھی ہیں، جنہوں نے ان پسے ہوئے اور مظلوم طبقات کے ساتھ ناروا سلوک کیا‘ لیکن اس وقت زیادہ تر موضوع بحث ان لوگوں کی کہانیاں ہیں، جو اس وقت کی مغربی سماج میں وقت کے حساب سے طاقتور اور بااثر لوگ تھے، اور اس وجہ سے ممتاز مقام رکھتے تھے۔ ان میں بڑے بڑے جاگیردار، با اثر زمیندار، فوجی آفیسرز، سیاست دان، سرکاری اہل کار اور زندگی کے دوسرے شعبوں میں سرکار کے خطاب یافتہ اور انعام یافتہ افراد شامل تھے۔ انہوں نے غلاموں کے نفع بخش کاروبار سے اپنی قسمتیں بدل لیں اور ان کے استحصال سے حاصل ہونے والی دولت کو سماجی رتبے، اور سیاسی فائدے کے لیے استعمال کیا۔ ان میں کئی لوگ آگے چل کر مختلف مغربی ممالک کے صدور اور وزرائے اعظم بنے۔ ان کو کئی ایک ممالک میں بہت اعلیٰ رتبہ اور سیاسی مقام دیا گیا۔ ان کو قومی ہیرو اور نجات دہندہ قرار دیا گیا۔ ان کے نام کی یاد گاریں تعمیر کی گئی۔ شہروں میں ان کے پتلے نصب کیے گئے۔ یوں تاریخ میں ان کو بہت بڑا مقام دیا گیا۔
اکیسویں صدی کی ابتدا میں دنیا میں علم، اور تاریخ کے شعور کے حوالے سے بہت بڑی تبدیلی آئی۔ سچ جاننے اور سچ بتانے کے نئے رجحانات فروغ پذیر ہوئے۔ اس طرح غلاموں سے جڑے کاروبار کا بھی جائزہ لیا گیا۔ تاریخ کو ایک نئے زاویے سے دیکھا گیا، جس کی روشنی میں یہ نظریہ سامنے آیا کہ ان لوگوں نے جس طرح کے سیاہ کارنامے سر انجام دیے تھے، ان کی روشنی میں ان کو ہیرو کا درجہ دینے کے بجائے سزائے موت دی جانی چاہیے تھی۔ سیاہ فاموں کے ساتھ جو نسل پرستی کا ظالمانہ سلوک انہوں نے روا رکھا، اس کی تفصیلات کی روشنی میں یہ مطالبہ کیا جانے لگا کہ ان لوگوں کے پتلے پبلک مقامات سے ہٹائے جائیں۔ اس مطالبے کو بہت پذیرائی ملی۔ سیاہ فاموں کے علاوہ سفید فام لوگوں کی ایک بڑی اکثریت نے اس مطالبے کی حمایت کی۔ اب کچھ عرصے سے اس سوچ کے زیر اثر مختلف مغربی ممالک سے ان لوگوں کے مجسمے اٹھائے جا رہے ہیں، جو کسی نہ کسی طرح اس نسل پرستی اور ظلم میں حصہ دار تھے۔
ماضی قریب میں یورپ کے کچھ ممالک میں یہ مجسمے اٹھائے گئے ہیں۔ کینیڈا کے ایک سابق وزیر اعظم اور دوسری تاریخی شخصیات کے مجسمے ہٹانے پر اتفاق کیا گیا ہے۔ ابھی حال ہی میں امریکہ کی ایک مشہور تاریخی شخصیت اور تیسرے صدر تھامس جیفرسن کا پتلا ہٹانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں نیو یارک سٹی کونسل کے ایک کمیشن نے با ضابطہ طور پر متفقہ ووٹ کے ذریعے یہ اعلان کیا کہ اس سال کے آخر تک سٹی ہال کے سامنے نصب تھامس جیفرسن کا مجسمہ ہٹا لیا جائے۔ تھامس جیفرسن پر غلاموں کی خرید و فروخت اور ان پر ظلم و تشدد روا رکھنے کا الزام ہے۔ سٹی کونسل نے اعلان کیا ہے کہ رواں سال کے آخر تک اس کا مجسمہ ہٹا دیا جائے گا۔ نسل پرستی اور اس سے جڑے ظلم کے خلاف یہ عوامی رد عمل کی ابتدا ہے اور اس وقت امریکا اور کینیڈا کے کئی شہروں میں کچھ اس طرح کے مجسمے موجود ہیں، جن کو کسی نہ کسی شکل میں تاریخی حیثیت دے کر مختلف نمایاں جگہوں پر نصب کیا گیا ہے۔ اس کی روشنی میں اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مستقبل میں بہت سارے ایسے واقعات رونما ہوں گے۔
ظاہر ہے تاریخ میں جس نا انصافی سے کام لیا گیا، اور جس طرح کے ظالمانہ اور وحشیانہ اقدامات کیے جا چکے ہیں‘ اب تاریخ میں واپس جا کر ان کو درست نہیں کیا جا سکتا، اور جو لوگ ان کے ظلم و جبر اور نا انصافی کا شکار ہوئے ہیں، ان کے دکھوں کا بھی مداوا ممکن نہیں ہے‘ لیکن یہ تاریخ کی درستی کا ناگزیر عمل ہے۔
ہم لوگ اس مغربی معاشرے کی نسبت مختلف قسم کے تجربات سے گزرے ہیں، اور ہو سکتا ہے کہ ہمارے ہاں نسل پرستی اور غلاموں کی تجارت کے حوالے سے اس طرح کے تاریخی واقعات رونما نہ ہوئے ہوں لیکن ہماری تاریخ میں دوسرے بہت سارے واقعات ہیں، جو اس طرح کی درستی کے متقاضی ہیں۔ ان میں نوآبادیاتی نظام کے دوران ان لوگوں کا کردار ہے، جنہوں نے نوآبادیاتی قوتوں کے ساتھ مل کر مقامی آبادیوں پر ظلم و تشدد کیا، یا ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو آج ہماری تاریخ کی بہت ہی مقتدر ہستیوں میں شمار ہوتے ہیں، اگرچہ ان کے کہیں مجسمے نصب نہ بھی ہوں، لیکن تاریخ کی کتابوں میں ان کو بطور ہیرو پیش کیا جاتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے کئی طریقوں سے نوآبادیاتی قوتوں کے ظلم و تشدد کو قوت بخشی ہے۔ ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں، جنہوں نے نوآبادیاتی قوتوں اور ان کی فوج کے شانہ بشانہ مقامی لوگوں کے قتل عام میں حصہ لیا۔ وہ لوگ بھی شامل ہیں، جنہوں نے نوآبادیاتی تسلط کو طوالت بخشنے کے لیے مقامی لوگوں کو جبرکا نشانہ بنایا‘ اور ان خدمات کی عوض ان کو بہت بڑی بڑی جاگیریں اور وسیع و عریض زمینیں عطا ہوئیں۔ ان کو خطابات اور اعزازات سے نوازا گیا۔ ان لوگوں میں سے کچھ اس پس منظر اور اس دولت و رسوخ کی وجہ سے آج بھی سماج کے اندر ممتاز مقام رکھتے ہیں‘ اور اپنے اس مقام کی وجہ سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اگرچہ ہمارے ہاں ان لوگوں کے مجسمے اور یادگاریں موجود نہیں ہیں، جن کو ہٹایا جا سکے، لیکن تاریخ کے اندر جو خاص مقام ان کو بخشا گیا، اس میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ یہاں بھی پورا سچ اور پوری تاریخ عوام کے سامنے لانا ضروری ہے۔