گزشتہ کالم میں عرض کیا تھا کہ پنڈت نہرو نے اکتوبر انیس سو انچاس میں امریکہ کا دورہ کیا تھا۔ اس دورے کو امریکی پریس اور سرکاری حلقوں میں بہت زیادہ اہمیت دی گئی۔ تین ہفتے کے اس دورے کے دوران پنڈت نہرو نے ایوان نمائندگان اور کانگرس سے الگ الگ خطاب کیا۔ امریکی پریس اور امریکہ کے طاقتور حلقوں نے یہ تاثر دیاکہ پنڈت نہرو کی قیادت میں بھارت عالمی سیاست میں ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ اس دورے کے دوران نہرو نے یہ بات بار بار دہرائی کہ میں امریکیوں کے دل و دماغ کو سمجھنے کیلئے اور امریکیوں کے سامنے اپنا دل اور دماغ رکھنے کیلئے اس سفر پر آیا ہوں۔ کشمیر اس وقت پاکستان اور بھارت کے مابین ایک بہت بڑا مسئلہ تھا، لیکن نہرو اور صدر ہیری ٹرومین‘ دونوں نے کھلے عام اس مسئلے پر بات کرنے سے اجتناب کیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ امریکہ انتظامیہ مسئلہ کشمیر پر غیرجانبدار رہنے کا تاثر برقرار رکھنا چاہتی تھی۔ امریکہ نے یہ تاثر وزیر اعظم پاکستان لیاقت علی خان کے دورے کے دوران بھی برقرار رکھا۔ انہوں نے یہ دورہ تین مئی تا چھبیس مئی 1950کو کیا تھا۔ واشنگٹن میں اس دورے کو اس قدر اہمیت دی گئی کہ صدر ہیری ٹرومین نے لندن سے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو واشنگٹن لانے کیلئے اپنا ذاتی طیارہ روانہ کیا۔ لیاقت علی خان جب واشنگٹن ڈی سی پہنچے تو ان کے استقبال کیلئے ہیری ٹرومین بذات خود اپنی پوری کابینہ سمیت موجود تھے۔ ان کے اعزاز میں نیو یارک شہر میں پریڈ ہوئی۔ انہوں نے ایوان نمائندگان اور کانگرس سے بھی خطاب کیا۔
مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اس وقت بھی امریکہ کا خیال تھاکہ دولت مشترکہ امریکہ کے تعاون سے یہ مسئلہ حل کرسکتی ہے۔ دوسری طرف پاکستان اور بھارت نے انیس سو پچاس کے شروع میں اس بات پر اتفاق کرلیا تھا کہ کشمیر کا مسئلہ وہاں رہنے والے لوگوں کی مرضی سے حل کیا جانا چاہیے؛ البتہ وہاں کے لوگوں کی آزادانہ مرضی کے تعین کیلئے استصواب رائے کی شرائط پر دونوں میں شدید اختلاف تھا۔ ہیری ٹرومین اور اس کی انتظامیہ کے ایما پر جنوری انیس سو پچاس میں جنوبی ایشیا کے امور کے اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ جارج میک گی نے مسئلہ کشمیر پر سرگرم کردار ادا کرنا شروع کیا۔ انہوں نے سیکرٹری آف سٹیٹ ڈین ایچیسن کو قائل کرلیا کہ وہ برطانوی خارجہ سیکرٹری ارنسٹ بیون کو مسئلہ کشمیر پر خط لکھیں۔ ایچیسن نے اپنے خط میں لکھا: کوئی یہ سوچ بھی نہیں سکتاکہ دولت مشترکہ کے دو ممبران کشمیر میں ریفرنڈم کے بنیادی اصول پر اتفاق کرنے کے بعد محض طریقہ کار کی تفصیلات میں الجھ کر اختلافات کا شکار ہو سکتے ہیں۔ جس وقت ایچیسن یہ خط لکھ رہا تھا اس وقت سری لنکا کے دارالحکومت کولمبو میں دولت مشترکہ کی کانفرنس ہورہی تھی۔ امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ نے برطانیہ کو لکھا کہ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ فریقین کے ساتھ تفصیلی تبادلہ خیال کرے۔ کولمبو کانفرنس سے کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہو سکا؛ تاہم ایک ماہ بعد ایچیسن نے دوبارہ بیون سے کہا کہ وہ اس مسئلے کے حل کیلئے کوشش کریں۔ ایچیسن نے امید ظاہرکی کہ برطانیہ دولت مشترکہ کا سنیئر ممبر ہونے کے ناتے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے ضروری رہنمائی مہیا کر سکتا ہے۔ انیس سو پچاس کے مارچ میں واشنگٹن میں برطانوی ایمبیسیڈر نے گیند واپس امریکی کورٹ میں پھینکنے کی کوشش کی۔ اس نے برطانیہ کے دفتر خارجہ کی طرف سے یہ تجویز پیش کی کہ جارج مارشل جیسا ممتاز امریکی کشمیر پر اقوام متحدہ کی ثالثی کی سربراہی کر سکتا ہے۔ جواب میں ایچیسن نے لکھا کہ امریکہ کے پاس صرف ایک جارج مارشل ہے اور وہ اس وقت دستیاب نہیں ہے۔ مسئلہ کشمیر پر امریکی اور برطانوی گفت و شنید جاری تھی کہ ایک ایسا واقعہ ہوا جس نے حالات کا رخ بدل کر رکھ دیا۔
یہ واقعہ جون انیس سو پچاس میں شمالی کوریا کی طرف سے جنوبی کوریا پر حملہ تھا۔ اس حملے نے ہیری ٹرومین اور ان کی انتظامیہ کی ساری توجہ اس طرف مبذول کرا لی۔ اس کے باوجود مسئلہ کشمیر کو منظرعام سے بالکل ہی غائب نہیں کیا جا سکا۔ ستمبر کے آخر میں برطانوی وزارت خارجہ اور دولت مشترکہ کے اہلکاروں سے بات کرتے ہوئے جارج میک گی نے اصرار کیا کہ برطانیہ دولت مشترکہ کے ذریعے اس مسئلے کو حل کر سکتا ہے۔ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے میک گی اس دفعہ پاکستان اور بھارت کے لیے ایک بہت بڑی اور اہم پیشکش لے کر آیا تھا۔ اس نے تجویز دی کہ اگر مسئلہ کشمیر حل ہو جاتا ہے تو اس سے پاکستان اور بھارت کے مابین مشترکہ دفاع کا راستہ ہموار ہو سکتا ہے، جس میں خطے کے کچھ اور ممالک بھی شامل ہو سکتے ہیں۔ مسئلہ کشمیر کا حل پاکستان اور بھارت کی فوجوں کو اس تنازع سے ہٹا کر جنوبی ایشیا میں کسی بڑے فوجی اتحاد میں لا سکتا ہے۔ اس تجویز پر ابھی غوروفکر جاری تھا کہ نومبر انیس سو پچاس کے آخر میں کوریا میں چین کی مداخلت نے صورتحال بدل کر رکھ دی۔ اس وقت تک امریکی خطے میں کمیونزم کی روک تھام کے لیے مقامی اتحادیوں کی تلاش میں تھے، اور وہ جنوبی ایشیا میں برطانیہ کے ساتھ مل کر کام کرنے پر زور دیتے تھے، لیکن اس سے آگے انہوں نے ایک براہ راست اور سرگرم کردار کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا۔ ان کو یہ احساس ہونا شروع ہوا کہ مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے لیے دولت مشترکہ پر انحصار نہیں کیا جا سکتا‘ اور جب تک مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوجاتا پاکستان اور بھارت کے مابین کسی قسم کا تعاون یا اشتراک عمل ناممکن ہے۔
انیس سو اکیاون کے شروع میں امریکیوں نے جنوبی ایشیا پر اپنی پالیسی کا از سر نو جائزہ لینا شروع کیا، جس کے نتیجے میں ایک تفصیلی رپورٹ سامنے آئی۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ بدلتے ہوئے حالات میں جنوبی ایشیا کی اہمیت میں اضافہ ہوا ہے، اور امریکہ کو جنوبی ایشیا کے ممالک کو اپنے ساتھ چلانے کے لیے زیادہ سرگرمی دکھانا ہو گی۔
اس رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکیوں نے اس بات کا احساس کر لیا کہ سرد جنگ بالآخر برصغیر میں پہنچ رہی ہے‘ اور اس خطے میں برطانیہ پر انحصار کے بجائے براہ راست عمل کی ضرورت ہے۔ رپورٹ کی روشنی میں میک گی نے سیلون اور نیو دہلی کا دورہ کیا۔ نیو دہلی میں اس نے پاکستان و بھارت کے مشترکہ دفاع کا تصور پیش کیا۔ اس کا خیال تھا کہ اگر نہرو نے یہ تصور تسلیم کیا تو بہت اچھا‘ ورنہ امریکہ پاکستان کی طرف دیکھے گا۔ سیلون کانفرنس میں امریکی نمائندوں نے اتفاق کیا کہ پاکستانی زیادہ حقیقت پسند ہیں اور کمیونزم کے خطرے سے بھارت کی نسبت زیادہ آگاہ اور حساس ہیں؛ چنانچہ سیلون کانفرنس میں یہ سفارش کی گئی کہ پاکستان کے ساتھ فوجی تعاون اور امداد کا آغاز کیا جائے۔ ادھر نیو دہلی میں نہرو نے حسب توقع مشترکہ دفاع کی تجاویز مسترد کر دیں‘ اور اس بات کا اعادہ کیا کہ قطع نظر اس بات کے کہ دولت مشترکہ کیا کرتی ہے، بھارت اپنی خارجہ پالیسی اپنی روایات کی روشنی میں ہی بنائے گا۔ میک گی جب نیو دہلی سے روانہ ہوا تو وہ قائل ہو چکا تھا کہ بھارت سے کوئی امید نہیں رکھی جا سکتی۔ ان حالات میں امریکیوں نے یہ فیصلہ کیا برصغیر میں کوئی بھی اتحادی نہ ہونے سے کم از کم ایک اتحادی ہونا بہتر ہے۔ اس فیصلے نے مسئلہ کشمیر پر امریکی پالیسی بدل کر رکھ دی، جس کا تفصیلی جائزہ کسی آئندہ کالم میں لیا جائے گا۔