گزشتہ کالم میں عرض کیا تھا کہ پچاس کی دہائی میں پاکستان تین سال کے مختصر عرصے میں مغرب اور خصوصاً ریاستہائے متحدہ امریکہ کا سب سے بڑا فوجی اتحادی بن چکا تھا۔ امریکہ کے ساتھ براہ راست فوجی معاہدے کے علاوہ وہ سوویت یونین کے خلاف اس وقت کے دو بڑے عالمی فوجی اتحادوں یعنی سیٹو اور بغداد پیکٹ میں بھی شامل ہو چکا تھا‘ لہٰذا قدرتی طور پر اس وقت کے دانشور حلقوں میں سب بڑا سوال یہ تھا کہ کیا ان معاہدوں میں شمولیت کے بعد بھارت کے مقابلے میں پاکستان کیلئے مسئلہ کشمیر اور دیگر امور پر مغربی حمایت یا تعاون میں کوئی قابل ذکر اضافہ ہوا تھا؟ دانشوروں کا خیال ہے کہ ایسا ہرگز نہیں تھا۔ ان اتحادوں میں شمولیت سے پاکستان نے خود کو سرد جنگ کا حصہ بنا کر عالمی خطرات کے سامنے ایکسپوز تو ضرور کر دیا تھا، لیکن اس کے بدلے میں پاکستان کو بھارت کے مقابلے میں مغربی طاقتوں کا کوئی قابل ذکر تعاون یا حمایت حاصل نہیں ہوئی تھی۔ اس بات کا اندازہ امریکی صدر آئزن ہاورکے ایک خط سے ہوتا ہے، جو انہوں نے پچیس فروری انیس سو چوّن کو بھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کے نام لکھا تھا۔ یہ خط امریکہ کا پاکستان سے فوجی معاہدہ کرنے سے چند ماہ پہلے لکھا گیا تھا۔ اس خط میں صدر لکھتے ہیں:
مائی ڈیئر وزیراعظم، میں آپ کو یہ ذاتی پیغام اس لیے بھیج رہا ہوں کہ میں آپ کو پاکستان کو فوجی امداد دینے کے اپنے فیصلے کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں، اس سے پہلے کہ آپ کو یہ بات اور ذرائع سے معلوم ہو‘ میں چاہتا ہوں کہ میں آپ کو براہ راست یہ بات بتائوں کہ میرے اس اقدام سے ہمارے ان دوستانہ جذبات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، جو ہم بھارت کے بارے میں رکھتے ہیں۔ ہمارے دونوں ممالک کی حکومتوں نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ ہم امن کے قیام کی مشترکہ خواہش رکھتے ہیں۔ ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ ہمارے درمیان موجودہ حالات میں، کچھ مقاصد کے حصول کے سلسلے میں اختلاف رائے ہو سکتا ہے، اور خود مختار ممالک کی حیثیت سے یہ ہمارا حق اور فرض ہے کہ ہم اپنے فیصلے خود کریں۔ مشرق وسطیٰ میں ممکنہ جارحیت اور کارروائیوں پر طویل غوروخوض کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ مشرق وسطیٰ میں ترکی اور پاکستان کے مابین تعاون نہ صرف ترکی اور پاکستان کیلئے سودمند ہوگا، بلکہ یہ مجموعی طور پر آزاد دنیا کیلئے بھی فائدہ مند ثابت ہوگا۔ پاکستان کی فوجی صلاحیت میں اضافہ بھی آزاد دنیا کیلئے بے حد سودمند ہوگا، اس لیے میں نے پاکستان کو فوجی امداد دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ پاکستان کو فوجی امداد دینے کے میری حکومت کے خیالات کو ایک پبلک سٹیٹمنٹ میں بیان کیا گیا ہے، جو میں جاری کروں گا‘ اور ایمبیسیڈر ایلن اس کی ایک کاپی آپ کو دیں گے۔ جو تجاویز ہم دے رہے ہیں، اور جن کے ساتھ پاکستان اتفاق کر رہا ہے، یہ بھارت کے خلاف نہیں ہیں‘ اور میں کھلے عام اس بات کی تصدیق کررہا ہوں کہ اگر ہماری فوجی امداد کسی بھی ملک کی طرف سے غلط استعمال ہوتی ہے، جس میں پاکستان بھی شامل ہے، تو میں اس بات کی ذاتی ذمہ داری لیتا ہوں کہ میں اپنے آئینی اختیارات کے مطابق فوراً عمل کروں گا، اور اقوام متحدہ کے اندر یا اس سے باہر اس امداد کے غلط استعمال کے راستے کی رکاوٹ بنوں گا۔ میرے خیال میں ترکی اور پاکستان کے مابین یہ سمجھوتہ تمام مقاصد واضح کرتا ہے۔ مجھے علم ہے کہ آپ اور آپ کی حکومت بھارت کی معاشی ترقی کو استحکام کیلئے ضروری تصور کرتی ہے۔ میری حکومت اس مقصد کیلئے بھارت کو امداد کی پیشکش کر چکی ہے اور میں کانگریس سے معاشی اور تکنیکی امداد جاری رکھنے کی سفارش کرتا ہوں۔ ہمیں یہ بھی یقین ہے کہ بھارت کی فوجی اور دفاعی طاقت میں اضافہ آزاد دنیا کیلئے فائدہ مند ہے، اور ہم آپ کے اس سلسلے میں کیے گئے اقدامات کی ستائش کر چکے ہیں۔ اگر آپ کی حکومت کسی بھی وقت یہ محسوس کرے کہ خاص حالات میں آپ لوگوں کو ہمارے تعاون اور امداد کی ضرورت ہے، تو آپ ہم پر انحصار کر سکتے ہیں۔ مجھے افسوس ہے کہ اس موضوع پر بے بنیاد باتیں ہوتی رہی ہیں‘ اور اب جب حقائق معلوم ہو چکے ہیں تو مجھے یقین ہے کہ میرے فیصلے کی اہمیت کو سمجھا جائے گا۔ آپ کا مخلص آئزن ہاور۔
صدر آئزن ہاور نے پنڈت نہرو کو یقین دلایا کہ پاکستان کو امریکہ کی اس فوجی امداد کے غلط استعمال یا جارحیت کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہو گی‘ اور اگر بھارت کبھی ضرورت محسوس کرتا ہے تو اسے بھی یہ امداد مہیا کی جا سکتی ہے۔ صدر آئزن ہاور کی کوشش کے باوجود پنڈت نہرو کی ناراضی میں کوئی فرق نہیں آیا اور انہوں نے عالمی سطح پر پاکستان کو امریکی فوجی امداد دینے اور دوسرے معاہدوں میں اس کی شمولیت کی مخالفت جاری رکھی؛ تاہم اس مخالفت کے باوجود مئی انیس سو چوّن میں پاکستان نے امریکہ کے ساتھ معاہدے پر دستخط کر دیے۔ یہ دستخط کرنے کے فوراً بعد اس معاہدے کا سب سے بڑا اثر مسئلہ کشمیر پر پڑا۔
تب پاکستان اور بھارت گزشتہ دو سالوں کے دوران مسئلہ کشمیر پر بڑی سنجیدگی سے بات چیت کر رہے تھے، اور یہ بات چیت کافی آگے بڑھ چکی تھی۔ اگست انیس سو تریپن میں بھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو اور پاکستانی وزیر اعظم محمد علی بوگرہ کئی ماہ کے مسلسل مذاکرات کے بعد کشمیر کے مسئلے پر خاصی پیش رفت کر چکے تھے۔ اگست میں ایک مشترکہ ''کمیونیکے‘‘ میں دونوں وزرائے اعظم نے اتفاق کیا کہ کشمیر کا مسئلہ ریاستی عوام کی مرضی سے حل کیا جائے گا‘ اور عوام کی مرضی جاننے کا ایک ممکنہ طریقہ استصواب رائے ہے‘ بلکہ اس سے بھی ایک قدم آگے بڑھ کر دونوں وزرائے اعظم نے استصواب رائے کیلئے ایڈمنسٹریٹر کی تقرری پر اتفاق کرتے ہوئے اعلان کیا کہ اپریل انیس سے چوّن سے پہلے ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا جائے گا۔ یہ ایک بڑی پیشرفت اس لیے تھی کہ اس سے پہلے پاکستان اور بھارت استصواب رائے کیلئے ایڈمنسٹریٹر کے تقرر پر کبھی اتفاق نہیں کر سکے تھے۔ لیکن کشمیر پر مشترکہ اعلامیہ جاری ہونے کے کچھ عرصے بعد پنڈت نہرو کو یہ خبر مل گئی کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ دفاعی بندوبست میں شامل ہو رہا ہے۔ نہرو نے فوراً وزیر اعظم بوگرہ کو ایک ارجنٹ خط لکھا کہ اگر پاکستان اس معاہدے میں شامل ہوتا ہے تو کشمیر پر دونوں وزرائے اعظم کے مابین جو اتفاق رائے ہوا تھا وہ ختم ہو جائے گا۔ وزیر اعظم بوگرہ نے اس خط کے جواب میں یہ سوال اٹھایا کہ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ پاکستان کی طرف سے امریکہ سے فوجی امداد لینے سے کشمیریوں کے حق خود ارادیت پر کیا اثر پڑ سکتا ہے؟ دسمبر میں نہرو نے دوبارہ واضح کیا کہ وہ کشمیر پر جاری اعلامیے پر قائم نہیں رہ سکتے، چونکہ اب پورا تناظر ہی بدل چکا ہے۔ جولائی انیس سو پچپن میں جب دونوں وزرائے اعظم ملے تو یہ سمجھوتہ ختم ہو چکا تھا، اور دونوں کسی ایک بات پر بھی اتفاق نہ کر سکے۔ اس طرح یہ کہنا درست ہو گا کہ اس معاہدے کا سب سے بڑا شکار مسئلہ کشمیر ہوا، اور کشمیری عوام استصوابِ رائے کے بہت قریب پہنچ کر دور ہٹ گئے۔ دوسری طرف سوویت یونین نے بھی اپنا رد عمل دینا شروع کر دیا۔ اس وقت تک سوویت یونین کا موقف متوازن اور غیر جانبدارانہ تھا، لیکن اس کے بعد سوویت یونین نے مسئلہ کشمیر پر قراردادوں کو ویٹو کرنے کی پالیسی اپنا لی۔