انہی سطور میں پہلے کہیں عرض کیا تھا کہ پچاس کی دہائی کے اواخر میں امریکہ کی جنوبی ایشیا کے بارے میں پالیسی میں بڑی تبدیلی آئی۔ اس پالیسی کے تحت پاکستان اور بھارت‘ دونوں کو فوجی و مالی امداد دی گئی اور مسئلہ کشمیر کو باہمی گفت و شنید سے طے کرنے پر زور دیا گیا۔
اس پالیسی کا اظہار صدر آئزن ہاور کے ایک خط سے ہوتا ہے، جو انہوں نے مئی انیس سو اٹھاون میں بھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کو لکھا۔ اس خط میں پریذیڈنٹ آئزن ہاور نے پاکستان اور بھارت کے معاشی مسائل پر اپنی تشویش کا اظہار کیا‘ مگر اس کے ساتھ ساتھ دونوں ممالک کے اس عزم و ہمت کی تعریف کی، جس کے تحت وہ ان مسائل سے نبرد آزما ہو رہے تھے۔
انہوں نے لکھا کہ یہ بات میرے لیے بہت زیادہ تشویش کا باعث ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تنازعات ان کی ترقی کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہیں‘ اور دونوں ممالک ترقی اور معاشی خوشحالی کی قیمت پر اپنے اپنے دفاعی بجٹ میں اضافہ کر رہے ہیں۔ اس مسئلے پر اپنی گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے صدر نے لکھا کہ دونوں ممالک کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے باہمی تنازعات کا ایک ایسا حل تلاش کریں، جو دونوں کے لیے قابل قبول ہو۔ صدر نے پیشکش کی کہ اگر بھارت اتفاق کرے تو وہ اس مقصد کے لیے ایک نمائندہ خصوصی مقرر کرنے کے لیے تیار ہیں۔
اس خط کا جواب پنڈت جواہر لال نہرو نے سات جون انیس سو اٹھاون کو دیا۔ پنڈت نہرو نے لکھا: ڈیئر مسٹر پریذیڈنٹ! ایمبیسیڈر بینکر نے مجھے آپ کا مئی چودہ کا خط دیا۔ میں مشکور ہوں کہ آپ ان معاملات کے بارے میں فکر مند ہیں، جو ہمیں متاثر کرتے ہیں۔ میں نے آپ کے خط کے مندرجات پر ایمبیسیڈر بینکر سے طویل گفتگو کی ہے، اور ان مسائل کی نشاندہی کی ہے، جن کا ہمیں سامنا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ایمبیسیڈر میری بات آپ تک پہنچا چکے ہوں گے۔ اس لیے اب میرے لیے زیادہ تفصیل لکھنا ضروری نہیں ہے‘ لیکن میں اپنی ایک تقریر کی کاپی ساتھ لگا رہوں، جو میں نے نو اپریل انیس سو اٹھاون کو پارلیمنٹ میں کی تھی۔ یہ تقریر پاک بھارت تعلقات کا احاطہ کرتی ہے۔ یہ تقریر ان مشکلات پر بھی روشنی ڈالتی ہے، جن کا اس سال ہمیں پاکستان کے باب میں سامنا رہا ہے۔ اس میں اس رپورٹ کا ریفرنس بھی ہے، جو اقوام متحدہ کے کمیشن کے نمائندے فرینک گراہم نے بھارت کے دورے کے بعد سکیورٹی کونسل کو پیش کی ہے۔ میرے خیال میں یہ تقریر آپ پر واضح کرے گی کہ آزادی کے بعد ہم پاکستان کے ساتھ نارمل اور دوستانہ تعلقات کے قیام کے لیے کس قدر بے تاب رہے ہیں۔ ہمیں امید تھی کہ پرانی مسلم لیگ کے پرانے تنازعات اور تشدد و نفرت کی وہ پالیسی تبدیل ہو گی۔ یہ واضح طور پر دونوں ممالک کے بہترین مفاد میں ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ امن و دوستی سے رہیں اور دونوں ممالک اپنے آپ کو سماجی و معاشی ترقی کے لیے وقف کریں، جس کی ہماری آزادی اور خود مختاری کے تناظر میں اشد ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے لیے پاکستان کی اور پاکستان کے لیے ہماری امیدیں پوری نہیں ہوئیں۔ مجھے یقین ہے کہ ان تنازعات کے پیچھے جو بھی درست یا غلط ہو، بہتر یہی ہے کہ ان تنازعات کا حل تلاش کیا جائے، اور امن اور تعاون کی جانب پیش قدمی کی جائے۔ میں آپ سے اتفاق کرتا ہوں کہ ہمیں ان تنازعات کو ختم کرنے کے لیے جو بھی ہو سکتا ہے کرنا چاہیے۔ سوال یہ ہے کہ یہ کام کتنے بہتر طریقے سے کیا جا سکتا ہے، کیونکہ اس سمت میں غلط قدم مزید مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔ اس معاملے کو لے کر ہمیں مختلف تجاویز دینے اور مختلف طریقے ڈھونڈنے کا تجربہ ہے۔ اس کے باوجود ہماری خواہش ہے کہ دونوں ممالک اختلافات ختم کر کے ایک دوسرے کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کریں۔ اس مقصد کے لیے ہمیں کام جاری رکھنا چاہیے، لیکن اس سلسلے میں غلط قدم چیزوں کو پیچیدہ بنا دے گا۔ ہم ہمیشہ سے یہ رائے رکھتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان براہ راست رابطے سے ہی تمام مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ اگر تیسرا فریق مداخلت کرتا ہے، اگرچہ وہ مداخلت نیک نیتی سے ہی کیوں نہ ہو، تو اس سے صورت حال بدل جاتی ہے۔ اس طرح جارحیت کرنے والے ملک اور جو ملک جارحیت کا شکار ہوتا ہے، دونوں کو ایک ہی صف میں کھڑا کر دیا جاتا ہے، اور دونوں تیسرے فریق کے سامنے اپنا مقدمہ پیش کرتے رہتے ہیں۔ اس لیے مجھے آپ کی ثالثی کی پیشکش قبول کرنے میں مشکل پیش آ رہی ہے۔ ایمبیسیڈر بینکر نے مجھے بتایا ہے کہ ثالث کوئی جج یا ریفری نہیں ہوگا لیکن اس ثالث یا تیسرے فریق کو جو بھی نام دیا جائے، اس کی مداخلت سے معاملات مزید خراب ہوں گے۔ ایسے شخص کے دورے کو خفیہ نہیں رکھ جا سکتا، اور نتیجے کے طور پر عام لوگوں میں جوش و خروش پیدا ہو جائے گا۔ کشمیر، نہری پانی اور دوسرے معاملات پاکستان اور بھارت کے درمیان دشمنی کا نتیجہ ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان ماحول کشمیر میں ہونے والی کارروائیوں اور لیڈروں کی تقاریر سے مزید خراب ہوا ہے۔ میں ہر طرح کے امکانات پر غور کرنے کے لیے تیار ہوں، جن سے بہتر نتائج برآمد ہونے کی توقع ہو لیکن ان حالات میں ایک نمائندہ خصوصی کا دورہ، جیسا کہ آپ نے تجویز کیا ہے، میرے خیال میں سود مند نہیں ہو گا۔
اس طرح پنڈت جواہر لعل نہرو نے اپنے خیالات کا تفصیلی اظہار کر کے صد آئزن ہاور کی ثالثی کی پیشکش اور اس مقصد کے لیے ایک خصوصی نمائندہ کے تقرر کی تجویز کو مسترد کر دیا۔ امریکہ کی طرف سے اس سطح پر یہ اس قسم کی پہلی تجویز تھی۔ آئزن ہاور سے پہلے صدر ہیری ٹرومین کی پالیسی بالکل مختلف تھی۔ ان کا خیال تھا کہ پاکستان اور بھارت کو ثالثی کے بجائے ایک دوسرے سے براہ راست مذاکرات کے ذریعے اس مسئلے کا حل تلاش کرنا چاہیے اور اگر ثالثی ناگزیر ہے، تو یہ فریضہ خود برطانیہ کو ادا کرنا چاہیے۔ دوسری طرف برطانیہ کی انیس سو سینتالیس سے انیس سو پچاس تک کوشش رہی ہے کہ امریکہ کسی طریقے سے ثالث کا کردار ادا کرنے پر راضی ہو جائے۔ اس مقصد کے لیے انہوں جان مارشل کے تقرر کی تحریری درخواست بھی کی تھی، جسے امریکہ نے مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہمارے پاس ایک ہی جان مارشل ہے، جو مصروف ہے‘ لیکن امریکہ کی اس پہلی رسمی پیشکش کو پنڈت نہرو نے مسترد کر دیا۔ نہرو کے اس انکار کی ایک وجہ تو خود نہرو کی پرانی پالیسی تھی کہ کشمیر کے مسئلے کو پاکستان اور بھارت ہی باہمی گفت و شنید سے حل کر سکتے ہیں۔ دوسرا جیسا کہ نہرو کے خط سے بھی ظاہر ہوتا ہے، اس کا کشمیر کو اقوام متحدہ لے جا کر ایک عالمی مسئلہ بنا دینے کا تجربہ خوشگوار نہیں تھا۔ کانگرس کے اندر ایک طاقت ور لابی اس کے خلاف تھی، اور پنڈت کو اس کا ذمہ دار قرار دے کر اس کی مذمت کرتی تھی۔ دوسری طرف آئزن ہاور کی ثالثی کی پیشکش مسترد ہونے کے باوجود پاکستان کی طرف سے مسئلہ کشمیر پر مغربی طاقتوں کی حمایت حاصل کرنے یا ثالث مقرر کروانے کوشش جاری رہی، جس کا ذکر آئندہ سطور میں تفصیل سے ہوتا رہے گا۔