ہمارے ہاں آئے روز مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کی باتیں ہوتی رہتی ہیں۔ اس سلسلے میں ہر عالمی لیڈر سے ملاقات یا ہر عالمی دورے کے بعد کسی نہ کسی کامیابی کی خوشخبری سنائی جاتی ہے۔ یہ سلسلہ ستر سالوں سے جاری ہے۔ میں نے گزشتہ کالموں میں اس سلسلے کا جائزہ لیتے ہوئے صدر آئزن ہاور کی مسئلہ کشمیر پر ناکام مگر جاندار کوششوں کا ذکر کیا تھا۔ ظاہر ہے ان طویل تجربات سے سبق سیکھے بغیر ان کو دہرانا دانشمندی نہیں ہے۔
جنوری انیس سو اکسٹھ میں جب صدر کینیڈی امریکہ کے صدر بنے تو امریکہ اور بھارت کے تعلقات بہت زیادہ خوشگوار نہیں تھے‘ بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ ان میں بظاہر گرمجوشی اور درحقیقت سخت قسم کی سرد مہری تھی۔ پچاس کے پورے عشرے کے دوران عام طور پر یہ باور کیا جاتا تھاکہ پاک انڈیا تعلقات کے باب میں صدر آئزن ہاور کا جھکائو پاکستان کی طرف رہا ہے حالانکہ صدر آئزن ہاور اور پنڈت جواہر لعل نہرو کے مابین بہت اچھے ذاتی مراسم تھے‘ اور آئزن ہاور کی کوششوں سے لگتا تھا‘ وہ پاکستان اور بھارت کے مابین تعلقات میں خاص قسم کا توازن قائم کرنے کے خواہشمند تھے تاکہ بھارت کھل کر سوویت یونین کے سوشلسٹ کیمپ میں نہ جا سکے۔ دسمبر انیس سو انسٹھ میں جب آئزن ہاور نے بھارت کا دورہ کیا تو ان کا روسی لیڈر خروشیف سے بھی بڑا استقبال ہوا۔ آئزن ہاور نے بہت سے معاملات میں پنڈت نہرو کے خیالات سے ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کی، اور ان کی بہت سی باتیں مان لیں، جن میں مسئلہ کشمیر پر ثالثی نہ کرنا بھی شامل تھا۔ انہوں نے امریکی ثالثی کی وہ پیشکش فوری طور پر واپس لے لی، جو انہوں نے ایک خط کے ذریعے پنڈت نہرو کو کی تھی‘ اور یہ خبر کراچی میں امریکی سفیر نے فی الفور ذاتی طور جاکر ایوب خان کو دی تھی‘ لیکن آئزن ہاور کے آخری وقت کے ان اقدامات کے باوجود امریکہ پاک بھارت تعلقات میں جو توازن پیدا کرنا چاہتا تھا، اس سے بہت دور تھا۔ اس کے برعکس پاکستان کے ساتھ اس کے تعلقات پیچیدہ‘ تہ در تہ اور مضبوط تھے۔ امریکہ سوویت یونین کے خلاف اپنے ''یوٹو سپائی پلان‘‘ کے لیے پاکستانی علاقے استعمال کرکے انتہائی قیمتی سٹریٹیجک معلومات لے رہا تھا۔ وہ پاکستان کو فراخ دلی سے فوجی اور مالی امداد دے رہا تھا۔ پاکستان امریکی ایما پر سیٹو اور سینٹو جیسے اہم ترین عالمی اتحادوں کا حصہ تھا۔ ظاہر ہے ان حالات میں پاکستان اور بھارت کے ساتھ امریکی تعلقات کو متوازن نہیں کہا جا سکتا تھا۔ یہ آئزن ہاور کے وائٹ ہائوس میں آخری دنوں کی صورت حال تھی۔
دوسری طرف امریکہ میں نئے صدارتی انتخابات کا ماحول پیدا ہو چکا تھا۔ نوجوان صدارتی امیدوار جان ایف کینیڈی نے اپنی صدارتی مہم میں آئزن ہاور کی عالمی خارجہ پالیسی بدلنے کا عندیہ دینا شروع کر دیا تھا۔ کینیڈی اس بات پر زور دے رہے تھے کہ دنیا میں تبدیلی کی ہوائیں چل رہی ہیں، اور نوآبادیاتی ایمپائرز کا دور ختم ہو رہا ہے۔ وہ الجیریا میں فرانس کی نوآبادیاتی جنگ کے بہت بڑے ناقد تھے۔ غیر جانبدار تحریک کے بارے میں ان کے خیالات ہمدردانہ تھے۔ ان کا خیال تھا کہ نوآبادیاتی نظام سے تازہ تازہ آزاد ہونے والی ریاستیں سرد جنگ میں کسی ایک بلاک کے ساتھ جانے کے بجائے غیر جانبدار رہنا پسند کریں گی۔ اس سے پہلے کینیڈی امریکی سینیٹ کے ممبر کی حیثیت سے کئی بار بھارت کی امداد بڑھانے اور اس کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کرنے کی وکالت کر چکے تھے۔ امریکی انتخابات میں بھی اس وقت تبدیلی کی ہوا چل رہی تھی، جس کے نتیجے میں نوجوان اور نئی سوچ کا حامل کینیڈی صدارتی انتخابات جیت گیا۔ یہ عمل پاکستان اور بھارت کے ساتھ امریکی تعلقات کے باب میں ایک ''گیم چینجر‘‘ ثابت ہوا۔ صدر بننے کے فوراً بعد کینیڈی نے جواہر لعل نہرو اور بھارت کے ساتھ قریبی تعلقات کا آغاز کیا۔ اس نے اپنے ایک قریبی دوست جان کیتھ گالبریتھ کو نیو دہلی میں اپنا سفیر مقرر کر دیا۔ ان بدلتے ہوئے حالات میں پاکستان امریکی انتخابات اور اس میں زیر بحث آنے والے ایشوز کو بڑی بے چینی سے دیکھ رہا تھا۔ خارجہ امور پر کینیڈی کی تقاریر کچھ لوگوں کے لیے خطرے کی گھنٹی تھی۔ خارجہ امور پر اب اس بات میں شک کی کوئی گنجائش نہیں رہی تھی کہ کینیڈی ایک خاص قسم کے آئیڈل ازم کے راستے پر چلنے کا فیصلہ کر چکے تھے۔
پاکستان میں حکمران طبقات امریکہ کے نئے آئیڈل ازم اور رئیل ازم سے خوفزدہ تھے۔ صدر کینیڈی کا آئیڈل ازم تیسری دنیا کی غیر جانبدار تحریک کی ستائش کرتا تھا، جو بھارت کے زیرِ اثر تھی۔ گویا نئی امریکی پالیسی میں غیر جانب داری ''گناہ‘‘ کے بجائے کمیونزم کا مقابلہ کرنے کا ایک ہتھیار تصور کی جانے لگی۔ صدر ایوب ان بدلتے ہوئے حالات سے کتنے پریشان ہوئے اس کا کچھ احوال ایک ٹیلی گرام سے ملتا ہے، جو کراچی کے امریکی سفارت خانے نے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کو ارسال کیا۔ یہ ٹیلی گرام سولہ فروری انیس سو اکسٹھ کو ارسال کیا گیا۔ اس ٹیلی گرام میں امریکی سفیر نے لکھا کہ صدر ایوب خان ڈھاکہ جاتے ہوئے کراچی ٹھہرے ہوئے تھے۔ گزشتہ رات انہوں نے مجھے فون کیا اور اپنی رہائش گاہ پر آنے کی دعوت دی۔ وزیر خزانہ شعیب اور تیل، بجلی اور پانی کے وزیر بھٹو بھی وہاں موجود تھے۔ صدر ایوب خان پاک امریکہ تعلقات کے حوالے سے فکرمند تھے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ انتخابات کے دوران ہونے والی تقاریر اور انتخابات کے بعد ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد نئی ایڈمنسٹریشن کے رہنمائوں نے بھارت اور دیگر غیر جانب دار ممالک کے بارے میں بڑے گرمجوشی پر مبنی بیانات دیے ہیں، لیکن انہوں نے پاکستان کے بارے میں کوئی ایسا بیان نہیں دیا۔ اس بات کے پاکستان کے علاوہ ایران‘ تھائی لینڈ اور فلپائن میں بڑے پریشان کن اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ اس سے یہ تاثر ابھرا ہے کہ امریکہ اپنے اتحادیوں پر غیر جانبدار ممالک کو ترجیح دیتا ہے۔ امریکی سفیر لکھتا ہے کہ طویل گفتگو کے بعد مجھے لگا کہ صدر کو یہ بے بنیاد خوف ہے کہ نئی انتظامیہ پاکستان کے بارے میں اپنی پالیسی بدل دے گی، اور پاکستان کو کمیونسٹ بلاک کے سامنے ''ایکسپوزڈ‘‘حالت میں چھوڑ دیا جائے گا۔ صدر ایوب خان نے وضاحت کی کہ حال ہی میں سوویت یونین کے ساتھ پاکستان کی بات چیت صرف مسئلہ کشمیر اور پشتون علاقوں پر سوویت موقف میں نرمی پیدا کرنے کے لیے تھی، اور امریکہ کیلئے اس میں پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں۔ صدر ایوب نے بتایا کہ اس سلسلے میں انہوں نے صدر کینیڈی کو خط لکھا ہے، جو وہ وزیر خزانہ شعیب کے ہاتھ ارسال کریں گے۔ اس طرح صدر کینیڈی کے منتخب ہونے کے فوراً بعد صدر ایوب خان نے آنے والے حالات کا ادراک کرتے ہوئے ہنگامی اقدامات شروع کر دیے تھے، جن میں امریکہ کے ساتھ خط و کتابت کے علاوہ صدر کینیڈی سے براہ راست ملاقات کیلئے وقت طے کرنا بھی شامل تھا۔ صدر ایوب خان کے کشمیر کے بارے میں امریکی پالیسی میں تبدیلی کے خدشات بے بنیاد نہیں تھے۔ ان خدشات کی بنیاد صدر کینیڈی کے وہ خیالات تھے، جن کا اظہار وہ وقتاً فوقتا کر چکے تھے۔ آئزن ہاور کے دور میں مسئلہ کشمیر امریکی پالیسی ساز حلقوں میں زیادہ سے زیادہ توجہ حاصل کر چکا تھا، لیکن اس باب میں کوئی قابل ذکر ''بریک تھرو‘‘ نہ ہو سکا تھا۔ اب دیکھنا یہ تھا کہ صدر کینیڈی اپنے نئے خیالات اور نئی خارجہ پالیسی کے تناظر میں مسئلہ کشمیر پر کیا حکمت عملی اختیار کرنے والے تھے۔