گزشتہ کالم میں عرض کیا تھا کہ ریڈیو پاکستان پر نشر ہونے والی خبر راولپنڈی کے ایک ہوٹل میں ڈنر کرتے ہوئے بھارتی وفد کے اراکین پر بجلی بن کر گری تھی۔ وفد نے اس پر سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ایک طرف پاکستان چین کے ساتھ علاقائی تنازعات کے حل کیلئے سمجھوتا کررہا ہے، جن میں کشمیر کے کچھ علاقے بھی شامل ہیں، اور دوسری طرف کشمیر کے مستقبل پر بات چیت کیلئے بھارت کے ساتھ مذاکراتی میز پر بیٹھنے کی تیاری کررہا ہے۔ ان حالات میں وفد کے اراکین کو صبح ہوتے ہی نیو دلی جانے والی پہلی پرواز سے بھارت لوٹ جانا چاہیے‘ لیکن سردار سورن سنگھ کا خیال مختلف تھا۔ انہوں نے ٹھنڈے مزاج کا مظاہرہ کرتے ہوئے مذاکرات جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ ان کا خیال تھا کہ ریڈیو کی خبر پر ردعمل کے بجائے حکام کی طرف سے وضاحت کا انتظار کیا جائے‘ لیکن پاکستان کی چوٹی کی لیڈرشپ‘ بشمول ایوب خان یا ذوالفقار علی بھٹو‘ نے چین کے ساتھ ہونے والے سمجھوتے کے حوالے سے کوئی وضاحت جاری نہیں کی، اور نہ ہی وفد کو اعتماد میں لینے کی کوشش کی، حالانکہ ریڈیو پاکستان کے بعد مقامی اخبارات سمیت یہ خبر عالمی میڈیا پر ایک اہم خبر بن چکی تھی۔ راولپنڈی میں مذاکرات کے پہلے سیشن کے دوران ہی سورن سنگھ نے پاک چین بارڈر سمجھوتے اور کشمیر کے علاقے چین کو دینے کی اس خبر کو لے کر اپنی تقریر کا آغاز کیا۔ مگر اس سے پہلے کہ وہ اپنی بات مکمل کرتے ذوالفقار علی بھٹو نے ایک کاغذ لہراتے ہوئے ان کی تقریر میں مداخلت کی اور کہا کہ فیلڈ مارشل ایوب خان فوری طور پر ان سے ملنا چاہتے ہیں۔ سیشن کی کارروائی روک دی گئی اور وفد ایوب خان سے ملنے کے لیے چلا گیا۔ فیلڈ مارشل نے انتہائی خوش اخلاقی اور شائستگی سے سورن سنگھ کو بتایا کہ پاک چین سمجھوتے کی خبر کی ٹائمنگ محض ایک اتفاق تھا، اور اس کا مقصد بھارت کو کوئی پیغام دینا نہیں تھا۔ اس کے بعد مشترکہ سیشن کے بجائے ذوالفقار علی بھٹو اور سورن سنگھ کے مابین طویل مذاکرات ہوئے۔ مذاکرات کے پہلے دورانیے میں دونوں فریق اپنے اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔
مذاکرات کا دوسرا دور سولہ جنوری انیس سو تریسٹھ کو نئی دہلی میں ہوا۔ بات چیت شروع ہونے سے پہلے ہی بھارت نے کشمیر کے مسئلے کے حل کی یہ تجویز پیش کی کہ بھارت سیزفائر لائن میں ردوبدل کرکے وادی کا ایک حصہ پاکستان کو دینے کیلئے تیار ہے۔ اب سوال صرف اتنا رہ گیا تھاکہ بھارت جو زیادہ سے زیادہ رعایت دے رہا ہے، وہ پاکستان کی کم ازکم توقعات پوری کرنے کیلئے کافی ہے یا نہیں؟ سیزفائر پر ردوبدل کی یہ پیشکش سورن سنگھ نے بھٹو کو دی‘ لیکن اس وقت کے ڈی کلاسیفائید ڈاکومنٹس کے مطابق پاکستان کو پہلے ہی امریکی اور برطانوی ذرائع نے بتا دیا تھاکہ بھارت یہ تجویز پیش کرے گا‘ اور وہ اس پر پیشگی صلاح مشورہ کرچکے تھے۔ یہ تقسیم کشمیر کا سیدھا سادہ فارمولہ تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو دلی چھوڑنے سے پہلے تقسیم کشمیر کے اصولوں کی تفصیل جاننا چاہتے تھے کہ یہ تقسیم کن اصولوں کے مطابق ہوگی۔ پاکستان کا اصرار اس بات پر تھاکہ بین الاقوامی سرحد کے تعین اور کشمیر کی تقسیم کے دوران جن عناصر کو ملحوظ خاطر رکھا جائے اس میں آبادی کی کمپوزیشن، کشمیر سے نکلنے والے دریاوں کا کنٹرول، پاکستان کی دفاعی ضروریات اور دیگر اہم امور شامل ہوں، جن پر کشمیری عوام کی رضامندی ضروری ہے۔ دوسری طرف بھارت کی دلیل یہ تھی کہ سرحدوں کو دوبارہ عقلی بنیادوں پر ایڈجسٹ کیا جائے، اور ایسا کرتے ہوئے ہوئے جغرافیائی اور انتظامی معاملات کو پیش نظر رکھا جائے تاکہ اس کی وجہ سے کم ازکم ''ڈسٹربینس‘‘ ہو۔ دونوں کی پوزیشن میں کافی فرق تھا؛ البتہ دونوں طرف کے نمائندوں نے اتفاق کیا کہ آخری تصفیے میں یہ بات بھی شامل ہوگی کہ دنوں ملک ہمیشہ کیلئے امن و شانتی سے رہنا چاہتے ہیں۔
مذاکرات کا تیسرا دور فروری 1963ء میں کراچی میں ہوا جس میں ذوالفقار علی بھٹو نے یہ پوزیشن اختیار کی کہ وادی اور لداخ کے علاقے پاکستان کو دے دیے جائیں‘ جموں بھارت کو دیا جائے۔ اس موقع پر امریکہ کے اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ نے صدر کو جموں و کشمیر کی تقسیم کی تجویز پیش کی۔ اس تجویز کے مطابق وادیٔ کشمیر کو پاکستان اور بھارت کے مشترکہ کنٹرول میں دے دیا جائے جبکہ باقی ریاست کو دونوں ملکوں کے درمیان تقسیم کیا جائے۔ تیسرے رائونڈ کے دوسرے دن ذوالفقارعلی بھٹو بیجنگ پہنچ گئے، جہاں انہوں نے چین کے ساتھ بارڈر ایگریمنٹ پر دستخط کیے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے اس عمل سے امریکہ کے سیکرٹری آف سٹیٹ سخت ناراض ہوئے اور انہوں نے پاکستانی سفیر عزیز احمد کو بتایاکہ اگر پاکستان اور بھارت کے مابین مذاکرات ناکام ہو جاتے ہیں تو پاکستان کو اقوام متحدہ میں جوحمایت حاصل رہی ہے، وہ باقی نہیں رہے گی۔ بھارت نے اس پر سخت رد عمل دیتے ہوئے ناراضگی کا اظہار کیا۔ مذاکرات کا چوتھا دور شروع ہونے سے پہلے امریکی سفیر نے صدر ایوب خان کو امریکی صدر کی طرف سے ایک خط پہنچایا۔ امریکی صدر نے خط میں صدر ایوب کو مخاطب کرتے ہوئے واضح طور پر لکھا تھا کہ آپ مسئلہ کشمیر کو حل کریں‘ ورنہ پھر اس مسئلے کو ''سٹیٹس کو‘‘ کی بنیاد پر حل کرنا ناگزیر ہوجائے گا۔ 'سٹیٹس کو‘ کا مطلب یہ ہوگا کہ جس کے پاس کشمیر کا جو حصہ ہے، وہ اسی کے پاس رہے گا۔ یہ ایک بہت ہی سخت لہجے پر مشتمل خط تھا۔ مذاکرات کا چوتھا دورکلکتہ میں ہوا، لیکن اس میں سخت امریکی لب و لہجے کے باوجود کسی قسم کی کوئی پیشرفت نہ ہوسکی۔ یہ صورتحال سخت مایوس کن تھی۔ اس کے فوراً بعد پاک بھارت تعلقات پر امریکہ اور برطانیہ نے اپنے پیپرز جاری کرنے کی اجازت دے دی۔ امریکی اور برطانوی پیپرز میں کشمیر کے مسئلے کے حل کیلئے وادیٔ کشمیر کو دونوں ملکوں میں تقسیم کردینے کا فارمولہ پیش کیا گیا تھا۔ انڈیا، پاکستان اور کشمیر کے درمیان لوگوں کی آزادانہ نقل وحرکت کو ممکن بنانے کی تجویز دی گئی تھی، جس سے خطے میں ترقی کا آغاز ہونے کے امکانات بیان کیے گئے تھے۔ مذاکرات کے پانچویں دور میں کسی بات پر اتفاق نہ ہوسکا، سوائے اس کے کہ دونوں ملکوں نے اس بات پر اتفاق کیاکہ وادی کو تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔ مذاکرات کا چھٹا دور نیو دہلی میں ہوا، جس میں بھارت نے یہ تجویز پیش کی کہ کشمیر میں ''سٹیٹس کو‘‘ بدلنے کیلئے طاقت کا استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان نے اس تجویز کو مسترد کر دیا۔
ان ''میراتھن مذاکرات‘‘ کی ناکامی مایوس کن تھی۔ بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ امریکہ اور برطانیہ ان مذاکرات کیلئے بہت سنجیدہ تھے، اور انہوں نے مل کر پنڈت جواہر لعل نہرو کے بازو مروڑ کر ان کو مذاکرات پر راضی کیا تھا۔ ان مذاکرات کی ناکامی کے بعد ایک بار پھر پاکستان اور انڈیا کے مابین ثالثی کی بات سامنے آئی۔ صدر کینیڈی کی دلچسپی اور دبائو جاری تھاکہ بائیس نومبر انیس سو ٹریسٹھ کو چھالیس سالہ صدر کو ڈیلس ٹیکساس میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ صدر کینیڈی کی المناک موت کے بعد فریقین مسئلہ کشمیر کے حل کے ایک پُرجوش حامی سے محروم ہوئے‘ اور 'سٹیٹس کو‘ بطور حل اختیار کرنے کی ان کی دھمکی ایک حقیقت بن گئی، جو اب تک قائم ہے۔ کینیڈی کی موت کے بعد نئے صدر لنڈن جانسن نے کشمیر پر کیا رویہ اختیار کیا؟ اس کا جائزہ کہیں آئندہ سطور میں لیا جائے گا۔