"FBC" (space) message & send to 7575

جب پاکستان نے امریکہ کو حیران کر دیا

کچھ دن پہلے ان سطور میں عرض کیا تھا کہ انیس سو تریسٹھ میں بھارت سے طویل مذاکرات میں ناکامی کے بعد پاکستان نے اچانک مسئلہ کشمیر پر بڑا قدم اٹھا دیا۔ اس قدم پر امریکہ حیران رہ گیا۔ پاکستان نے اچانک مسئلہ کشمیر سکیورٹی کونسل کو ریفر کردیا تھا۔ امریکی لیڈر سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ پاکستان عالمی سفارتی میدان میں امریکی مشاورت کے بغیر اتنا بڑا قدم اٹھا سکتا ہے‘ خصوصاً جبکہ وہ واضح طور پر پاکستان کو بتا چکے تھے کہ اگر انیس سو تریسٹھ کے مذاکرات ناکام ہوئے تو پاکستان کو مسئلہ کشمیر پر سکیورٹی کونسل میں وہ حمایت حاصل نہیں ہو گی، جو ماضی میں حاصل رہی ہے۔
یہ ان حالات میں پاکستان کی طرف سے مسئلہ کشمیر پر ایک خطرناک قدم تھا، جس کے نتائج کا شاید خود پاکستان کے پالیسی سازوں کو بھی پورا ادراک نہیں تھا۔ اس مسئلے پر سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ایگزیکٹو ٹو سیکرٹری نے ایک تفصیلی میمورنڈم امریکی صدر کے نیشنل سکیورٹی افیئرز کے سپیشل اسسٹنٹ کو ارسال کیا، جو امریکی پالیسی کی اندرونی کہانی بیان کرتا ہے۔ ستائیس جنوری انیس سو چونسٹھ کو واشنگٹن سے جاری ہونے والے اس میمورنڈم میں پاکستان کی طرف سے مسئلہ کشمیر کو سکیورٹی کونسل کو ریفر کرنے کے معاملے کا تفصیلی تجزیہ کیا گیا۔ اس میمورنڈم کا مختصر خلاصہ یہ ہے کہ پاکستان نے سکیورٹی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلانے کی درخواست کی۔ اس اجلاس میں پاکستان کشمیر میں پیدا ہونے والی سنگین صورت حال اور اس کی وجہ سے خطے کے امن کو درپیش خطرات کو زیر بحث لانا چاہتا ہے۔ پاکستان کے اس کیس کی بنیاد بھارت کی طرف سے کیے گئے وہ اقدامات ہیں، جن کے ذریعے وہ کشمیر کو انڈین یونین کے اندر ضم کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان کا دعویٰ ہے کہ بھارت کے یہ اقدامات سکیورٹی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی ہیں‘ اور بھارت کشمیر کے اندر انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کر رہا ہے۔ پاکستان کی طرف سے سکیورٹی کونسل کی جانب رجوع کرنے کی وجہ سال 1963 کے دوران پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والے دو طرفہ مذاکرات کی ناکامی ہے۔ مذاکرات کی ناکامی کے بعد پاکستان اور انڈیا‘ دونوں نے امریکہ اور برطانیہ کی طرف سے ثالثی کی پیشکش کو بھی مسترد کر دیا تھا۔ دوسری وجہ گزشتہ موسم خزاں میں انڈیا کی مرکزی حکومت اور بخشی غلام محمد کی قیادت میں کشمیر کی مقامی حکومت کی طرف سے کشمیر کو انڈین یونین کے اندر ضم کرنے کے اقدامات ہیں۔ جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے تو جب بھارت نے کشمیر کو ضم کرنے کی کوشش کی تو ہم نے بھارتی حکومت کو واضح طور پر بتا دیا تھا کہ ہم اس طرح کے عمل کو ''ان فارچیونیٹ‘‘ یعنی افسوسناک سمجھتے ہیں۔ جب دونوں ممالک کے مابین کشیدگی بڑھی تو ہم نے دونوں سے صبر کا مظاہرہ کرنے کی تلقین کی اور برطانیہ سے کہا کہ وہ دونوں کے مابین مذاکرات کے لیے راستہ ہموار کرے‘ لیکن اب یہ سارے اقدامات پاکستان کی طرف سے سکیورٹی کونسل میں جانے کے فیصلے کی وجہ سے پس منظر میں چلے گئے ہیں۔ ہم برطانیہ کی اس تجویز کی تائید کرتے ہیں کہ پاکستان سکیورٹی کونسل میں جانے کے بجائے اپنے معاملات کو انڈیا کے ساتھ باہمی گفت و شنید سے حل کرے۔ جہاں تک سکیورٹی کونسل میں جانے کے مقاصد کا تعلق ہے تو پاکستان اس کے ذریعے ہندوستان پر دباؤ ڈالنا چاہتا ہے۔ حال ہی میں ہندوستان کی پوزیشن بہت سارے معاملات کی وجہ سے کمزور ہوئی ہے، جبکہ اس کے مقابلے میں اس وقت صدر ایوب کی پوزیشن بہت مضبوط ہے اور وہ محسوس کرتے ہیں کہ اس وقت وہ اس پوزیشن میں ہیں کہ بھارت کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا سکیں۔ پاکستان سکیورٹی کونسل سے وہی کچھ چاہتا ہے، جس کا وہ اس سے پہلے مطالبہ کرتا آیا ہے۔ اس میں دنیا کی توجہ کشمیر کی طرف مبذول کرانا، بھارت کی طرف سے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد پر بھارت کی ناکامی، کشمیر پر سکیورٹی کونسل کی پوزیشن کی تجدید، اور کشمیریوں کو یہ پیغام دینا کہ کشمیر کی حیثیت میں تبدیلی کی امید موجود ہے۔ یہ وہ چار مقاصد ہیں جو پاکستان سکیورٹی کونسل سے حاصل کرنا چاہتا ہے۔
اس کے علاوہ پاکستان کے اس عمل کے پیچھے کچھ نئے عناصر بھی شامل ہیں، جن کی وجہ سے پاکستان مسئلہ کشمیر سکیورٹی کونسل میں لے گیا ہے۔ پاکستان کو امریکہ کے بھارت کے ساتھ تعلقات پر تشویش ہے۔ رد عمل میں پاکستان نے چین اور سوویت یونین کے ساتھ تعلقات کو نارمل کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے اور اس نے ایفروایشین بلاک کے اندر بھی اپنا اثرورسوخ پیدا کرنے کے لیے کوششوں کا آغاز کر دیا ہے۔ پاکستان نے مسئلہ کشمیر سکیورٹی کونسل میں لے جانے سے پہلے ہم سے اس پرمشورہ نہیں کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کو علم تھا کہ اس بار ان کو ماضی کی طرح حمایت حاصل نہیں ہوگی۔ پاکستان یہ سوچ رہا ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر پر اپنی قانونی پوزیشن میں کسی قسم کی تبدیلی کے بغیر اس مسئلے کو ایک نئے فریم ورک کے اندر لے جا سکتا ہے، تاکہ وہ ایفروایشین بلاک کی حمایت حاصل کر سکے۔ پاکستان چو این لائی کے دورے سے پہلے اس مسئلے پر مغرب اور سوویت یونین کے رویے کا اندازہ بھی لگانا چاہتا ہے۔ یہ وہ سارے معاملات ہیں جن پر ہمیں سکیورٹی کونسل میں کوئی پوزیشن اختیار کرنے سے پہلے غور کرنا چاہیے۔ پاکستان انڈیا کو ایک ایسے وقت میں سکیورٹی کونسل لے گیا ہے، جب اس کی بہت ساری کمزوریاں ہیں۔ بھارت کشمیر کے اندر اپنے معاملات کی وجہ سے پریشان ہے۔ اس کی معیشت کمزور ہوتی جا رہی ہے۔ چو این لائی کے حوالے سے اسے خوف ہے کہ وہ اپنے ایفروایشیائی دوستوں کو چین اور بھارت کے سرحدی تقاضے میں اپنے ساتھ کھڑا کر سکتا ہے۔ اس وقت کانگریس پارٹی کمزور ہو رہی ہے، پنڈت نہرو بیمار ہے، اور بھارت کے اندر طاقت کی اندرونی جنگ جاری ہے۔ ان حالات میں اس بات کی پیشگوئی کرنا مشکل ہوگا کہ بھارت کا سکیورٹی کونسل میں کشمیر کے مسئلے پر کیا ردعمل ہوگا تاہم اس بات کے خطرات موجود ہیں کہ وہ کشمیر پر اپنی پوزیشن کو مزید سخت کردے گا، اور ایسا کرنے کیلئے وہ کشمیر کے اندرکنٹرول مضبوط کرنے کی کوشش کرے گا۔ سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اس پر امریکہ کیا پوزیشن اختیار کرے؟ 'پاکستان نے ہمارے پوچھے بغیر سکیورٹی کونسل جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ ایک غلط حکمت عملی ہے۔ اس سے پہلے یہ مسئلہ 1962 میں سکیورٹی کونسل میں آیا تھا، تو ہم نے اس کی حمایت کی تھی لیکن ہم دوبارہ ایسا نہیں کرنا چاہتے، جب یہ واضح ہے کہ پاکستان کا یہ قدم مسئلے کے حل کے راستے میں مدد کے بجائے رکاوٹ بن سکتا ہے۔ موجودہ حالات میں ہم کشمیر کے مسئلے کے حل کے کوئی امکانات نہیں دیکھتے‘ یہ امریکہ کا تجزیہ اور موقف تھا۔
دوسری طرف سوویت یونین اپنے روایتی موقف پر قائم تھا کہ مسئلہ کشمیر برصغیر میں عالمی سامراج کا کھیل ہے، جس کی مزاحمت ضروری ہے۔ ان حالات میں مسئلہ کشمیر سکیورٹی کونسل میں لے جانا سفارتی خودکشی کی کوشش لگتی تھی‘ مگر ایوب خان اور ذوالفقار علی بھٹو نے یہ فیصلہ کر لیا۔ ان کی پشت پر کون تھا؟ اور اس فیصلے کے کیا مضمرات تھے؟ اس بات کا جائزہ کہیں آئندہ سطور میں لیا جائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں