چند دن پہلے عرض کیا تھا کہ پاکستان نے انیس سو چونسٹھ میں اچانک مسئلہ کشمیر سکیورٹی کونسل کو ریفر کر دیا تھا۔ اس نئے قدم نے امریکہ کو سخت ناراض کر دیا تھا۔ امریکی سفارتی حلقوں میں اس ناراضی کا کھلا اظہار بھی کر دیا گیا تھا۔ دوسری طرف دنیا کی دوسری بڑی سپر طاقت سوویت یونین کی طرف سے مخالفت اور ویٹو کا خطرہ بھی موجود تھا کیونکہ سوویت یونین ابھی تک مسئلہ کشمیر کو برصغیر میں سامراجی مداخلت قرار دینے کی اپنی روایتی پالیسی پر قائم تھا۔ ان حالات میں سوال یہ تھا کہ ایوب خان اور ذوالفقار علی بھٹو کو ایسی کیا امید تھی کہ انہوں نے مسئلہ کشمیر سکیورٹی کونسل میں لے جانے کا فیصلہ کیا تھا۔ ان کی پشت پر ایسی کون سی قوت تھی، جس کے بھروسے پر انہوں نے یہ قدم اٹھا لیا تھا۔
اس وقت کی عالمی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے لوگوں کا خیال ہے کہ اس وقت پاکستان کے چین کے ساتھ تعلقات میں ایک طرح کی ابتدا تھی، جس میں گرمجوشی بڑھ رہی تھی۔ غالباً چو این لائی نے ان کو یقین دلایا تھا کہ وہ ایفروایشین بلاک میں موجود اپنے دوستوں کو مسئلہ کشمیر کی حمایت پر راضی کر دیں گے‘ لیکن جب مسئلہ سکیورٹی کونسل ریفر ہو چکا تو پاکستان کو اس بات کا احساس ہوا کہ عملی طور پر اس کو عالمی برادری کی کوئی حمایت حاصل نہیں ہے، اور اس معاملے کو سوویت یونین ویٹو بھی کر سکتا ہے۔ اب فیصلہ ساز ''ڈمیج کنٹرول‘‘ کی تگ و دو میں لگ گئے۔ اس سلسلے میں ایک بار پھر گھوم پھر کر امریکہ کے دروازے پر ہی دستک دی گئی، اور امریکی لیڈروں کے ساتھ نئے سرے سے گفت و شنید کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ امریکہ سے سکیورٹی کونسل میں مدد کی درخواستیں ہونے لگیں۔ کافی تگ و دو کے بعد بالآخر بارہ فروری انیس سو چونسٹھ کو پاکستان کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کو سیکرٹری آف سٹیٹ نے مختصر نوٹس پر واشنگٹن آنے اور اس مسئلے پر گفت وشنید کی دعوت دی۔ بھٹو اس وقت نیویارک میں تھے۔ وہ آغا شاہی کو ساتھ لے کر فوراً واشنگٹن پہنچے۔ واشنگٹن میٹنگ میں 'سکیورٹی کونسل میں کشمیر کا مسئلہ‘ ایجنڈے کا واحد نکتہ تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے سکیورٹی کونسل میں سوویت یونین کی طرف سے ویٹو کے استعمال کے امکانات و نتائج پر بات کی، اور اس مشکل مراحلے پر امریکہ سے مدد کی درخواست کی۔ بھٹو نے اس بات پر زور دیا کہ بھارت جو کچھ کر رہا ہے، اس کے خلاف دنیا کی رائے عامہ ہموار کرنا ضروری ہے۔ جواباً سیکرٹری نے یہ واضح کیا کہ مسئلہ کشمیر اور پاکستان اور بھارت کے بارے میں امریکہ کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس حوالے سے ہونے والی ہر سرگرمی کے بارے میں حساس ہیں۔ ہم دونوں ممالک پر زور دیتے ہیں کہ وہ کسی سمجھوتے پر پہنچیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے کہا کہ اگر کشمیر پر کوئی سمجھوتہ ہو سکتا ہے تو اس کیلئے بہترین فارمولا صدر ایوب خان کی انیس سو انسٹھ کی پیشکش ہے جس پر بات کی جا سکتی ہے، لیکن ہم چاہتے ہیں کہ اس بات کی انڈیا کو خبر نہ ہوکہ ہم اس پیشکش کے تحت معاملات طے کرنے کیلئے تیار ہیں۔
ایوب خان کی پیشکش کیا تھی؟ یہ پیشکش صدر ایوب نے بائیس دسمبر انیس سو انسٹھ کو پیش کی تھی۔ اس پیشکش کے پس منظر میں اس وقت کے امریکی سفیر ران ٹری کی انتھک کوششوں کا دخل تھا۔ اس کا احوال ایمبیسیڈر ران ٹری کی اس خط و کتابت میں ملتا ہے، جو اس وقت اس نے واشنگٹن سے کی تھی۔ اس پیشکش میں صدر ایوب نے کہا تھا کہ اگر بھارت پاکستان کے ساتھ مسئلہ کشمیر کے حل کے بنیادی اصول طے کر لیتا ہے تو وہ بھارت کے ساتھ ایک مشترکہ اعلامیہ پر دستخط کرنے کیلئے تیار ہیں، جس میں اس بات کا اعلان کیا جائے گا کہ پاکستان اور بھارت مستقبل میں اپنے تمام معاملات باہمی بات چیت سے طے کریں گے۔ سیکرٹری آف سٹیٹ نے ذوالفقار علی بھٹو کو بتایا کہ سکیورٹی کونسل میں کچھ نہیں ہو سکتا‘ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے ضروری ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان اچھے تعلقات قائم ہوں‘ محض دنیا کی رائے عامہ کا انڈیا پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ انہوں نے مزید کہا: یہ سوچنا غلطی ہوگی کہ بھارت کو دبائو ڈال کراپنی مرضی کے حل پرمجبور کیا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں دونوں طرف سے بات چیت کی ضرورت ہے۔ بھارت میں پنڈت نہرو کی علالت کی وجہ سے لیڈرشپ میں تبدیلی آ رہی ہے۔ یہ پاکستان کے پاس موقع ہے کہ وہ پہل کرے۔ اس گفتگو کے دوران ذوالفقار علی بھٹو نے یہ دعویٰ کیا کہ ایوب خان کی اس وقت پوزیشن 1959 کی پوزیشن سے زیادہ مضبوط ہے۔ بھٹو نے کہا کہ اگر مسئلہ کشمیر کے کسی حل پر اتفاق ہو رہا ہے تو ہم وہ تسلیم کرنے کیلئے تیار ہیں۔ کھانے کے وقفے کے بعد سیکرٹری نے کہا کہ ہمیں اتفاق رائے کو مضبوط کرنا چاہیے ‘ سکیورٹی کونسل کی قراردادوں کو زبردستی مسلط نہیں کیا جا سکتا، اس کیلئے اتفاق پیدا کرنا ضروری ہے۔
دوسری طرف امریکہ کی دوبارہ حمایت حاصل کرنے کیلئے بھٹو اور آغا شاہی کی سفارتکاری کے علاوہ برصغیر میں بھی سفارتی سرگرمیاں اپنے عروج پر تھیں۔ ایوب خان اس سلسلے میں بہت ہی سرگرم تھے۔ تیرہ فروری کو اس سلسلے میں ایک ٹیلی گرام پاکستان سے امریکی سفارتخانے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کو ارسال کیا۔ اس ٹیلی گرام میں امریکی سفیر نے لکھا کہ آج صبح صدر ایوب سے میری ملاقات ان کے کراچی دفتر میں ہوئی، جو تقریباً چالیس منٹ تک جاری رہی۔ گفتگو کا اہم موضوع سکیورٹی کونسل میں مسئلہ کشمیر پر غوروخوض تھا۔ صدر اس بات پر ناخوش تھے کہ ان کو موصول ہونے والی روپوٹس کے مطابق امریکہ بڑی سرگرمی سے سکیورٹی کونسل میں کشمیر کے حل کی مخالفت کر رہا ہے، اور اس مسئلے کا حل نکالنے کے بجائے سکیورٹی کونسل میں ایک بے سود قسم کا متفقہ بیان سامنے لانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس سلسلے میں سکیورٹی کونسل میں جو ڈرافٹ پیش کیا گیا ہے وہ بھارت کو موقع دیتا ہے کہ وہ براہ راست مسئلہ کشمیر کا سامنا کرنے کے بجائے اسے پاکستان اور بھارت کے درمیان موجود دیگر مسائل کے ساتھ گڈ مڈ کرکے اس کی اہمیت کو ختم کر دے۔ صدر نے امید ظاہر کی کہ امریکہ یہ دیکھ سکتا ہے کہ پورے برصغیر کی سکیورٹی مسئلہ کشمیر کے ساتھ منسلک ہے۔ انہوں نے کہا کہ پورے برصغیر کا دفاع آپس میں جڑا ہوا ہے، اور سوویت یا چینی کمیونزم کا کسی بھی طریقے سے داخلہ پورے برصغیر کر گرا دے گا۔ جب تک کشمیر کا تنازع موجود ہے، اور یہ برصغیر کے جسم پر ایک رستے ہوئے زخم کی طرح موجود ہے، اس وقت تک یہاں پر کمیونسٹوں کے لیے کمیونسٹ ''انفیکشن‘‘ پھیلانے کے لیے راستہ کھلا رہے گا۔ جب کشمیر کا زخم بھر جائے گا تو برصغیر میں باہمی تعاون سے ایک مضبوط دفاع قائم ہو جائے گا۔ صدر ایوب خان ایک طرف امریکہ کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھتے ہوئے برصغیر میں کمیونسٹ انقلاب کے خلاف مشترکہ دفاع کا خیال پیش کرکے امریکی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے‘ دوسری طرف وہ چین کے اتنے قریب ہورہے تھے کہ بعض خفیہ رپورٹس کے مطابق پاکستان اور چین کے مابین ایک خفیہ معاہدہ ہو گیا تھا۔ آگے چل کر حالات نے بالکل ایک نئی کروٹ لے لی، جس کا احوال پھر کبھی پیش کیا جائے گا۔