جیسا کہ گزشتہ دنوں انہی سطور میں لکھا تھا کہ پینسٹھ کے موسم گرما میں برصغیر کے افق پر جنگ کے بادل منڈلاتے ہوئے صاف نظر آ رہے تھے۔ پاکستان اور انڈیا اس جنگ کو ٹالنے کے لیے امریکہ کی طرف دیکھ رہے تھے‘ مگر صدر لنڈن جانسن کی 'انتظار کرو اور دیکھو‘‘ کی پالیسی جاری تھی۔ رن آف کچھ کے بعد آپریشن جبرالٹر اور گرینڈ سلام جیسے واقعات کی وجہ سے دونوں ملکوں کے مابین تنائو کی کیفیت بڑھ رہی تھی اور ستمبر کے شروع میں پاکستان اور انڈیا کے مابین باقاعدہ لڑائی چھڑ چکی تھی‘ مگر صدر لنڈن جانسن اپنی پالیسی پر قائم تھے۔ وہ پاکستان اور بھارت کو یہ تاثر دینا چاہتے تھے کہ ان کو اس معاملے میں کوئی زیادہ دلچسپی نہیں ہے۔ اس صورت حال کی عکاسی ایک میمورنڈم سے ہوتی ہے۔ یہ میمورنڈم لنڈن جانسن کی صدارت میں ہونے والے ایک اہم اجلاس کا احوال بیان کرتا ہے، جو دو ستمبر انیس سو پینسٹھ کو واشنگٹن میں ہوا۔ اس اجلاس میں سیکرٹری آف سٹیٹ سمیت دیگر اہم ترین عہدے دار موجود تھے۔ کشمیر کی صورت حال پر ہونے والے اس اجلاس میں سیکرٹری ڈین رسک نے بتایا کہ کس طرح کشمیر میں ایک بڑا جھگڑا پھوٹ سکتا ہے اور ممکنہ طور پر سنگین فرقہ وارانہ فسادات ہو سکتے ہیں‘ لاکھوں افراد کے ہلاک ہونے کا خطرہ ہے‘ اس لیے لڑائی کو روکنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جانی چاہیے۔ انہوں نے بتایا کہ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ بھارت نے کئی ہزار آدمیوں کی در اندازی کا الزام لگا کر ایک ''موپ اپ آپریشن‘‘ میں سیز فائر لائن کو عبور کیا ہے اور دوسری طرف پاکستان سرینگر کی سڑک کو کاٹنے کی کوشش کر رہا ہے۔
سیکرٹری نے کہا کہ ہمارے نزدیک اس وقت سیز فائر لائن کو بحال کرنا ضروری ہے۔ کل ہم نے سوچا تھا کہ براہ راست امریکی مداخلت اور امریکی امداد کی معطلی کی دھمکی ضروری ہو سکتی ہے‘ لیکن اب اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل یو تھانٹ نے وزیر اعظم شاستری اور صدر ایوب خان سے فوری سیز فائر کی اپیل کی ہے‘ لہٰذا اب ہم سیکرٹری جنرل کی حمایت میں ایک مضبوط بیان جاری کریں گے۔ ہمارا اگلا قدم اس اپیل کے جواب پر منحصر ہے۔ مثال کے طور پر، اگر ایک فریق ہاں اور دوسرا نہیں کہے تو ایک نئی صورتحال پیدا ہو جائے گی؛ چنانچہ سیکرٹری ڈین رسک نے کل کے مقابلے میں زیادہ محدود ''ڈیمارچ‘‘ تجویز کیا ہے کہ بنیادی طور پر پاکستان سے امریکی ہتھیاروں اور آلات کے بارے میں پوچھا جائے کہ کیا وہ یہ چیزیں بھارت کے خلاف استعمال کر رہے ہیں؟
صدر جانسن کا خیال تھاکہ ہمیں بہت محتاط رہنا چاہیے۔ پہلی بات یہ ہے کہ انڈیا اور پاکستان‘ دونوں یہ چاہتے ہیں کہ ہم انہیں دھمکی دیں، تاکہ وہ اپنے آپ کو شہید بنا کر پیش کر سکیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہم چاہے ان کو جو بھی بتائیں، اگر ان کو ضرورت محسوس ہو گی، تو دونوں ایک دوسرے کے خلاف امریکی ہتھیار اور سازوسامان استعمال کریں گے‘ لہٰذا صدر جانسن وزیر اعظم ولسن کی طرح کسی اور کو درمیان میں لانا چاہتے تھے۔ صدر کا خیال تھا کہ انہیں اس مسئلے پر انتظار کرنا چاہیے، اور جلد بازی نہیں کرنی چاہیے۔ صدر نے کہا کہ ہم نے پاکستان اور ہندوستان کو کبھی دھمکی نہیں دی لیکن گزشتہ چند ماہ سے وہ مسلسل یہی کہتے رہے کہ ہم انہیں دھمکا رہے ہیں۔ اس طرح صدر کا نظریہ یہ تھا کہ ہمیں تھوڑا سا پیچھے ہٹنا چاہیے اور ولسن اور اقوام متحدہ کو اس معاملے پر کام کرنے دیا جائے۔ صدر ذاتی طور پر مداخلت نہیں کرنا چاہتے۔ وہ اس معاملے کو تھوڑا سا باہر بیٹھ کر دیکھنا چاہتے ہیں۔ سیکرٹری ڈین رسک کا خیال تھا کہ ہتھیاروں کے استعمال کے معاملے پر ہمارا اپنا بھی ایک واضح موقف رہا ہے۔ ہم نے ہندوستان اور پاکستان‘ دونوں کو بتایا تھا کہ ہمارا حربی سامان ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرنے کیلئے نہیں ہے۔ بتایا گیا ہے کہ 23 ستمبر کو جو اجلاس ہو رہا ہے اس پر کشمیر کا سایہ پڑنے کا امکان ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ کسی وقت ہمیں یہ کہنا پڑے گا کہ ہم ایک دوسرے سے لڑنے والی دو فوجوں کے کوارٹر ماسٹر نہیں ہیں۔ سیکرٹری رسک نے نشاندہی کی کہ ایک بار جب پاکستان نے امریکی آلات کے استعمال کی تصدیق کی تو ہمیں سخت بھارتی شکایات موصول ہونا شروع ہو جائیں گی۔
آخر میں صدر نے ایک بار پھر دہرایا کہ ہمیں خود کو اقوام متحدہ کی حمایت تک محدود رکھنا چاہیے۔ ہمیں ''دیکھنا اور انتظار کرنا چاہئے‘‘۔ انہوں نے یہ بھی خواہش ظاہر کی کہ ہم پاکستا ن کو بتائیں کہ ہم ہندوستان سے اتنی ہی سختی سے بات کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، جس طرح آپ سے کر رہے ہیں۔ دوسری طرف دہلی سے دو ستمبر کو ہی ایک ٹیلی گرام کے ذریعے امریکی سفیر باؤلز نے فوری طور پر سیکرٹری جنرل کی اپیل کا جواب دینے کے لیے دونوں اطراف پر براہ راست امریکی دباؤ کی ضرورت کا مشورہ دیا۔ انہوں نے درخواست کی کہ شاستری کو بتایا جائے کہ اگر ہندوستان نے جنگ بندی کی اپیل قبول کر لی، اور پاکستان نے ایسا نہ کیا تو امریکہ فوری طور پر پاکستان کی تمام فوجی امداد بند کر دے گا۔ واشنگٹن سے جواب میں باؤلز کو ٹیلی گرام کے ذریعے مطلع کیا گیا کہ اعلیٰ سطح پر فیصلہ کیا گیا ہے کہ امریکہ فی الوقت ہندوستان یا پاکستان پر براہ راست دباؤ میں شامل نہ ہو، بلکہ ہماری طرف سے بنیادی طور پر اقوام متحدہ پر انحصار کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ دو ستمبر کو ہی صدر ایوب خان نے ایک اور تفصیلی خط صدر لنڈن جانسن کو لکھا، جس میں انہوں نے ایک بار پھر کشمیر کی صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے پاکستانی پوزیشن کی وضاحت کی۔ اسی دن امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے ایک خط پاکستان میں اپنے سفارتخانے کو لکھا۔ خط میں سیکرٹری آف سٹیٹ نے واضح طور پر لکھا کہ کشمیر میں صورتحال اب ایک بڑی جنگ تک پہنچ چکی ہے، جس میں امریکی سازوسامان استعمال ہو رہا ہے‘ اس لیے یہ ضروری ہے کہ کراچی اور دہلی میں اعلیٰ حکام پر ہماری پوزیشن واضح کی جائے۔ اس موقع پر ہمیں کوئی وضاحت کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ اگر صورتحال مزید بگڑتی ہے تو ہم کیا کر سکتے ہیں، بلکہ ہمیں اپنے آپ کو سکیورٹی کونسل کی حمایت تک محدود کرنا چاہیے۔ ہمارے مستقبل کے ایکشن کا دارومدار فریقین کی طرف سے سکیورٹی کونسل کے رد عمل پر منحصر ہوگا‘ اس لیے آپ ان پر واضح کریں کہ ہمیں تشویش ہے کہ کشمیر کی صورتحال پاک بھارت جنگ میں بدل جائے گی، دونوں فریق سکیورٹی کونسل پر مثبت رد عمل دیں۔ فریقین کے مابین مزید تنائو امن کے خلاف اقدام سمجھا جائے گا۔ ہم دونوں حکومتوں کو سختی سے کہتے ہیں کہ وہ سکیورٹی کونسل کی اپیل پر عمل کریں‘ مگر سکیورٹی کونسل کی اپیل پر پاکستان اور بھارت نے کوئی جواب نہیں دیا۔ پاکستان کا اصرار تھا کہ مسئلہ کشمیر پر بات کیے بغیر جنگ کی بات ہی خارج از بحث ہے۔ جنگ جب زور پکڑ گئی تو امریکہ نے کچھ عملی فیصلے کیے، ان میں پاکستان اور بھارت دونوں کی فوجی اور مالی امداد بند کرنے کا فیصلہ شامل تھا، ساتھ ہی دونوں کو کہا گیا کہ وہ ایک دوسرے کے خلاف امریکی ہتھیار استعمال نہ کریں، جس پر کسی نے کان نہیں دھرا۔ جنگ کی ہولناکیاں جب واضح ہونے لگیں، تو پاکستان اور بھارت‘ دونوں نے سفارتی ذرائع سے ایک بار پھر امریکہ کو ہی ثالثی کیلئے تیار کرنا شروع کر دیا۔ اس موقع پر امریکہ نے کیا کردار ادا کیا اس کا احوال آئندہ پیش کیا جائے گا۔