گزشتہ دنوں انہی سطور میں عرض کیا تھا کہ انیس سو پینسٹھ کی پاک بھارت جنگ کے دوران اچانک چین نے بھارت کو تین دن کا الٹی میٹم دے دیا تھا۔ اس الٹی میٹم کی وجہ سے پاک بھارت جنگ ایک دھماکہ خیز شکل اختیار کر چکی تھی۔ چین کی اس مداخلت سے بھارت کی پریشانی تو فطری تھی، لیکن اس عمل سے امریکہ بھی سخت پریشان تھا۔ امریکیوں کا خیال تھا کہ اگر کمیونسٹ چین بھارت پر حملہ کرتا ہے تو امریکہ کو ہر صورت میں بھارت کی حمایت میں اس لڑائی میں شریک ہونا پڑے گا۔ اس صورت میں یہ لڑائی پاکستان‘ بھارت اور چین کی لڑائی نہیں رہے گی بلکہ ''آزاد دنیا‘‘ اور کمیونزم کے درمیان جنگ بن جائے گی، جو خطرناک تیسری عالمی جنگ کی بنیاد بن سکتی ہے۔ چونکہ سوویت یونین اپنے آپ کو کسی طور بھی اس جنگ سے الگ نہیں رکھ سکے گا‘ اس صورت حال پر امریکہ اور پاکستان کے مابین جو گفتگو ہوئی اس کی عکاسی ایک ٹیلی گرام میں ہوتی ہے، جو بیس ستمبر کو پاکستان میں امریکی سفارت خانے سے امریکی سفیر والٹر میکانی نے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کو ارسال کیا تھا۔ امریکی سفیر لکھتا ہے ''میں نے آج بارہ بجکر بیس منٹ پر صدر ایوب سے ان کی درخواست پر پینتیس منٹ تنہائی میں ملاقات کی۔ صدر نے اپنے گہرے یقین کا اعادہ کیا کہ موجودہ بحران اور اس کے بعد کے حالات میں امریکہ کو فیصلہ کن کردار ادا کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ روسی پاکستان اور بھارت کے مابین ثالثی کے عمل کو اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کر رہے ہیں‘ لیکن ثالثی کی ابتدا امریکہ نے کی تھی، اور اب بھی اس میں امریکہ ہی کردار ادا کر سکتا ہے۔ اگرچہ حال ہی میں امریکہ کے کچھ اقدامات کی وجہ سے پاکستان کو نقصان ہوا ہے، لیکن میں جانتا ہوں کہ امریکہ کا یہ مقصد نہیں تھا۔ مختلف نازک لمحات میں امریکی خاموشی اور بے عملی نے بھی نقصان پہنچایا ہے۔ چینی کمیونسٹ اس بحران میں پاکستان سے ہمدردی کے جذبات کا اظہار کر رہے ہیں، جو پاکستان نہیں چاہتا، اور جس کی توقع چھ ستمبر کے واقعات کے بعد امریکہ سے کی گئی تھی‘ لیکن پاکستانی عوام پر چین کی اس ہمدردی کا اثر پڑنا لازم ہے؛ اگرچہ وہ کمیونزم کے خلاف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''ہندوؤں‘‘نے اپنی معمول کی عیارانہ چالوں اور خود راستی کے ساتھ چینی کمیونسٹوں کے لیے المناک دشمنیوں سے فائدہ اٹھانے کا موقع فراہم کیا ہے۔ چینی کمیونسٹوں کے لیے یہ موقع کبھی پیدا نہ ہوتا اگر ہندوستانیوں نے دو ہفتے قبل پہلی بار پاکستان کے خلاف بین الاقوامی جارحیت کا منہ نہ کھولا ہوتا۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ چھ ستمبر سے پہلے یہ بات سب پر واضح نہیں کی گئی تھی کہ بین الاقوامی سرحد پر جارحیت کشمیر کے متنازع علاقے میں ہونے والی جھڑپوں سے بالکل مختلف اور سنگین چیز ہے۔ اگر امریکہ نے پہلے ہی خبردار کر دیا ہوتا کہ ہندوستان یا پاکستان کی طرف سے ایک دوسرے کی بین الاقوامی سرحد عبور کرنے کو برداشت نہیں کیا جائے گا، تو بھارت عالمی سرحد عبور نہ کرتا اور چینی کمیونسٹوں کے لیے موجودہ خطرناک موقع کبھی پیدا نہیں ہوتا۔
میں نے صدر کے ساتھ بات چیت کو چینی کمیونسٹوں کے الٹی میٹم کے مضمرات اور سکیورٹی کونسل کی قراردادوں کے تحت غیر مشروط جنگ بندی کی ناگزیر اور لازمی ضرورت پر مرکوز کیا۔ میں نے پس منظر پر بحث کیے بغیر کہا، پوزیشن یہ ہے کہ اس وقت چینی کمیونسٹوں کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ پاکستان کو مشکل صورت حال میں ڈال سکتے ہیں، اگر حکومت پاکستان دھمکی آمیز چینی مداخلت کو مسترد نہ کرے، اور ہندوستان کے ساتھ غیر مشروط جنگ بندی کے لیے چینی کمیونسٹوں کے الٹی میٹم کی میعاد ختم ہونے سے پہلے قدم نہ اٹھائے۔ اس سے کم کوئی بھی قدم پاکستان کو ایسی پوزیشن میں ڈال دے گا، جس سے لگے گا کہ پاکستان بھارت کے خلاف چینی کمیونسٹوں کی جارحیت کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے، یا اس سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔ یہ وہ پوزیشن ہو گی، جسے امریکی حکومت اور لوگ قبول نہیں کر سکتے۔ امریکی حکومت اور عوام کے سامنے پاکستان کی ایسی پوزیشن کا دفاع نہیں کیا جا سکتا، اور مجھے نہیں معلوم کہ ایسی تباہی کے بعد ہم اپنی روایتی بنیادوں پر کیسے واپس آ سکتے ہیں۔ میں نے صدر سے پوچھا کہ کیا انہیں بھٹو اور شعیب نے ان کے ساتھ میری بات چیت سے ایک دن پہلے پوری طرح آگاہ کیا تھا۔ صدر نے کہا کہ انہیں صورت حال سے آگاہ کیاگیا ہے، اور وہ امریکی پیغام سمجھتے ہیں۔
میں نے کہا کہ بائیس ستمبر ایک نازک دن ہے کیونکہ اس دن سکیورٹی کونسل کی قرارداد اور چینی کمیونسوں کے الٹی میٹم کی ڈیڈ لائن ہے۔ پاکستان کی طرف سے خود کو چینی کمیونسٹوں کے ڈیزائن سے الگ کرنے کے لیے ڈیڈ لائن سے پہلے پہلے قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ صدر ایوب کی حکومت اس کارروائی میں ناکامی کے بعد کیسے برقرار رہ سکتی ہے؟ یہاں تک کہ کسی بھی آزاد ملک پر کمیونسٹوں کے فوجی دباؤ میں چینی کمیونسٹوں کے ساتھ پاکستان کی علامتی وابستگی بھی پاکستان کو امریکی مدد کی پہنچ سے دور کر دے گی۔
صدر نے گہرے احساس کے ساتھ کہا کہ پاکستان کی چینی کمیونسٹوں کے ساتھ کوئی ملی بھگت یا مشاورت بھی نہیں ہوئی۔ ان کے درمیان کوئی مفاہمت نہیں تھی، اور نہ ہی انہیں چینی کمیونسٹوں کے ارادوں کا کوئی علم تھا۔ ان کی چالوں کے بارے میں وہ صرف وہی کچھ جانتے تھے، جو انہوں نے عالمی پریس میں پڑھا تھا۔ اس کے بعد صدر نے مجھے بتایا کہ انہوں نے حال ہی میں پیکنگ کو ایک پیغام بھیجا تھا، جس میں چینی کمیونسٹوں سے کہا گیا تھا، ''خدا کے لیے اس معاملے سے باہر رہیں۔ صورتحال کو مزید خراب نہ کریں‘‘۔
میں نے صدر کو بتایا کہ یہ معلومات اہم ہیں، اور میں اپنی گفتگو کی رپورٹ میں اس کا حوالہ دینا چاہتا ہوں۔ میں نے ان سے پوچھا کہ کیا وہ مجھے واضح طور پر یقین دلاتے ہیں کہ انہوں نے حال ہی میں چینی کمیونسٹوں کو ایسا پیغام پہنچایا ہے، اور کیا انہوں نے مجھے اس سلسلے میں براہ راست حوالہ دینے کا اختیار دیا ہے؟ صدر نے جواب دیا، ''ہاں، سوائے اس کے کہ میں 'خدا کے لیے اس معاملے سے باہر رہیں‘والی بات چھوڑ دوں‘‘۔ میں نے صدر سے کہا کہ وہ اس معاملے پر چینی کمیونسٹوں سے مزید بات کریں۔
صدر نے کہا کہ وہ جنگ بندی کے فیصلے کے بارے میں انتہائی سنجیدگی سے سوچیں گے، جو اگلے دن یا اس کے بعد نافذالعمل ہو گی لیکن اس میں بڑی رکاوٹ پاکستان کی عوامی رائے تھی۔ انہوں نے سوال کیا کہ ''میں ایسی کارروائی کے نتیجے سے کیسے بچ سکتا ہوں جس میں لوگوں کو ایسا لگتا ہو جیسے ہم صرف ہندوستان کی مدد کرنے کے لیے کشمیر سے دستبردار ہو رہے ہیں، اور جس میں کشمیریوں کے لیے انصاف نہیں ہو رہا ہے؟‘‘ تمام قربانیوں کے بعد، میں سب کچھ ایک طرف پھینکنے کے فیصلے کی وضاحت کیسے کر سکتا ہوں، جبکہ عوام کو دکھانے کے لیے ہمارے پاس اقوام متحدہ کی ایک اور قرارداد کے سوا کچھ نہیں؟ انہوں نے اس بات پر شدید تشویش کا اظہار کیا کہ وہ اور ان کی حکومت متوقع پُرتشدد عوامی ردعمل کا سامنا نہیں کر سکیں گے۔ صدر نے کہا 'لوگ نہیں سمجھیں گے‘۔‘‘
ایک طرف صدر ایوب خان کو عوام کا خوف لاحق تھا، دوسری طرف سخت عالمی دبائو۔ آگے چل کر حالات نے جو رخ اختیار کیا، اس کا ذکر آئندہ سطور میں پیش کیا جائے گا۔