"FBC" (space) message & send to 7575

جب مسئلہ کشمیر سرد خانے کی نذرہوا

گزشتہ دنوں میں نے انہی سطور میں معاہدہ شملہ کے باب میں عرض کیا تھا کہ اکہتر کی جنگ کے نتائج کی وجہ سے پاکستان دفاعی پوزیشن پر چلا گیا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے جنگ کے بعد بھارت سے واضح طور پر تصادم کی جگہ مفاہمت کی پالیسی کا اعلان کر دیا تھا۔ کشمیریوں کے حقِ خود ارادیت پر بھی انہوں نے نئی پالیسی اپنا لی تھی۔ انہوں نے اعلان کیا کہ صرف پاکستان اکیلا کشمیریوں کی حق خود ارادیت کی جنگ نہیں لڑ سکتا، بلکہ یہ جنگ کشمیری عوام کو خود لڑنا ہو گی۔ اس طرح ایک طرف پاکستان نے کشمیریوں کی حقِ خود ارادیت کی جدوجہد سے فاصلہ رکھنے کی کوشش کی، مگر دوسری طرف کشمیر پر اپنے دعوے سے بھی دستبردار نہیں ہوا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے کشمیریوں کی حقِ خود اختیاری کی لڑائی خود لڑنے کی بات کی وضاحت '' لنڈن انڈیپنڈنٹ‘‘ ٹیلی وژن کے نمائندے رچرڈ لنڈسی کے ساتھ ایک طویل انٹرویو میں کی، جسے پاکستان کے انگریزی اخبار ڈان نے چار مئی انیس سو بہتّر کو شائع کیا۔ گیارہ مئی کو ذوالفقار علی بھٹو نے 'ہندوستان ٹائمز‘ کے ساتھ انٹرویو میں کشمیر میں ایک کھلے اور نرم بارڈر کی تجویز پیش کی جس کے ذریعے کشمیری لوگ بغیر کسی رکاوٹ کے آر پار جا سکتے تھے۔ اس مسئلے پر ٹائمز آف لندن کو انٹرویو دیتے ہوئے اندرا گاندھی نے کہا کہ مسئلے کے حل کے لیے کشمیر کی پرانی سیزفائر لائن میں رد و بدل ضروری ہو گا۔ اس سے پہلے بھارتی وزیر دفاع جگ جیون رام کہہ چکے تھے کہ کشمیر میں سیزفائر لائن ختم ہو چکی ہے، اور کچھ رد و بدل کے بعد سیزفائر لائن کو مستقل سرحد تسلیم کیا جانا چاہیے جبکہ پاکستان نے یہ پوزیشن اختیار کی کہ نوے فیصد سیز فائر لائن ابھی تک بحال ہے، اور اس سے لائن کی پرانی قانونی حیثیت متاثر نہیں ہوتی۔
شروع میں اس بات کے آثار موجود تھے کہ بھارت سیز فائر لائن کو عالمی سرحد بنانے پر اپنے مسلسل اصرار کے باوجود مسئلے کے کسی اور قابل قبول حل کے لیے تیار ہے‘ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حالات میں تیز رفتار تبدیلیوں نے اس بات کو خارج از امکان قرار دے دیا۔ اس دوران دو بڑے واقعات ہوئے، جنہوں نے مسئلہ کشمیر کو ایک بار پھر حل سے دور کر دیا۔ اس میں پہلا بڑا واقعہ امریکی صدررچرڈ نکسن کا دورۂ چین تھا۔ اس دورے کے دوران نکسن نے پہلی بار چینی لیڈروں کے ساتھ جنوبی ایشیا کی صورتحال پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا، اور چین کے ساتھ ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا، جس میں پاکستان اور بھارت کو واضح طور پر کہا گیا تھا کہ وہ سیز فائر لائن سے اپنے اپنے فوجی ہٹا کر پہلے والی پوزیشن پر لے جائیں۔ دوسرا بڑا واقعہ صدر نکسن کا دورۂ ماسکو تھا، جہاں سے امریکہ اور روس کا مشترکہ اعلامیہ بھی اس سے ملتا جلتا تھا کہ برصغیر میں قیام امن کے لیے سیزفائر سمیت تمام معاملات بات چیت سے حل ہوں۔ اس طرح پاکستان اور بھارت پر واضح ہو گیا کہ امریکہ، روس، اور چین اس مسئلے پر کہاں کھڑے ہیں۔ ان حالات میں شملہ میں بھارت نے یہ موقف اختیار کیا کہ مسئلہ کشمیر کا باب بند تصور کیا جائے، اور دوسرے معاملات پر آپس میں بات چیت کی جائے۔ اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ فریقین اپنی اپنی پوزیشن برقرار رکھتے ہوئے اکتیس دسمبر کی سیز فائر لائن کا احترام کریں گے، اس کی خلاف ورزی سے گریز کریں گے اور تمام معاملات دو طرفہ بات چیت سے طے کریں گے۔ اگرچہ اس میں یہ نہیں کہا گیا کہ ان معاملات میں مسئلہ کشمیر شامل نہیں ہوگا‘ لیکن ایک بات صاف تھی کہ دونوں ممالک نے مسئلہ کشمیر پر باہمی اختلاف پر اتفاق کر لیا، اور پورے مسئلے کو سرد خانے میں ڈالنے پر رضامندی ظاہر کی۔ جنگ نہ کرنے اور طاقت کا استعمال نہ کرنے کا عزم ظاہر کر کے دونوں نے کشمیر میں ''سٹیٹس کو‘‘ پر اتفاق کر لیا، لیکن کسی فریق نے بھی کشمیر پر اپنے دعوے سے دست برداری کا کوئی اشارہ نہیں دیا۔ سیز فائر لائن پر اختلاف جاری تھا کہ اندرا گاندھی نے یہ کہہ کر اگلا سربراہی اجلاس ملتوی کر دیا کہ کشمیر میں لائن آف کنٹرول کھینچے بغیر کوئی بات نہیں ہو سکتی۔
جس وقت کشمیر میں لائن آف کنٹرول اور انٹرنیشنل بارڈرز کے حوالے سے اختلاف شدید تر ہوتے جا رہے تھے، اس وقت مختصر وقت کے لیے کشمیری بھی مسئلہ کشمیر کے فریق کے طور پر سامنے آئے۔ ان دنوں شیخ عبداللہ پر کشمیر میں داخل ہونے پر پابندی تھی تاہم جون میں بھارت نے اچانک یہ پابندی ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ تجزیہ کاروں نے اس کی ایک وجہ یہ بھی بیان کی کہ سوویت یونین نے شیخ عبداللہ اور بھارت کے مابین سمجھوتہ کروایا تھا۔ اس زمانے میں ایک سوویت منصوبہ سامنے آیا تھا جو انڈین یونین کے اندر مسئلہ کشمیر کا حل تجویز کر رہا تھا‘ جس میں خارجہ، دفاع اور مواصلات مرکز کو دے کر کشمیر کو ایک خود مختار علاقہ قرار دیا جائے۔ یہ سوویت منصوبہ اس سے چند ماہ پہلے کراچی کے ڈان اخبار میں شائع ہو چکا تھا۔ تئیس مارچ انیس سو بہتّر کے ڈان کے شمارے میں اس منصوبے کی تفصیلات موجود تھیں۔ کشمیر میں داخلے پر پابندی ختم ہونے کے فوراً بعد شیخ عبداللہ نے سری نگر میں ایک جلسہ عام کا انعقاد کیا۔ اس جلسے سے خطاب کرتے ہوئے شیخ صاحب نے کہا کہ انیس سو سینتالیس میں کشمیر کا بھارت کے ساتھ الحاق صرف دفاع، خارجہ اور مواصلات پر ہوا تھا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ اسے سینتالیس والی پوزیشن کو بحال کیا جائے‘ خود مختاری کے سوال کے علاوہ ہندوستان سے ہمارا کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ انہوں نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ پاک بھارت بات چیت میں کشمیر کے حقیقی نمائندے شامل ہونے چاہئیں، جس کے بغیر کوئی حل قبول نہیں کیا جائے گا۔ اس نے اندرا گاندھی سے مطالبہ کیا کہ کشمیریوں سے براہ راست مذاکرات کیے جائیں ''اگر ہندوستان ہمارے ساتھ اچھوتوں جیسا سلوک نہ کرے تو ہم تعاون کرنے کے لیے تیار ہیں‘‘۔ دوسری طرف پاکستان ٹائمز نے آزاد کشمیر کی حکمران پارٹی کے صدر سردار ابراہیم کے حوالے سے لکھا کہ مسئلہ کشمیر کو جنگ کے نتائج کے ساتھ نہیں جوڑا جا سکتا، اور نہ ہی کشمیری عوام کے حق خود ارادیت پر سودے بازی کی جا سکتی ہے۔ اگرچہ ہمارے پاس اس وقت آزاد کشمیر کی ریاستی فوج کے علاوہ دو لاکھ سے زائد رضا کار مجاہدین موجود ہیں، لیکن اسلام آباد کی عملی مدد کے بغیر ہم کسی قسم کی گوریلا کارروائی کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ اس طرح اس وقت کی کشمیر کی دونوں طرف کی قیادت نے واضح کر دیا کہ وہ تھوڑے بہت اختلاف کے باوجود پاکستان اور بھارت کی پالیسیوں کے ساتھ ہیں۔ معاہدہ شملہ میں روس، امریکہ، چین، پاکستان، بھارت اور کسی حد تک رسمی طور پر کشمیری قیادت کی رضامندی بھی دکھانے کی کوشش کی گئی تھی۔ عام تاثر یہ تھا کہ معاہدہ شملہ ایک تاریخی قسم کا امن معاہدہ ہے، جس کو خطے کی اور عالمی ترقی پسند اور روشن خیال قوتوں کی حمایت حاصل ہے۔ اس طرح کشمیری عوام ایک بار پھر عالمی اور علاقائی طاقتوں کے مفادات اور مسئلہ کشمیر پر ان کی یکطرفہ تفہیم کی بھینٹ چڑھ گئے، اور مسئلہ کشمیر اگلے کئی برسوں تک کسی نہ کسی طرح معاہدہ شملہ کے اردگرد گھومتا رہا۔ آگے چل کر اسّی اور نوے کی دہائی میں مقبوضہ کشمیر میں مسلح جدوجہد کی وجہ سے صورتحال نے ایک نیا موڑ لیا، جس کا الگ اور تفصیلی جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں