آج کل روس‘ چین اتحاد ایک اہم موضوع ہے۔ دنیا کی اس پر گہری نظر ہے۔ طاقت کے ہر مرکز نے اس پر رد عمل دیا ہے۔ اس اتحاد کی گہرائی پر تبصروں و تجزیوں کا آغاز ہو چکا ہے۔ اب یہ سلسلہ دراز ہوتا جائے گا۔ لگتا ہے اب کے برس موسم بہار اور شاید موسم گرما میں بھی یہ موضوع دنیا بھر کے دانشوروں کی توجہ کا مرکز بنا رہے گا۔ چین اور روس نے دنیا کو درپیش سنگین ترین مسائل کو پانچ ہزار پانچ سو الفاظ میں سمونے کی کوشش کی ہے۔ دونوں ممالک نے جو اعلامیہ جاری کیا، وہ ہمارے دور کی اس نئی سرد جنگ کے پس منظر اور پیش منظر پر روشنی ڈالتا ہے، اور سرد جنگ کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔ اس اعلامیہ میں بیان کردہ بہت سارے مسائل خود اس اعلامیہ سے واضح ہیں‘ لیکن بہت سارے پیغامات بین السطور ہیں، جن کی تعبیر و تشریح کی ضرورت ہے۔ سرمائی اولمپکس میں پوتن‘ شی جن پنگ ملاقات اور پانچ ہزار پانچ سو الفاظ پر مشتمل مشترکہ اعلامیہ ایک نئی حقیقت کا اظہار کر رہا ہے۔ نئی حقیقت یہ ہے کہ جیسے جیسے یوکرائن کا بحران ابلتے ہوئے نقطے کے قریب پہنچ رہا ہے، روس کو الگ تھلگ کرنے اور سزا دینے کی امریکی کوشش ناکام ہوتی نظر آرہی ہے۔ ولادیمیر پوتن نے چار فروری کو سرمائی اولمپکس کے آغاز کے لیے بیجنگ کے سفر کے دوران اپنے بڑے پڑوسی شی جن پنگ سے ملاقات کی، جو اس بحران کے وقت میں ان کے سب سے اہم اتحادی بن چکے ہیں‘ لیکن اس دورے سے بھی بہت پہلے گزشتہ دسمبر میں پوتن اور شی جن پنگ کے مابین ایک تفصیلی فون کال کے دوران چینی رہنما روس کے اس مطالبے کی حمایت کر چکے ہیں کہ یوکرائن کو کسی صورت نیٹو میں شامل نہیں ہونا چاہیے۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں‘ ایک دہائی پہلے مذکورہ دونوں ممالک کے مابین اس طرح کے تعلقات کا کوئی امکان نظر نہیں آتا تھا۔ دس سال پہلے چین اور روس اتنے ہی حریف تھے، جتنی ان میں شراکت داری تھی‘ لیکن ایک مدت امریکہ کے ساتھ مسلسل کشیدگی کی کیفیت میں گزارنے بعد دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے بارے میں اپنی رویّوں اور پالیسیوں میں بنیادی تبدیلی پیدا کی ہے۔ پوتن کے لیے شی جن پنگ کی حمایت ماسکو اور بیجنگ‘ دونوں کے مشترکہ مفادات اور یکساں قسم کے عالمی نظریات کی عکاسی کرتی ہے۔ سرمائی اولمپکس پر ملاقات میں دونوں نے اتفاق کیا کہ ''بعض بین الاقوامی قوتیں‘‘ جمہوریت اور انسانی حقوق کی آڑ میں چین اور روس کے اندرونی معاملات میں مداخلت کر رہی ہیں‘‘۔ ان ''قوتوں‘‘ سے واضح طور پر مراد ریاست ہائے متحدہ امریکہ ہے؛ چنانچہ روسی اور چینی رہنما اس وقت اس یقین کے ساتھ متحد ہونے کا اعلان کر رہے ہیں کہ امریکہ ان کو، ان کی حامی حکومتوں کو‘ کمزور کرنے اور ان کا تختہ الٹنے کی سازش کر رہا ہے۔ یہ حالات کی ستم ظریفی ہے کہ کمیونزم کے عروج کے دور میں روس اور چین نے دنیا بھر میں انقلابی قوتوں کی حمایت کی‘ لیکن آج ماسکو اور بیجنگ نے ردِ انقلاب کا نیا راستہ اپنا لیا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال یہ ہے حال ہی میں قازقستان میں بدامنی پھیلی تو، پوتن نے امریکہ پر الزام لگایا کہ وہ اس ملک میں ''رنگین انقلاب‘‘ کی سرپرستی کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ رنگین انقلاب کی اصطلاح روایتی طور پر احتجاجی اور انقلابی تحریکوں کے لیے استعمال ہوتی رہی ہے۔ ماسکو کا طویل عرصے سے یہ استدلال ہے کہ دو ہزار تیرہ اور چودہ کی یوکرائن کی بغاوت کے پیچھے امریکہ کا خفیہ ہاتھ تھا، جس میں ایک روس نواز رہنما کا تختہ الٹ دیا گیا تھا۔ دوسری طرف چین کا یہ مسلسل اصرار ہے کہ دو ہزار انیس کے ہانگ کانگ کے بڑے مظاہروں کے پیچھے امریکہ کا ہی ہاتھ تھا، جو بالآخر بیجنگ کے حکم پر کریک ڈاؤن کے ذریعے سختی سے کچل دیے گئے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ایک اندازے کے مطابق ایک لاکھ روسی فوجی یوکرائن کی سرحد پر جمع ہو چکے ہیں۔ اس پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ دو ہزار بائیس میں، پوتن اور شی جن پنگ دنیا کو خود مختاری کے لیے محفوظ بنانے کے حوالے سے پُرعزم ہیں؛ تاہم روس اور چین کے عزائم مکمل طور پر دفاعی ہونے سے بہت دور ہیں۔ دونوں کا خیال ہے کہ ''رنگین انقلابات‘‘ کا خطرہ موجودہ ورلڈ آرڈر میں بنیادی خامیوں سے پیدا ہوتا ہے۔ اداروں، نظریات اور طاقت کے ڈھانچے کا مجموعہ اس بات کا تعین کرتا ہے کہ عالمی سیاست کیسے چلتی ہے۔ نتیجے کے طور پر دونوں مل کر ایک نیا ورلڈ آرڈر بنانے کے عزم کا اظہار کرتے ہیں، جو روس اور چین کے مفادات کو بہتر طور پر ایڈجسٹ کرے گا۔ موجودہ ورلڈ آرڈر کی جن چیزوں پر روسی اور چینی کثرت سے اعتراض کرتے ہیں ان میں ایک ہے یونی پولر نظام ہے۔ اگر آسان الفاظ میں بیان کیا جائے تو وہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ انتظامات امریکہ کو بہت زیادہ طاقت دیتے ہیں، اور وہ اسے تبدیل کرنے کیلئے پُرعزم ہیں۔ ''یونی پولیرٹی‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ سوویت یونین کے انہدام کے بعد دنیا کے پاس صرف ایک سپر پاور رہ گئی ہے، جس نے دنیا پر اپنی اجارہ داری قائم کر لی ہے۔ فیوڈور لوکیانوف ایک روسی خارجہ پالیسی کے مفکر ہیں، اور صدر پوتن کے بہت قریب ہیں۔ اس روسی مفکر کا خیال ہے کہ یونی پولیرٹی نے ''امریکہ کو عالمی سطح پر اپنی مرضی کرنے کی صلاحیت اور امکان فراہم کیا‘‘۔ وہ کہتے ہیں کہ امریکی تسلط کے نئے دور کا آغاز انیس سو اکانوے کی خلیجی جنگ سے ہوا‘ جس میں امریکہ نے صدام حسین کے عراق کو کویت سے باہر نکالنے کے لیے ایک عالمی اتحاد بنایا تھا۔ خلیجی جنگ کے بعد انیس سو نوے کی دہائی میں بوسنیا اور کوسوو سمیت دنیا بھر میں امریکی قیادت میں فوجی مداخلتوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ انیس سو ننانوے میں سربیا کے دارالحکومت بلغراد پر نیٹو کی بمباری نے طویل عرصے سے روس کی اس دلیل کو وزن دیا کہ نیٹو خالصتاً دفاعی اتحاد نہیں ہے۔ نائن ون ون کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد، نیٹو نے افغانستان پر حملہ کیا۔ لوکیانوف کے مطابق، یہ امریکہ نے ''دنیا کو زبردستی تبدیل کرنے‘‘ کے لیے اپنی خواہش اور صلاحیت کا مظاہرہ کیا تھا‘ لیکن افغانستان میں امریکہ کی شکست، اور دو ہزار اکیس کے موسم گرما میں کابل سے افراتفری پر مبنی انخلا نے روسیوں کو امید دلائی ہے کہ امریکہ کی قیادت میں موجودہ عالمی نظام یعنی ورلڈ آرڈر تباہ ہو رہا ہے۔
لوکیانوف کا خیال ہے کہ طالبان کے ہاتھوں کابل کا کنٹرول ''دیوار برلن کے گرنے سے کم تاریخی اور علامتی نہیں تھا‘‘۔ چین کے بااثر ماہرینِ تعلیم بھی اسی طرح سوچ رہے ہیں۔ بیجنگ میں سنگھوا یونیورسٹی کے سکول آف انٹرنیشنل ریلیشنز کے ڈین یان زیوتونگ لکھتے ہیں ''چین کا ماننا ہے کہ اس کی عظیم طاقت کی حیثیت میں اضافہ اسے عالمی معاملات میں ایک نئے کردار کا حق دار بناتا ہے‘‘۔ روس کی طرح بعض چینی دانشوروں کا خیال ہے کہ ''امریکہ کی قیادت میں عالمی نظام ختم ہو رہا ہے‘‘۔ اس کی جگہ ملٹی پولر آرڈر آئے گا۔ خود صدر شی جن پنگ نے اپنے اکثر دہرائے جانے والے اس دعوے کے ساتھ اور بھی یقین کے ساتھ کہا ہے کہ ''مشرق آگے بڑھ رہا ہے اور مغرب زوال پذیر ہے‘‘۔ روس و چین کے اس اتحاد کا تفصیلی احوال آئندہ کبھی پیش کیا جائے گا۔