گزشتہ کالم میں عرض کیا تھا کہ برطانوی حکام ہندوستان کی شاہی ریاستوں کے مستقبل کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کئی بار کر چکے تھے۔ اگر اس معاملے میں کوئی ابہام تھا بھی تو وہ 1942 ء میں کرپس مشن کے دورے کے دوران دور ہو گیا تھا۔ اس موقع پر برطانوی حکام نے ایک بار پھر واضح کیا کہ شاہی ریاستوں پر برطانیہ کو جو اقتدار اعلیٰ حاصل ہے‘ واپس ریاستوں کو منتقل ہو جائے گا۔ سرسٹیفورڈ کرپس نے چیمبر آف پرنسس کی سٹینڈ نگ کمیٹی کو بتایا کہ نئی یونین کو ریاستوں پر کوئی اختیار یا برتری حاصل نہیں ہو گی اور نہ ہی اقتدارِ اعلیٰ کو یونین کے حوالے کرنے کا کوئی سوال پیدا ہوتا ہے۔ آگے چل کر1946ء میں کیبنٹ مشن میں اس معاملے کی مزید وضاحت کی گئی۔ کیبنٹ مشن نے اقتدار اعلیٰ کی منتقلی پر باقاعدہ یادداشت شائع کی جس میں کہا گیا کہ ایک دفعہ جب برطانیہ کی بالادستی ختم ہو جائے گی تو ریاستیں جن حقوق سے تاجِ برطانیہ کے سامنے دستبردار ہوئی تھیں‘ وہ ان کو واپس کر دیے جائیں گے۔ یہ عبارت واضح طور پر گورنمنٹ آف انڈیا کے وائٹ پیپر میں موجود ہے۔ اس وقت کے انگریز سیکرٹری آف سٹیٹس لیو آمرے نے ایک قدم آگے بڑھ کر یہ واضح کیا کہ برطانوی حکومت ریاستوں کے ساتھ ہونے والے معاہدوں کی پاسداری کے لیے تیار ہے۔ ہم ریاستوں سے کیے گئے معاہدوں کے تحت اپنی ذمہ داریوں سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ وائسرائے لارڈ لنلتھگو نے بھی واضح کیا کہ ریاستوں کی طرف سے جنگ میں مدد اور ہندوستان میں کانگرس کی بغاوت کو دبانے میں جو تعاون کیا اس کو سامنے رکھتے ہوئے ہم اپنے ان وفا دار دوستوں اور مدد گاروں کو فراموش نہیں کر سکتے۔ اس نے لارڈ ویول کو لکھا کہ جو کچھ ہم صوبوں کودے رہے ہیں‘ ریاستوں کو اس سے انکار نہیں کر نا چاہیے۔ برطانوی عہدیداروں کے بیانات سے کئی ریاستوں کو یقین ہو گیا کہ وہ خود مختاری کا راستہ اختیار کر سکتی ہیں۔ اس سوچ کے عام ہونے کے بعد ریاستوں کو مسلم لیگ کی پالیسی میں کشش محسوس ہونی شروع ہوئی۔ مسلم لیگ کا یہ واضح موقف تھا کہ راجوں مہاراجوں کوکس قسم کی بیرونی مداخلت یا اندرونی دباؤ کے بغیر اپنے معاملات چلانے یا مستقبل کے بارے میں فیصلہ کرنے کا اختیار ہو۔ بیرونی مداخلت سے مراد یہ تھی کہ برطانوی حکومت کے دباؤ کے بغیر فیصلہ کریں اور اندرونی دباؤ کا مطلب یہ تھا کہ راجوں مہاراجوں کے لیے اپنی رعایا سے رائے لینے یا رعایا کی مرضی کے تحت کسی ایک ملک کے ساتھ الحاق کی ضرورت نہیں ہے۔
ہندوستان کی شاہی ریاستوں میں خود مختاری کئی چھوٹی بڑی ریاستوں کا پسندیدہ آپشن تھا‘ ریاست حیدر آباد نے تو1942ء میں ہی اس سلسلے میں گورنمنٹ آف انڈیا کو قانونی نوٹس جاری کر دیا تھا۔ اس نوٹس میں یہ واضح کیا گیا تھا کہ انگریزوں کی طرف سے اختیارات کی منتقلی کے بعد ریاست یونین آف انڈیا کے برابر خود مختار حیثیت اختیار کرنے کی توقع رکھتی ہے۔ حیدر آباد کے علاوہ ریاست Travancoreکے دیوان نے بھی اپنی ریاست کے مستقبل کے حوالے سے اپنا موقف واضح کیا۔ مارچ 1943 ء میں اس نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو بتایا کہ کئی ریاستوں کا ارادہ ہے کہ وہ خود مختار شکل اختیار کریںاور ریاست تراونکورکے علاوہ کئی دوسری ریاستیں بھی دولت مشترکہ کی رکنیت کے لیے درخواست دیں گی۔ اسی طرح ریاست بھوپال کے نواب نے خود مختاری کو اپنی ریاست کا واحد قابلِ عمل راستہ قرار دیا۔ نواب نے وائسرائے کو بتایا کہ اس کی مجبوری یہ ہے کہ ایک لاکھ پچاس ہزار مسلمان فوجی ہیں اور یہ لوگ نواب کوکسی صورت میں ہندو اکثریتی ڈومنین کے ساتھ شامل ہونے کی اجازت نہیں دیں گے۔ ریاست جموں کشمیر کی بھی یہی صورتحال تھی‘ جہاں مہاراجہ ہری سنگھ ریاست کو خود مختار رکھنے کا خواہشمند تھا۔
اب اس صورت میں ریاستوں کی خود مختاری کا آپشن مسلم لیگ کے حق میں تھا۔ چونکہ مسلم لیگ جن علاقوں پر پاکستان بنانے کی خواں تھی ان میں سے اگر ایک آدھ ریاست کو خود مختاری کا آپشن اختیار کر بھی لیتی تو ان کا کوئی بڑا رقبہ ان کے ہاتھ سے نہیں نکلتا تھا۔ دوسری طرف کانگرس کے لیے خود مختاری کا آپشن رقبہ کے اعتبار سے بہت بڑا نقصان ہوتا‘ چونکہ اس آپشن کی موجودگی میں کئی ایک ریاستیں خود مختاری کا اعلان کرتیں۔ پنڈت جواہرلال نہرو‘ سردار پٹیل اور گاندھی کا خیال تھا کہ خود مختار ریاستیں انڈیا کے مستقبل کے لیے ایک مستقل خطرہ ہوں گی۔ پنڈت نہرو نے ماؤنٹ بیٹن کو بار بار یہ باور کرایا تھا کہ اس طرح ریاستوں کو آزادی کا آپشن انڈیا کے ٹکڑے ٹکرے کرنے کے مترادف ہو گا۔
ریاستوں کے مستقبل کے بارے میں یہ صورتحال پیچیدہ تھی‘ جو آگے چل کر مزید پیچیدہ ہو گئی۔ جنگ کے خاتمے کے بعد حکومت برطانیہ نے اپنی ترجیحات اور ضروریات کا از سرنو تعین کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس میں ایک بڑا فیصلہ یہ تھا کہ حیدر آباد سمیت کسی ریاست کو بھی براہ راست حکومت برطانیہ کے ساتھ سفارتی تعلق بنانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ یہ اس وقت جنگ کی وجہ سے قرضوں میں ڈوبے ہوئے انگلستان کی نئی ترجیح تھی کہ بھارت کو ہر صورت میں دولت مشترکہ میں رکھنا تھا۔ کانگرس اور ریاستوں میں سے کسی ایک کے انتخاب پرEarl of Listowel نے اپنے نوٹس میں لکھا کہ اگر آج ہم یہ کہہ دیں کہ ہم ریاستوں کے ساتھ علیحدہ تعلق قائم کرنے کے لیے تیار ہیں تو ہم پر ہندوستان کے حصے بخرے کرنے کا الزام لگ سکتا ہے اور کانگرس ڈومنین سٹیٹس کے لیے دی گئی درخواست واپس لے سکتی ہے۔ اس کے بعد وائسرائے اور کانگرس کے درمیان اس پر اتفاق ہو گیا کہ ہندوستان میں خود مختار ریاستوں کا قیام بھارت کے ساحلی علاقوں کی سکیورٹی اور ہندوستان کی ترقی کے لیے ایک بڑا مسئلہ بن جائے گا، لیکن اس سمجھوتے کے باوجود بظاہر لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے حکومت برطانیہ کی سرکاری پالیسی کو جاری رکھا۔ اس نے بار بار واضح کیا کہ اگر ریاستیں خود مختاری کا فیصلہ کریں گی تو ہم ان کو تسلیم کریں گے۔ اقتدار کی منتقلی پر جو بیان 3 جون کو جاری کیا گیا اس کو1946 ء کے میمورنڈم میں بھی شامل کیا گیا۔ ''Inside Story of the Mountbatten Days‘‘ میں اس کی تفصیل موجود ہے۔ پریس کے نمائندے کے سوال کے جواب میں ماؤنٹ بیٹن نے کہا کہ اپ کا کیا خیال ہے کہ ہم آخری دنوں میں ریاستوں سے کیے گئے سارے معاہدے پھاڑ کر پھینک دیں‘ اور ان کو بتائیں کے وہ کسی ایک آئین ساز اسمبلی کے ساتھ شامل ہو جائیں؟۔ میں ان معاہدوں سے نہیں پھر سکتا‘ جو ان سے کئی سال پہلے کیے گئے تھے۔ ماؤنٹ بیٹن کا یہ واضح بیان ان ریاستوں کے لیے کافی تھا جو خود مختاری کی حامی تھیں۔ دوسری طرف مسلم لیگ کی پالیسی میں اگرچہ ایک تبدیلی آ رہی تھی مگر عوامی سطح پر وہ اپنے موقف پر ڈٹی رہی۔ اس موضوع پر اُس وقت کے وزیر خزانہ اور لیگی رہنما لیاقت علی خان نے پریس کے سامنے اپنی پوزیشن واضح کی۔ انہوں نے کہا کہ ریاستوں کا یہ حق ہے کہ وہ انڈین آئین ساز اسمبلی سے کسی قسم کا تعلق رکھنے سے انکار کر دیں۔ جب ہندوستان کے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کر لیا گیا تو ریاستیں پاکستان یا بھارت میں سے کسی ایک کے ساتھ کوئی معاہدہ یا اپنے لیے خود مختاری کا راستہ اختیار کر سکتی ہیں۔ ان سب بیانات سے ریاستوں کو یہ تاثر ملا کہ وہ خود مختار رہ سکتی ہیںاور انہوں نے خود مختاری کے خواب دیکھنا شروع کر دیے‘ جبکہ حقیقت اس کے برعکس تھی‘ جس کا احوال پھر کبھی پیش کیا جائے گا۔