گزشتہ کالم میں ہندوستان میں شاہی ریاستوں کے حوالے سے مسلم لیگ کی پالیسی کا احوال بیان کیا تھا۔ عرض کیا تھا کہ ریاست جموں وکشمیر کے بارے میں بھی آل انڈیا مسلم لیگ کی وہی پالیسی تھی، جو باقی شاہی ریاستوں کے بارے میں تھی۔
مسلم لیگ اور قائد اعظم کے بارے میں خالد شمس الحسن کی مرتب کردہ دستاویزات میں اس وقت کی کشمیر کی صورت حال کا خلاصہ موجود ہے۔ کشمیر کی اس وقت کی صورت کے بارے میں رپورٹ اکتوبر انیس سو چھیالیس میں آل انڈیا مسلم لیگ کی ایکشن کمیٹی کو پیش کی گئی۔ اس میں موجود تفصیلات کے مطابق ایک کشمیری وفد نے مسلم لیگ کی ایکشن کمیٹی سے التجا کی کہ مسلم لیگ ریاست جموں و کشمیر کے حوالے سے اپنی پالیسی میں تبدیلی لائے۔ وفد نے اپنی گزارشات میں کہا تھا کہ کشمیر اپنی غالب مسلم اکثریت کے ساتھ پاکستان کی تحریک میں ایک فیصلہ کن کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔ یہ کردار اس وقت تک ادا نہیں کیا جا سکتا، جب تک مسلم لیگ ریاستوں کے بارے میں اپنی پالیسی میں تبدیلی نہ لائے۔ مسلم لیگ کی طرف سے ریاستوں کے بارے میں عدم مداخلت اور لا تعلقی کی پالیسی ممکن ہے کچھ اور ریاستوں کے بارے میں درست ہو، لیکن کشمیر پر اس کا اطلاق نہیں ہونا چاہیے۔ کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت ہے، اور ان میں سے کچھ لوگ تحریک پاکستان میں حصہ لینا چاہتے ہیں، مگر مسلم لیگ کے آئین کے مطابق ریاستی مسلمان مسلم لیگ کی جنرل کونسل کا ممبر نہیں بن سکتا۔
اس طرح کی اپیلوں کے باوجود مسلم لیگ نے اپنی پالیسی جاری رکھی، جس کا راز یہ تھا کہ مسلم لیگ راجوں مہا راجوں کو کئی بار یقین دلا چکی تھی کہ وہ ریاستی معاملات میں مداخلت نہیں کرے گی۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے ریاستوں کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کی دیرینہ پالیسی پر گامزن رہتے ہوئے کشمیری مسلمانوں کے مسائل پر وائسرائے سے انیس سو تینتالیس اور انیس سو پینتالیس میں دو مرتبہ بات کی۔ کشمیر کے مسلمانوں کے مسائل میں گہری دلچسپی کے باوجود انہوں نے باربار واضح کیا کہ وہ کشمیر میں مہاراجہ ہری سنگھ کے خلاف کسی راست اقدام کی حمایت نہیں کریں گے۔ کشمیر کے حوالے سے ان کی ان کوششوں کی تفصیل بہادر یار جنگ اور لارڈ ویول کے نام خطوط میں بھی موجود ہے۔ کشمیری مسلم وفود نے جب بھی قائد سے مشورہ مانگا‘ ان کو اپنے حکمرانوں سے وفادار رہنے کا مشورہ دیا گیا۔
اخبار ڈان نے انیس سو چھیالیس میں اس موضوع کا تفصیلی احاطہ کرتے ہوئے لکھا کہ جہاں تک مسلم لیگ کا تعلق ہے، اس کی ریاستوں میں شاہی نظام کے خلاف کوئی مہم چلانے یا ان کے لیے مشکلات پیدا کرنے کی کوئی خواہش نہیں ہے۔ قائد اعظم کی اس ریاستی پالیسی کی ایک مقبول توجیہ یہ تھی کہ شاہی ریاستوں میں مسلمان زیادہ تر اقلیت میں تھے‘ اور جہاں وہ اقلیت میں نہیں تھے، وہاں بھی وہ ریاستی حکمرانوں کے خلاف کوئی منظم احتجاج کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔ ریاست حیدر آباد اور کشمیر کے علاوہ کسی بھی ریاست میں مسلمان نہ تو کسی پلیٹ فارم پر یکجا تھے، اور نہ ہی ان کا سیاسی شعور اتنا پختہ تھا کہ وہ ریاستی حکمرانوں کے لیے کوئی خطرہ پیدا کر سکیں۔
حیدر آباد میں اتحادالمسلمین وہاں کے مسلمانوں کی نمائندگی کی دعوے دار تھی۔ یہ بنیادی طور پر حیدر آبادی مسلمان اشرافیہ کی نمائندہ جماعت تھی۔ انیس سو سینتالیس کے آخر تک اس کی رکنیت نو لاکھ سے تجاوز کر چکی تھی، مگر اس کی قیادت کے بڑے مسئلے تھے۔ بہادر یار جنگ پر ایک وقت میں حیدر آباد کے شودروں کو زبردستی مسلمان بنانے کا الزام تھا۔ دوسری طرف ان کی شہرت ایک کٹر مذہبی کی تھی۔ ان کے خیالات قائد اعظم کے لیے ناقابل قبول تھے۔ کراچی میں لیگ کی انیس سو تینتالیس کے دسمبر میں منعقد ہونے والی مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں انہوں نے جو تقریر کی اسے مسلم لیگی رہنماؤں نے سخت ناپسند کیا۔ اس وقت قائد اعظم کے ذہن میں نسبتاً بڑا پاکستان تھا، جس میں مسلمانوں کے علاوہ بڑی تعداد میں ہندو اور سکھ بھی ہوتے۔
حیدر آباد کی طرح اس وقت ریاست جموں و کشمیر کی صورت حال بھی مسلم لیگ کے نقطہ نظر سے ان کے حق میں نہیں تھی۔ بیس اگست انیس سو تینتالیس کو کشمیر کی صورت حال پر ایک ر پورٹ قائد اعظم محمد علی جناح کو پیش کی گئی۔ اس رپورٹ کا پس منظر یہ تھا کہ ان کو جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کی طرف سے مسلسل مدد کی اپیلیں موصول ہو رہی تھیں۔ ان اپیلوں کے جواب میں انہوں نے کشمیر کی صورت حال کا فرسٹ ہنڈ جائزہ لینے کے لیے اپنا ایک نمائندہ ارسال کیا۔ کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ یہ نمائندہ ان کا پرائیویٹ سیکرٹری کے ایچ خورشید تھا‘ لیکن جو لوگ کے ایچ خورشید صاحب کو قریب سے جانتے ہیں وہ یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ یہ رپورٹ وہ لکھ سکتے تھے۔
بہرکیف نمائندے نے جو رپورٹ پیش کی اس کے مطابق ''اگرچہ کشمیر کے عام مسلمان مسلم لیگ کے پروگرام سے واقف ہیں، لیکن وہ لیگ کی تحریک کے بنیادی اغراض و مقاصد سے قطعی نا بلد ہیں۔ ان کو مسلم لیگ کے اغراض و مقاصد سے روشناس کرانے کے لیے سخت محنت درکار ہو گی۔ قائد اعظم کو جو رپورٹ پیش کی گئی اس سے ملتی جلتی رپورٹ پنڈت جواہر لال نہرو کو بھی پیش کی گئی۔ یہ رپورٹ ''اے شارٹ نوٹ آن کشمیر‘‘ کے عنوان سے نہرو پیپرز میں شامل ہے۔ نیشنل کانفرنس کی ممبر شپ پر رپورٹ کرتے ہوئے دار ناتھ کچرو نے پنڈت نہرو کو بتایا تھا کہ شیخ عبداللہ کے سوا نیشنل کانفرنس کے بیشتر لیڈر انتہائی پسماندہ ہیں، ان کی اکثریت ریاست کے اندر اپنی جدوجہد کو سمجھتی ہی نہیں ہے۔
عملی سیاست کے تقاضوں کے پیش نظر مسلم لیگ کے لیے یہ بات پریشان کن تھی کہ کشمیری مسلمان متحد نہیں تھے۔ چھوٹے موٹے گروہوں کے علاوہ کشمیری مسلمان دو بڑے دھڑوں میں تقسیم تھے۔ ایک طرف مسلم کانفرنس تھی، جو پاکستان کی پُر جوش حامی تھی، اور پنجاب کے مسلم لیگی لیڈروں کے ساتھ اس کے روابط تھے۔ دوسری طرف بڑی اور مقبول جماعت سیکولر نیشنل کانفرنس تھی۔ نیشنل کانفرنس نے اپنے انیس سو پینتالیس کے سالانہ کنونشن میں پنڈت جواہر لال نہرو اور خان عبدالغفار خان کو مدعو کیا، اور انڈین نیشنل کانگرس کی طرف واضح جھکائو کا اظہار کیا تھا۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے کشمیری رہنماؤں کے درمیان اتحاد کے لیے کئی کوششیں کیں۔
اکتوبر انیس سو تینتالیس میں ان کی لاہور میں چودھری غلام عباس سے طویل ملاقات ہوئی۔ اس کے بعد اگلے سال مارچ میں انہوں نے شیخ عبداللہ سے ملاقات کی۔ شیخ عبداللہ کی دعوت پر انہوں نے کشمیر کا دورہ کیا‘ مگر اس دورے کے بعد قائد اعظم نے کہا کہ میں نے کشمیری مسلمانوں کو ایک جھنڈا اور ایک پلیٹ فارم پر متحد ہونے کا مشورہ دیا، لیکن شیخ عبداللہ نے یہ تجویز قبول نہیں کی۔ ان کا یہ بیان ڈان اخبار نے پچیس جولائی کو شائع کیا۔ آگے چل کر واقعات نے جو رخ اختیار کیا، اس کا احوال پھر کبھی بیان کیا جائے گا۔