روس اور یوکرین کا مسئلہ ہمارے عہد کا تازہ ترین المیہ ہے۔ اس موسم بہار میں اور شاید اس کے بعد بھی آنے والے کئی موسموں میں اس المیے پر بات ہوتی رہے گی۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ جنگ طویل ہو کر ماضی کی جنگوں کی طرح خوفناک انسانی تباہی و بربادی کا باعث بنے گی اور نئے المیے کو جنم دے گی یا ماضی کے تلخ تجربات کی روشنی میں فریقین اس تنازعے کا جلد از جلد پُر امن حل نکال کر کہ مزید المیوں سے بچنے کی کوئی سبیل کریں گے ؟ اس بات کا دارو مدار فریقین کے عقل و دانش‘ ان کی افتادِ طبع اور عالمی طاقتوں کے مفادات پر ہے۔ اور سب سے زیادہ انحصار ولادیمیر پوتن پر ہے۔
روسی صدر پوتن اس المناک کہانی میں مرکزی کردار ہیں اس لیے ان کی ذات‘ افتادِ طبع اور نفسیات میں دنیا کی دلچسپی بڑھتی جا رہی ہے۔ اس وقت عالمی پریس میںصدر پوتن کو لے کر طرح طرح کے دعوے ہو رہے ہیں۔ ہرشخص اپنی پسند اور ناپسند کے مطابق پوتن کا پوٹریٹ بنا کر پیش کررہا ہے۔ پاکستان میں بائیں بازوں کے کچھ دانشوروں کوپوتن کی شکل میں ایک دیو مالائی انقلابی نظر آ رہا ہے جس نے بالآخر سامراج کو للکار کر دنیا میں طاقت کے توازن کو ازسر نو ترتیب دینے کا بیڑا اٹھا لیا ہے جبکہ کچھ لوگوں کو اس کی ذات میں ایک فاشسٹ ڈکٹیٹر کی شبیہ نظر آتی ہے جو اپنی طاقت اور فوج کے بل بوتے پر ایک کمزور پڑوسی ملک پر حملہ آور ہے۔ دائیں بازوں کے کچھ دانشورپوتن کی اس ادا پر مر مٹے ہیں اور اپنی پسند کے حوالوں کی مدد سے اسے ''راہِ حق ‘‘ کا مجاہد قرار دینے کے لیے انوکھے دلائل لا رہے ہیں۔ کچھ لوگ جو مغرب سے خار رکھتے ہیں وہ مغرب دشمنی میں اسے مشرق کا نجات دہندہ بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ غرضیکہ ہر ایک کے ذہن میںپوتن کا اپنا الگ تصور ہے‘ جس کا شاید حقیقی پوتن‘ اس کی شخصیت اور ذات سے کوئی خاص تعلق نہ ہو۔ صدر پوتن کو سب سے زیادہ قریب سے جاننے والے سنجیدہ لوگوں کا کہنا ہے کہ پوتن ایک پراسرار کردار ہے‘ جس نے اپنی شخصیت کو ہزار پردوں میں چھپا رکھا ہے اور کوئی بھی اسے جاننے کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔
صدر پوتن اس وقت روس کی حکمران اشرافیہ کے سب سے طاقتور شخص ہیں اور تاریخی طور پر سابقہ سوویت یونین کے ساتھ ان کا تعلق بھی بہت گہرا ہے۔ خاندانی طور پر ان کا تعلق سوویت یونین کے عظیم انقلابیوں سے بھی جڑتا ہے۔ ان کا دادا ولادیمیرلینن کا باورچی تھا۔ غالباً سویت سوشلسٹ ریاست میں یہ اس کی مستقل نوکری تھی؛ چنانچہ لینن کے بعد اس نے سٹالن کے باورچی کے طور پر بھی کام کیا۔ اس کا بیٹا یعنی پوتن کا باپ اُس وقت کی سوویت خفیہ ایجنسی میں بھرتی ہو گیا۔ اس طرح پو تن کا خاندانی تعلق اقتدار اور خفیہ ایجنسیوں سے جڑ گیا۔پوتن تعلیم و تربیت کے لیے لاء سکول میں گیا تھا مگر قانون کی تعلیم اس نے وکیل بننے کے لیے نہیں بلکہ کے جی بی میں ملازمت حاصل کرنے کے لیے کی تھی۔ اس بات سے جڑا قصہ یہ ہے کہ پوتن نے ایک ناول پڑھا جو جرمنی میں ایک جاسوس کے کارناموں کے بارے میں تھا۔ یہ ناول پڑھنے کے بعدپوتن نے طے کر لیا کہ اس نے جاسوس بن کر ملک کی خدمت کرنی ہے۔ اس مقصد کے لیے وہ ایک دن ٹہلتا ہوا لینن گراڈ پہنچ گیا جہاں کے جی بی کے اہل کاروں نے اسے قانون کی تعلیم حاصل کرنے کا مشورہ دیا‘ جس کے لیے وہ لاء سکول میں داخل ہوگیا۔ الغرض ایک لمبی جدو جہد کے بعدپوتن اس جاسوس ادارے میں بھرتی ہونے میں کامیاب ہو گیا۔ اس کی پوسٹنگ سرد جنگ کے عروج کے زمانے میں مشرقی جرمنی میں ہوگئی۔ یہاں اس کی ایک ذمہ داری یہ بھی تھی کہ وہ مشرقی جرمنی کی مختلف یونیورسٹیوں میں لاطینی امریکہ سے آئے ہوئے طلبہ میں گھل مل جائے اور ان میں سے کام کے طلبہ کو کے جی بی کے لیے بھرتی کرے۔ یہ کام طلبہ کے ساتھ وقت گزارنے اور ان کے ساتھ امریکہ اور لاطینی امریکہ کی سیاست پر بحث مباحثے کا متقا ضی تھا۔ اس کام کی وجہ سے خودپوتن کو دنیا کی سیاست کو بہت گہرائی سے سمجھنے کا موقع ملا۔کے جی بی کے جاسوس کے طور پر پوتن کو نیٹو کے ممبران کے بارے میں بھی خفیہ معلومات حاصل کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ اس کام سے جو علم اور تجربہ اسے حاصل ہوا وہ آج اس کے کام آرہا ہے۔پوتن بر لن میں ہی تھا جب سویت یونین ٹوٹا‘اور اس ٹوٹ پھوٹ کے دوران جن لوگوں کو سخت ذلت‘ بے عزتی اور صدمے سے گزرنا پڑا ان میںپو تن بھی شامل تھا۔ شاید یہی وہ وقت تھا جب اس نے سیاست میں آنے کا فیصلہ کیا۔
پوتن جب سیاست میں آیا تو اس کا آبائی شہر لینن گراڈ‘ پیٹرزبرگ بن چکا تھا۔ اس نے شہر کے میئر کے انتخابات میں قانون کے ایک سابق پروفیسر سوبچاک کی انتخابی مہم چلائی جس کے بعد وہ خود ڈپٹی مئیر بن گیا۔ اگرچہ اس کے دور میں یہ شہر روس کے جرائم کے دارالحکومت کے نام سے مشہور ہوا مگر سیاست میںپوتن کاداخلہ ہوچکا تھا‘ جو مختلف مراحل سے گزرتا ہوا صدارت تک پہنچا۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس کے اقتدار کو دور دراز تک کوئی خطرہ نظر نہیں آتا۔پوتن کا خاندانی تعلق حکمران طبقات سے ہونے کے باوجود بقول اس کے‘ اس کا بچپن بڑی غربت اور کسمپرسی کی حالت میں گزرا۔ بچپن میں اس کی ایک بڑی مصروفیت یہ تھی کہ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ اپنے اپارٹمنٹ میں دوڑتے ہوئے چوہے شکار کرنے میں لگا رہتا تھا۔ اس نے اپنی جوانی میں سوویت یونین میں سوشلزم کا عروج بھی دیکھا‘ جب انتہائی مختصر عرصے میں لاکھوں لوگوں کو غربت اور تنگدستی سے نکال کر ایک خوشحال اور پرمسرت زندگی کے مواقع مہیا کیے گئے۔ اس نے گورباچوف کا گلاسنوسٹ اور پرسٹرائیکا بھی دیکھا۔ اس نے اس کے بعد کے واقعات کو بھی بہت قریب سے دیکھا جب سوویت یونین ٹوٹ پھوٹ کر شکار ہوااور بورس یلسن نے پولینڈ کے نواح میں واقع ایک شکارگاہ میں بیٹھ کراس عظیم سلطنت کے خاتمے اور یوکرین جیسی ریاستوں کی آزادی کا اعلان کر دیا۔پوتن نے ان واقعات کو گہری تشویش سے دیکھا ضرورمگر اس نے نہ سوشلزم کے نظریات سے اثر قبول کیا اور نہ ہی وہ گلاسنوسٹ اور پرسٹرائیکا کے تحت سوشلسٹ جمہوریت کا حامی بن سکا۔
فیصلہ ساز کی حیثیت سے اس نے بہت عرصہ تک یلسن کی پالیسیوں کو جاری رکھا اور امریکہ اور یورپ کے ساتھ ہر معاملے میں بھر پور تعاون کیا۔ خاندانی سپاہی ہونے کے باوجودپوتن یہ راز جاننے میں ناکام رہا کہ مغرب گوربا چوف سے کیے گئے وعدوں پر قائم رہنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا اور نیٹو کو پھیلانے کا عمل جاری رہے گا۔ یہاں تک کہ نیٹو روس کے بیک یارڈ میں پہنچ گیا۔ اب جو اقدام پوتن نے کیا ہے وہ اس کی ناراضی اور غصے کا اظہار ہے۔ پوتن کوئی انقلابی یا سامراج دشمن مزاحمت کار نہیں‘ صرف ایک روسی قوم پرست ہے جو اقتدار کے لیے جمہوریت کا گلا بھی گھونٹ سکتا ہے۔ اس پر سیاسی مخالفین کو زہر دے کر مارنے سے لے کر سلاخوں کے پیچھے دھکیلنے تک کے سنگین الزامات بھی ہیں۔