گزشتہ دنوں انہی سطور میں عرض کیا تھا کہ برصغیر کی آزادی اور تقسیم کے وقت ہندوستان اور پاکستان‘ دونوں ریاست جموں و کشمیر کو اپنے ساتھ ضم کرنے کے لئے کوشاں تھے لیکن مہاراجہ ہری سنگھ اس وقت تک دونوں میں سے کسی کے ساتھ بھی الحاق کے لیے تیار نہیں تھے۔
دوسری طرف انگریزوں نے انیس سو سینتالیس کے قانون آزادیٔ ہند میں برصغیر سے انگریزوں کے انخلا کی قانونی بنیاد واضح کر دی تھی، اور اس قانون میں برصغیر کی تقسیم کی ضمانت بھی دے دی تھی۔ اقتدار کی منتقلی کو ہموار بنانے کے لیے، برطانوی ہندوستان کی حکومت نے تین جون انیس سو سینتالیس کو ایک معاہدہ قائمہ یعنی ''سٹینڈ سٹل ایگریمنٹ‘‘ تیار کیا تھا، تاکہ وہ تمام انتظامی انتظامات جو برطانوی حکومت اور شاہی ریاستوں کے درمیان پہلے سے موجود تھے، وہ ہندوستان، پاکستان اور شاہی ریاستوں کے درمیان بغیر کسی تبدیلی کے اس وقت تک جاری رہیں، جب تک ان کے درمیان نئے انتظامات نہ ہو جائیں۔ سٹینڈ سٹل ایگریمنٹ کا مسودہ 3 جون 1947 کو برطانوی ہندوستانی حکومت کے پولیٹیکل ڈیپارٹمنٹ نے تیار کیا تھا۔ معاہدے میں یہ شرط فراہم کی گئی تھی کہ برطانوی ولی عہد اور کسی خاص دستخط کنندہ ریاست کے درمیان موجود تمام انتظامات ہندوستان، پاکستان اور ریاست کے درمیان اس وقت تک جوں کے توں رہیں گے، جب تک کہ ان کے درمیان نئے انتظامات نہیں کیے جاتے۔ ایک الگ شیڈول میں مشترکہ تشویش کے معاملات اور انتظامات کی وضاحت کی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ریاستوں کا پاکستان یا بھارت کے ساتھ الحاق یا انضمام کا معاہدہ یعنی ''انسٹرومنٹ آف ایکشن‘‘ کا مسودہ بھی تیار کیا گیا، جو ان ریاستوں کے لیے تھا، جو ان دو ممالک میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کے لیے تیار تھیں، یا مستقبل میں ایسا کرنے کا ارادہ رکھتی تھیں۔
دونوں معاہدوں کا مسودہ 25 جولائی کو چیمبر آف پرنسز میں پیش کیا گیا۔ ان معاہدوں پر بات چیت کے لیے ایک مذاکراتی کمیٹی بنائی گئی تھی، جس میں ریاستوں کے حکمران اور حکومت کے وزرا شامل تھے۔ بحث کے بعد، کمیٹی نے 31 جولائی کو دونوں معاہدوں کے مسودوں کو حتمی شکل دے دی۔
اس وقت تک کئی ایک ریاستیں اپنے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کر چکی تھیں، لیکن کچھ شاہی ریاستیں اس وقت الحاق یا انضمام کے لیے تیار نہیں تھی۔ ان شاہی ریاستوں کے حکمرانوں نے یہ کہہ کر وقت حاصل کرنے کی کوشش کی کہ وہ سٹینڈ سٹل معاہدے پر دستخط کریں گے، لیکن انسٹرومنٹ آف ایکشن پر نہیں، کیونکہ ان کو یہ فیصلہ کرنے کے لیے کچھ وقت درکار ہے۔ اس کے جواب میں، ہندوستان کی برطانوی حکومت نے موقف اختیار کیا کہ وہ صرف ان ریاستوں کے ساتھ سٹینڈ سٹل کے معاہدوں پر دستخط کرے گی، جنہوں نے اسے تسلیم کرنے کا فیصلہ کیا ہے‘ اور وہ اس پر دستخط کرنے کے لیے تیار ہیں۔ پندرہ اگست انیس سو سینتالیس تک، مقررہ ڈیڈ لائن اور ہندوستان کی آزادی کے دن، ہندوستان کے اندر چار شاہی ریاستوں کو چھوڑ کر، تقریباً 560 نے ہندوستان کے ساتھ الحاق اور سٹینڈ سٹل معاہدے‘ دونوں پر دستخط کر دیے تھے۔ ریاست حیدر آباد نے دو ماہ کی مدت کے لیے توسیع حاصل کی تھی۔ ریاست جونا گڑھ نے 15 اگست کو پاکستان کے ساتھ الحاق کے معاہدے کے ساتھ ساتھ سٹینڈ سٹل معاہدے کی پیشکش کی۔ اسے پاکستان نے 13 ستمبر کو قبول کیا تھا۔ ریاست قلات نے بھی پاکستان کے ساتھ سٹینڈ سٹل معاہدہ کیا۔ دوسری طرف ریاست جموں و کشمیر کے حکمران مہاراجہ ہری سنگھ نے بھی اس وقت تک ہندوستان اور پاکستان میں سے کسی کے ساتھ الحاق یا انضمام کا فیصلہ نہیں کیا تھا۔ وہ ریاست کے کسی ایک ملک سے الحاق کے بجائے ریاست کی پوزیشن کو جوں کا توں رکھنے کا حامی تھا، اور پاکستان اور بھارت‘ دونوں کے ساتھ سٹینڈ سٹل ایگریمنٹ کرنے کا خواہشمند تھا۔ مہاراجہ کا وزیر اعظم پنڈت رام چندرہ کاک اس پوری کہانی کا اہم ترین کردار تھا، جو تیس جون انیس سو پینتالیس سے گیارہ اگست انیس سو سینتالیس تک ریاست کا وزیر اعظم رہا تھا، اور ریاست کو خود مختار رکھنے کا خواہشمند تھا۔ برٹش لائبریری لندن کے اورینٹل اور انڈیا آفس کی دستاویزات میں اس کے نوٹس محفوظ ہیں، جس میں اس نے ان دنوں کی روداد بیان کی ہے، اور تاریخ کے تاریک گوشوں سے پردہ اٹھایا ہے، جو اس باب میں انتہائی اہم حیثیت رکھتے ہیں۔ ریاست جموں کشمیر کی یہ صورتحال گیارہ اگست تک برقرار رہی۔ گیارہ اگست کو وزیر اعظم پنڈت کاک کو برطرف کر دیا گیا، اور اس کی جگہ جنک سنگھ کو ریاست جموں و کشمیر کا نیا وزیر اعظم نامزد کر دیا گیا۔
اگلے دن بارہ اگست انیس سو سینتالیس کو، ریاست جموں و کشمیر کے وزیر اعظم جنک سنگھ نے ایک ٹیلی گراہم کے ذریعے ہندوستان اور پاکستان دونوں کے ساتھ سٹینڈ سٹل معاہدہ کرنے کی پیشکش کی، جس میں کہا گیا ''جموں اور کشمیر کی حکومت یونین آف انڈیا اور پاکستان کے ساتھ ان تمام معاملات پر سٹینڈ سٹل معاہدے کا خیرمقدم کرے گی‘ جن پر برطانوی حکومت کے ساتھ انتظامات موجود ہیں۔ پاکستان نے ریاست جموں و کشمیر کی اس پیشکش کو فوراً قبول کر لیا، اور 15 اگست 1947 کو جموں و کشمیر کے وزیر اعظم جنک سنگھ کو ایک تار بھیج کر اس معاہدے کو قبول کرنے کی تصدیق کی؛ تاہم، بھارت نے معاہدہ قبول کرنے سے انکار کر دیا، اور پیشکش کے جواب میں مہاراجہ سے مزید بات چیت کے لیے اپنا نمائندہ دہلی بھیجنے کو کہا ''حکومت ہند کو خوشی ہوگی کہ اگر آپ یا کوئی اور وزیر جو اس سلسلے میں باضابطہ طور پر مجاز ہو‘ کشمیر حکومت اور ہندوستان کے درمیان سٹینڈ سٹل کے معاہدے پر بات چیت کے لئے دہلی آ سکتے ہوں۔ موجودہ معاہدوں اور انتظامی انتظامات کو برقرار رکھنے کے لیے ابتدائی کارروائی ضروری ہے‘‘ لیکن جموں و کشمیر کے کسی نمائندے نے مذاکرات کے لیے دہلی کا دورہ نہیں کیا۔
سٹینڈ سٹل ایگریمنٹ کے باب میں مختلف تاریخی روایات موجود ہیں۔ کچھ مستند تاریخی دانوں نے اس پر اتفاق کیا ہے کہ سٹینڈ سٹل ایگریمنٹ پر با ضابطہ دستخط نہیں ہوئے تھے بلکہ اس معاہدے کی پیشکش بذریعہ ٹیلی گرام کی گئی تھی، اور ٹیلی گراہم کے ذریعے ہی اس کو قبول کیا گیا تھا۔ کرسٹوفر برڈ ووڈ نے اپنی کتاب ''دو قومیں اور کشمیر‘‘ میں لکھا ہے کہ کسی رسمی معاہدے پر کبھی دستخط نہیں ہوئے تھے۔ یہ ایک ٹیلی گرافک معاہدہ تھا؛ تاہم، حکومت پاکستان نے بعد میں اس ٹیلی گرافک معاہدے کو ریاست کے ساتھ تعلقات میں سابقہ برطانوی ہندوستانی حکومت کا درجہ دینے سے تعبیر کیا۔ حکومت ہند نے ریاست کے اس ارادے کا خیر مقدم کیا اور ایک وزارتی نمائندے کو معاہدے پر بات چیت کے لیے دہلی بھیجنے کی درخواست کی، لیکن ریاست کی طرف سے اس کی پیروی نہیں کی گئی۔
ٹیلی گرافک معاہدے نے حکومت پاکستان کو پابند کیا کہ وہ مواصلات، رسد و ڈاک اور ٹیلی گرافک خدمات کے حوالے سے موجودہ انتظامی انتظامات کو جاری رکھے۔ ریاست کی ڈاک اور ٹیلی گرافک خدمات، جو پہلے لاہور میں واقع پنجاب کی صوبائی خدمات کا حصہ تھیں، کو پاکستان نے سنبھال لیا تھا۔ 15 اگست کو کشمیر میں بیشتر ڈاک خانوں پر پاکستانی پرچم لہرا دیئے گئے، لیکن مہاراجہ ہری سنگھ کی حکومت نے یہ پرچم اتارنے کا حکم دے دیا۔ اس طرح سٹینڈ سٹل ایگریمنٹ کے باوجود مہاراجہ ہری سنگھ کی حکومت اور حکومت پاکستان کے درمیان غلط فہمیوں کا آغاز ہوا، جو آگے چل کر سنگین صورت اختیار کرتی چلی گئیں۔ آگے چل کر واقعات نے کیا رخ اختیار کیا؟ اس کا احاطہ آئندہ کسی کالم میں کیا جائے گا۔