روس یوکرین جنگ تین‘ ساڑھے تین ہفتوں کے بعد ایک نیا موڑ لے رہی ہے۔ روس کا یہ دعویٰ سامنے آیا ہے کہ یوکرین امریکہ کی مدد سے بائیولوجیکل ہتھیار بنا رہا ہے۔ امریکہ نے اس کی تردید کرتے ہوئے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ روس اس طرح کے الزامات لگا کر اس جنگ میں حیاتیاتی ا ور کیمیائی ہتھیار استعمال کر سکتا ہے۔
جوں جوں تنازع بڑھتا جا رہا ہے، دونوں اطراف سے خطرناک الزامات اور خطرناک ہتھیاروں کے استعمال کے خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔ کئی حلقوں میں یہ خدشہ پیدا ہو رہا ہے کہ یہ جنگ روایتی میدان سے نکل کر تباہ کن ایٹمی میدان میں بھی داخل ہو سکتی ہے۔ اگر گہرائی سے دیکھا جائے تو یہ جنگ پہلے ہی اس دائرے میں داخل ہو چکی تھی، جب ستائیس فروری کو روسی صدر ولادیمیر پوتن نے کھلے عام ''سٹریٹیجک ڈیٹرنس فورسز کو جنگی ڈیوٹی کے خصوصی موڈ‘‘ میں تیار رہنے کا حکم دیا تھا۔ ان افواج میں جوہری ہتھیاروں سے مسلح فضائی، زمینی اور بحری دستے شامل ہیں۔
پوتن کے اعلان کا یہ مطلب نہیں کہ دنیا ایٹمی بحران کا سامنا کر رہی ہے لیکن یہ اس بات کی نشاندہی ہے کہ دنیا تیزی سے اس طرف بڑھ سکتی ہے۔ جوہری خطرے کی طرح اس بات کے بھی خدشات موجود ہیں کہ روسی آرتھوڈوکسی اور لوگوں کے مذہبی جذبات کو خطرناک ترین ہتھیار بنا کر استعمال کیا جا سکتا ہے۔
جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ سوویت یونین کے انہدام کے بعد سے روسی شناخت، ملکی سیاست اور قومی سلامتی میں روسی آرتھوڈوکس چرچ کا کردار بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ پوتن نے روس کے قومی نظریے میں مذہبی قدامت پسندی کو متعارف کرایا ہے اور سلامتی کے مسائل پر بات کرنے کے لیے مذہبی اصطلاحات کا استعمال عام کیا ہے۔ انہوں نے اس جنگ کو بھی تاریخی جنگوں میں استعمال کردہ مذہبی اصطلاحات کی مدد سے ہی بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ نئے روس میں ریاست اور چرچ کا گٹھ جوڑ فوج میں سب سے زیادہ نظر آتا ہے۔ خاص طور پر جوہری ہتھیاروں کے میدان میں یہ اور بھی نمایاں ہے۔
صورتحال یہ ہے کہ روس کی سٹریٹیجک ڈیٹرنس فورسز میں غیر جوہری اور جوہری صلاحیتیں شامل ہیں‘ لیکن جوہری ہتھیاروں سے مسلح فورسز کو تیار رہنے کا حکم دے کر پوتن نے جنگ کو خالص روایتی مرحلے سے جوہری دائرے کے قریب منتقل کر دیا ہے۔ سرد جنگ کے بعد کے دور میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ کسی جنگ نے جوہری جہت حاصل کی ہے۔
گوکہ سرد جنگ کے بعد اس کی مثال نہیں ملتی، لیکن اس کی پیشگوئی کی جا سکتی تھی۔ روس کے فوجی نظریے میں، جوہری طاقت کے استعمال کا تصور باضابطہ طور پر موجود ہے۔ یوکرینی حملے میں روس نے مغرب کو مفلوج اور خوفزدہ کرنے کیلئے اپنی جوہری فورسز کو تیار رہنے کا حکم دیا، جس سے روس کی روایتی افواج کیلئے بہترین حالات پیدا ہوئے۔
اگرچہ پوتن کا حالیہ حکم ایٹمی حملے کا پیش خیمہ نہیں ہے، لیکن یہ ایک غیرمعمولی اور بڑی پیشرفت ہے۔ اس کے مطابق، روس نے یہ واضح کیا کہ اگراس کی علاقائی سالمیت، خودمختاری اور وجود کو روایتی جارحیت سے خطرہ لاحق ہوا تو وہ اس طرف جانے پرغور کر سکتا ہے۔ روسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اگر حالات اس کا تقاضا کرتے ہیں تو ماسکو مزید سخت اقدامات کرنے پر مجبور ہوجائے گا۔ یہ جامع نیوکلیئر ٹیسٹ پابندی کے معاہدے سے دستبردار ہو سکتا ہے۔ نیا جوہری تجربہ کر سکتا ہے۔ یہ بیلاروس، قازقستان یا شام میں جوہری ہتھیار نصب کر سکتا ہے، جو اس کی قومی سرزمین سے باہر امریکی جوہری تعیناتیوں سے مماثل ہوگا۔ یہ جنگی زون میں ہائپرسونک ہتھیاروں کا استعمال کرنے والا پہلا ملک بھی بن سکتا ہے۔
جہاں تک مذہب کے استعمال کا تعلق ہے تو روسی آرتھوڈوکس چرچ، ملک کی دفاعی اسٹیبلشمنٹ، اور اس کی جوہری قوتوں کے درمیان تین دہائیوں پرانا گٹھ جوڑ ایک ایسا رجحان ہے جسے روسی جوہری آرتھوڈوکسی کہا جاتا ہے۔ یہ وسیع پیمانے پر گردش کرنے والے عوامی عقیدے کا ایک استعارہ ہے۔ پوتن کے خیال میں اپنی روایتی قومی اقدار اور آرتھوڈوکس کردار کو برقرار رکھنے کیلئے، روس کو یہ یقینی بنانا ہوگا کہ وہ ایک مضبوط جوہری طاقت ہے۔ مثال کے طور پر 2007 میں پوتن نے کہا تھا کہ جوہری ہتھیار اور روسی آرتھوڈوکسی ریاست کے دو ستون ہیں: پہلا بیرونی سلامتی کا اہم ضامن ہے، اور دوسرا ملک کی اخلاقی اور روحانی بہبود کا بنیادی ذریعہ ہے۔ روس کی اسٹیبلشمنٹ میں ہرکسی نے اس پُراسرار تصور کو مکمل طورپر قبول نہیں کیا ہے‘ لیکن روس کے دفاعی اشرافیہ نے عام طور پر قوم پرستی، عسکریت پسندی اور قدامت پسندانہ فلسفے کے اس آمیزے کو اپنا لیا ہے۔ اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں کہ روسی آرتھوڈوکس پادری‘ جو فوج کے اندر کام کرتے ہیں، نے جوہری نظام کے اندر کمانڈ کی تمام سطحوں میں اپنی جگہ بنا لی ہے، اور انہوں نے خود کو ریاست کی سٹریٹیجک صلاحیت کے محافظ کے طور پر کھڑا کر دیا ہے۔ دریں اثنا، پوتن کے مذہبی اور فلسفیانہ خیالات‘ ان کے جیوپولیٹیکل وژن اور پالیسی میں واضح ہیں۔ ماسکو نے بارہا کریمیا اور شام میں اپنے جنگی اہداف کیلئے مسیحی اور مذہبی ڈھانچہ پیش کیا، اور اس نے مذہبی علما کو فوجیوں کے ساتھ جنگی علاقوں میں بھیجا۔ موجودہ جنگ میں ریاست اور چرچ کا گٹھ جوڑ بھی ایسا ہی ہے۔ اس وقت پوتن اور ان کے قریبی ساتھیوں میں سے بہت سے لوگوں کو یوکرینی مہم میں سب کچھ کھونے کا خطرہ ہے۔ وہ شکست کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ اس لیے ان کے پیچھے ہٹنے کا امکان نہیں ہے، اور وہ جوہری سیڑھی پر بہت اونچا چڑھنے کے لیے تیار ہو سکتے ہیں تاکہ وہ روسی شرائط پر جنگ ختم کر سکیں، چاہے ایسا کرنے کیلئے جوہری طاقت کے استعمال کی ضرورت ہو، مذہب کا استعمال ہو یا پھر حیاتیاتی اور کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی بات ہو۔
جنگ سے پہلے ماسکو کا خیال تھا کہ اس کے دائرہ کار میں ہونے والے کسی بھی مقابلے میں، روس کے مخالفین فطری طور پر اس کے جوہری خطرات کو قابل اعتبار سمجھیں گے، اور روس کے ساتھ تصادم سے گریز کریں گے‘ لیکن اب جبکہ روس اور مغرب آمنے سامنے ہیں، روس یہ سمجھ سکتا ہے کہ ا یسا نہیں ہے۔ ان حالات میں اگر پوتن اپنے حریفوں کی نظر میں خود کو ایک مسیحی سٹریٹیجک عنصر کے طور پر فروغ دیتے ہیں، اور جوہری طاقت کو کشفی اور الہامی بیان بازی سے بھرتے ہیں، تو ان کا حربہ خاص طور پر موثر ہو سکتا ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ روسی صدر نے اس بحران سے قبل مذہبی زبان استعمال کی۔ انہوں نے اس جنگ کو نیکی کی قوتوں اور برائی کی قوتوں کے درمیان تصادم کے طور پر پیش کیا۔
اس وقت اس بات کے لیے حالات اور بھی زیادہ سازگار ہیں۔ جب لوگ گھرے ہوئے محسوس کرتے ہوں، وہ مایوس ہوں اور اپنی بقا کے بارے میں فکرمند ہوں، تو روس کا صدر زیادہ مسیحا بن سکتا ہے۔ روس کے مذہبی جذبات کو فوجی، دفاعی حکام، اور سیاستدانوں نے پچھلے تنازعات میں استعمال کیا ہے، اور وہ ایک بار پھر ایسا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ان حالات میں جوہری، کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ مذہبی جذبات کے استعمال کے بارے میں فکرمند لوگوں کے خدشات بالکل ہی بے بنیاد نہیں ہیں۔ یہ خدشات ظاہر کرنے والے لوگوں کی بات میں وزن ہے۔ ہمارے اردگرد کی دنیا ابھی تک مکمل محفوظ جگہ نہیں ہے۔ مکمل پر امن سماج کے قیام کے لیے ابھی لمبا سفر درپیش ہے۔